Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ میں پاکستان رائٹرز فورم کا سیمینار

 
 عالمی اُردو مر کز مجلسِ اقبال کے چیئرمین عامر خورشید رضوی نے صدارت کی، پروفیسر اسرارالحق مہمان خصوصی تھے 
 
 
 
پاکستان رائٹرز فورم جدہ کے زیرِ اہتمام جدہ کے ریستوران میں فورم کے چیئرمین انجینئر نیاز احمد کی سرپرستی میں ” عصرِ حاضر کا انسانی المیہ “ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ عالمی اُردو مرکز مجلسِ اقبال کے چیئرمین عامر خورشید رضوی نے صدارت کی ۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر اسرارالحق تھے۔ پاکستان رائٹرز فورم کے اراکین بہجت ایوب نجمی ، عبدالرشید ، توقیر احمد اور زاہد حسین نے انتظامات کی ذمہ داریاں ادا کیں۔نظامت کے فرائض یاسر محمود نے انجام دئیے۔
معروف قاری محمد آصف نے تلاوت قرآن پاک کی۔ معروف نعت خواں محمد شیر افضل نے ہدیہ نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا۔ ناظمِ تقریب یاسر محمود نے پاکستان را ئٹرز فورم کا تعارف پیش کیا۔
اُردو نیوز کے مصطفی حبیب نے اپنے خطاب میں انسانی المیہ کے ناقابلِ فراموش واقعات پیش کئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ جنگ و جدل کے نتیجے میں آج شام ، عراق ، میانمار، کشمیر اور دیگر کئی جگہوں پر بے شمار افراد اپنے ہی ملکوں میں پناہ گزیںہیں اور اقوام متحدہ کی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ المیہ صرف مسلمان ممالک تک محدود نہیں بلکہ یورپ میں بھی دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
  معروف شاعر زمرد خا ن سیفی نے اپنا کلام پیش کیا۔فکا ہیہ نگار محمد امانت اللہ نے کہا کہ دینی علم کو پھیلانے کے ساتھ دنیاوی علم کا پھیلانا بھی ضروری ہے- دیارِ پاک میںکئی دہائیوں سے مقیم افراد اپنے شعبے میں وسیع تجربہ اور قابلیت کے حامل ہیں اُنہیں چاہیے کہ ممالک میں دورانِ تعطیلات اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے دوسروں کو خصوصاً نئی نسل کو اس سے مستفید کریں۔
معروف شاعرانجینیئر محسن علوی نے اپنی مشہور نظم ” اسلام اور عصرِ حاضر “ پیش کی۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر اسرارالحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام کی تاریخ میں سب سے ہولناک وا قعہ تاتاریوں کا حملہ ہے ، منگول قبائل نے ثمرقند سے عراق تک ہر شے کو تباہ کر دیا تھا ۔
اُنہوں نے کہا کہ آج کا زمانہ پہلے ادوار کی نسبت زیادہ سنگین اور تباہ کن ہے ۔مغربی ثقافت کی یلغار اور یورپی استعمار نے ہمیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ہے ۔ ماضی قریب میں مسلمانوں میں وحدتِ ملی اسطرح قائم رہی جس کی مثال نہیں ملتی - د نیا اگرچہ گلوبل ویلج کا درجہ حاصل کر چکی ہے اور فاصلے ختم ہو چکے ہیںلیکن دلوں کے فاصلے بڑھ گئے ہیں اور دلوں میں قدرِ مشترک نہیں۔ ہمیں قوم پرستی ، تعصب اور اخلاقی بگاڑ نے المیے سے دوچار کیا اور جدید دور میں مادیت کی وجہ سے وحدت باقی نہیں رہی اور اس فکر کا فقدان ہے جو انسان کو انسان کے قریب لائے جبکہ نوعِ انسانی کو وحدت کی ضرورت ہے اور وحدت سے دوری کا سبب دین اورقران و حدیث سے دوری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے میں ہی ہماری نجات ہے۔
تقریب کے صدر عامر خورشید رضوی نے اپنے خطاب میںکہا کہ عصرِ حاضر کا المیہ اہم لیکن وسیع موضوع ہے۔ میں تاریخی ، معاشرتی ، اخلاقی اور دینی حوالوں سے چند پہلوﺅں پر گفتگو کروں گا۔ اگر انسانی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو المیوں کا لا متناہی اور دردناک سلسلہ سامنے آتا ہے ۔ افسوس ہے کہ کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر شام ، عراق ، افغانستان ، فلسطین اور کشمیر میں غارت گری کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ اُنہوں نے تہذیبی اور اخلاقی گراوٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ دورِ حاضر میں تہذیبی انحطاط کی ایک اہم وجہ گلوبلائزیشن کا المیہ ہے۔ اس نے ہماری گلیوں ، بازاروں ، دسترخوانوں اور لباس سے ان کی دلکشی اور شناخت چھین لی ، ہمارے رنگ ، خوشبوئیں ، زبانیں اور طریقہ¾ اظہار سب گلوبلائیزیشن کا شکار ہوگئے۔ ہماری دلکش انفرادی شناخت کو درہم برہم کر دیا ، عصرِ حاضر میں نئے روابط استوار کرنے کی صلاحیتیںبھی سلب کر لی ہیں، ہمارے بچے کمپیوٹر ، ٹیبلٹ اور موبائل کی اسکرین تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ کیسی تہذیب فروغ پا رہی ہے جہاں ساتھ بیٹھے ہوئے بچے ایک دوسرے سے باتیں نہیں کرتے ۔
  دورِ حاضر کا ایک اور تلخ المیہ مسلسل معاشی ہجرتیں ہیں جس سے ہمارے معاشرے میں تعلیم ، دانش اور ہنر کا فقدان ہو گیا۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے ہنرمند ترقی پذیر ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور یا مائل ہوئے ہیں جس سے دانش کا خلا پیدا ہوگیا اور واپسی کے امکانات موہوم ہیں۔مہاجرین مغربی ممالک میں تہذیبی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں اور ساری زندگی اپنی شناخت کی جنگ لڑتے رہتے ہیں ، مغرب کی تہذیبی یلغار نے ایک اور المیے کو جنم دیا ہے جس نے ہمارے مثالی کرداروں کو ہم سے چھین لیا ۔ہماری نئی نسل البیرونی ، الخازمی ، ابنِ رشد ، رازی ، غزالی یا ابنِ ہیثم سے تو واقف نہیں لیکن ہالی وڈکے کرداروں کی خوب شناسا ہے ، ہمارے بچے سپرمین ، ننجا ٹرٹل وغیرہ سے تو مانوس ہیں لیکن وہ سندباد جہازی ، شیخ چلی اور تیس مارخان کو فراموش کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے دور کی ستم ظریفی ہے کہ انسان مریخ اور اس سے پرے دوسرے سیاروں کےلئے پابہ رکاب ہے۔دوسری طرف کرہ¾ ارض پر بہت بڑی آبادی کو2 وقت کا کھانا اور پینے کا پانی میسر نہیں ۔ دنیا میں 700ملین سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ المیوں کی بنیاد میں لالچ ، طمع ، ہوسناکی ، حسد ، تعصب ، احساسِ کمتری ، معاشی اور معاشرتی تفریق اور محرومیاں ہیں اور ان کا حل بھی منطق کے اصول کے مطابق فطری طور پر اندرون میں ہی تلاش کیا جائے ۔ اخلاقی برائیوں کو اخلاقی تربیت سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان رائٹرز فورم کے چیئر مین انجینیئر نیاز احمد نے کہا کہ مقررین نے انسانی المیہ کی وجوہ بیان کرنے کے ساتھ اُن کا حل بھی بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں اطراف میں نظر رکھنی چاہیے اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب ِ مقدس ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اسے سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔
تقریب کے اختتام پر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اکیڈمی کے سرپرست بہجت ایوب نجمی نے اجتماعی دعا کے ساتھ انتہائی رقت آمیز انداز میں اُمتِ مسلمہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ کیا ۔
رپورٹ :۔ زمردخان سیفی۔ جدہ
******

شیئر: