Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ساسیانہ چال“

 
سچ یہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی جب میکے سے رخصتی کا خواب دیکھتی ہے تو اسے شوہرنامی کردار سسرال میں پذیرائی کرتا دکھائی دیتا ہے
 
شہزاد اعظم
 
ہم نے نصف صدی قبل اپنے اباجان اور امی جان کے گھر میں آنکھ کھولی اور دیکھا کہ اس گھر میں ہمارا 22ماہ پرانا ایک بھائی ہے، اور اس کے بعد ہم ہیں، یوں امی ابو کی اولاد میں”2نمبر“کا اعزاز ہماری قسمت اور ”2نمبری“ ہماری فطرتِ ثانیہ ٹھہری ۔ہم نے اس دنیا میں ابھی چند ماہ ہی گزارے تھے کہ ہمیں سماجی تانوں بانوں کی سمجھ آنے لگی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ابا جان کی امی جان، جو لگتی تھیں ہماری دادی جان وہ ہماری امی جان کی دشمنِ جان بنی ہوئی تھیں۔اسی طرح ہمارے اباجان کی بہن جان جو لگتی تھیں ہماری پھوپی جان وہ بھی ہماری امی جان کو کہتی توبھابھی جان تھیں مگر ساتھ ہی انہیں طعنے مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔ اسی طرح ہمارے ابوجان کے بھائی جان کی بیگم جان جنہیں ہمارے ابو بھابی جان کہا کرتے تھے وہ ہماری امی جان کی جٹھانی لگتی تھیں اورہماری امی جان کو دلہن جان کہا کرتی تھیں مگر لتے لے لے کر ان کی جان بھی کھائے جاتی تھیں۔ہم چھوٹی سی عمر سے ہی یہ تمام مناظر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتے دیکھتے اسکولی عمر کو پہنچ گئے اور یہ بات اچھی طرح ہماری سمجھ میں آگئی کہ ساس، سوکن، نند ، دیورانی اورجٹھانی یہ انتہائی خوفناک ، خطرناک ،اندوہناک اور وحشتناک قسم کے رشتے ہیں۔سسرال کی تمام دہشت ، ناگواریت اور منافرت انہی رشتوں کے باعث ہوتی ہے مگر کیاکیاجائے کہ یہ سسرال کے ناگزیر، بااختیار اور خونخوار کردار ہوتے ہیں ۔سچ یہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی جب میکے سے رخصتی کا خواب دیکھتی ہے تو اسے شوہرنامی کردار سسرال میں پذیرائی کرتا دکھائی دیتا ہے مگر فوراً ہی جب ا سے ساس، نند ، دیورانی و جٹھانی جیسے رشتوں کی”زہریلی آوازیں“ سنائی دیتی ہیں تو سسرال کی شبیہ انتہائی ہیبت ناک ہوجاتی ہے اور وہ چیخیں مارنے لگتی ہے ، اسی دوران اس کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔ جب اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے جو دیکھا وہ محض خواب تھا تو اسے سکون ملتا ہے ۔گاہے وہ یہ سوچتی ہے کہ ایسے سسرال سے تو بہتر ہے کہ لڑکی شادی ہی نہ کرے تاکہ نہ ہو گی ساس اور نہ چلے گی سیاست۔
اسکول میں داخل ہونے سے قبل تک ہم یہی سمجھا کرتے تھے کہ ساس، نند ، وغیرہ جیسے ناطقہ بند کرنے والے ناپسندیدہ رشتے صرف سسرال یعنی ”کاشانہ¿ خُسر“ میں ہی پائے جاتے ہیں۔”سسراوی چہار دیواری“ کے باہر ایسے کسی ناتے کا وجود نہیں ہوتا مگر اسکول میں ہماری اُستانی مس شکیلہ نے جب ہمیں زیورِ علم سے آراستہ کرنا شروع کیا تو انہوں نے اس” آگہی کے کنگن “بھی پہنائے کہ دلہن کے ساتھ سسرال والے جو سلوک کرتے ہیں، وہی رویہ سیاستدانوں کا عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔کسی بھی ساس کو جب اپنی بہو اور خاص طور پر بہو کے گھر والوں سے کوئی کام پڑتا ہے تو اس کی زبان سے بہو کیلئے دعائیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں، وہ اس کے حسن و جمال، کسبِ کمال، قد قامت اور بال، طرزِ عمل اور چال ، ہر شے کی تعریف کرنے لگتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ بہو نہیں بلکہ ان کے گھر کی بہار، نکھار اور سنگھار ہے۔ پھر جب بہو اپنی ساس کے کہنے کے مطابق اپنے امی ابو سے کام کروا دیتی ہے تو ساس کے تیور فوری بدل جاتے ہیں اور وہ ناک بھوں چڑھا کربہو سے کہتی ہے کہ اتنا ذرا ساکام کر کے تمہاری اماں اور باوا نے کون سا احسان کر دیا۔ لوگ تو اپنے سمدھیانے کے لئے نجانے کیا کچھ کرتے ہیں کیونکہ ا نہیں پتا ہوتا ہے کہ اگر وہ بیٹی کے سسرالی رشتہ داروں کے لئے کوئی کام کریں گے تو وہ کسی پر احسان نہیں ہوگا کیونکہ لازمی سی بات ہے ،ماں باپ اپنی بیٹی اور داماد کی خوشی کی خاطر ہی سب کچھ کرتے ہیں، کسی پہ احسان تھوڑی کرتے ہیں۔
30برس قبل ہم مس شکیلہ کے بعد متعددہستیوں سے ”تعلیمی گہنے“لے کر اپنا”علمی سنگھار“ مکمل کر چکے تھے۔ کراچی میں ”پاپوش“ کے قریب ایک ”نیم پوش“علاقے میں قیام تھا جہاں ہماری دوستی ”کچھ کچھ“ سے ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ پختگی کی تمام حدود عبور کر گئی۔اس دوستی کے 7سال مکمل ہونے پر ہم پردیس چلے آئے۔کچھ عرصے قبل ہم وطن میں تھے ۔ وہاں اپنے پرانے محلے میں لبِ سڑک چکن تکہ خرید رہے تھے کہ وہاں” کچھ کچھ“آگیا، ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کچھ کچھ حیران اور کچھ کچھ پریشان ہوگئے۔ہم گلے ملے، احوال پوچھا اور حسبِ عادت مسائل بیان کرنے لگے۔ ہم نے کہا کہ جب بھی وطن آنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اعزہ و احباب کے لئے تحفے تحائف خریدناسب سے بڑا بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ سیکڑوں ریال اسی پر خرچ ہوجاتے ہیں اس کے باوجود جسے دیکھو وہ شکوہ کرتا سنائی دیتا ہے کہ بھیا میرے لئے فلاں چیز نہیں لائے ، کوئی کہتی ہے کہ فلاں شے منگائی تھی مگر انہوں نے لا کر ہی نہیں دی۔ ”کچھ کچھ“نے کہا کہ میری ساس اس کاایسا علاج بیان فرمائیں گی کہ آپ کی آئندہ 5.5پشتیں یاد رکھیں گی۔ بس اس کے لئے آپ کی ساس کا میری ساس سے ملنا ضروری ہے ، اگربالمشافہ ممکن نہیں تو”بالجوال“تبادلہ¿ خیال کے لئے اپنی بیوی کی والدہ کو میری بیوی کی والدہ کا موبائل نمبر دیدیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اگلے روز ناشتے کی میز پر ہماری اہلیہ فرمانے لگیں کہ آپ کے کوئی دوست” کچھ کچھ“بھی ہیں؟ ہم نے کہا جی ہاں! کیوں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ کل رات ایک فون آیا تھانسوانی آواز تھی ، تعارف یوں کرایا کہ ” کچھ کچھ“میرا داماد ہے ، اس نے آپ کے شوہر کی مشکلات و مسائل کا حل دریافت کیا تھا۔ میںآپ سے صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آئندہ آپ کے نامدارشوہر پردیس سے جب بھی وارد ہونے لگیں، بس 10روز پہلے مجھے اطلاع کر دیجئے ، پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔“ ہم نے بیگم کی بات مکمل ہوتے ہی” کچھ کچھ“ کو فون کر کے شکریہ ادا کیا۔ اس نے کہا کہ آئندہ کسی کے لئے کوئی تحفہ لانے کی چنداں ضرورت نہیں، آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا؟
ہم نے پردیس پہنچ کر دن گننا شروع کر دیئے۔” کچھ کچھ“کی ساس نے ہمیںاپنے منصوبے کی بھنک تک پڑنے نہیں دی۔ بہر حال وہ دن بھی آگیا۔ ہم کراچی کے ہوائی اڈے سے باہر نکلے ۔ ہمیں سسرالی پروٹوکول کے ساتھ کچھ دور پاوں پاوںچلا کر لے جایا گیا، وہاں ہمارے سامنے ایک بس کھڑی تھی جوہمارے سسرالیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ سب نے ہمیں دیکھ کر چیخیں مار دیںاورخوش آمدید کے ”نعرے“ لگائے۔ گھر پہنچے تو سب نے ہمیں تحائف پیش کئے ۔50افراد نے 95تحفے دیئے۔ ہمارا گھر بھر گیا۔ ہم نے ماجرا دریافت کیا تو پتا چلا کہ” کچھ کچھ“کی ساس نے ہماری سسرالی خواتین سے کہہ دیا تھا کہ میرا دامادفلاں روز اپنے دوست کو لینے کے لئے ایئر پورٹ جائے گا، اس نے بس بُک کروا لی ہے ۔ آپ بھی تحائف لے کر آئیے اور بس میں ہمارے ساتھ چلئے گا۔ بس پھر کیا تھا سب کے سب بن سنور کر، ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی تحفے ساتھ لے کر بس میں سوارہو کر پہنچ گئے، ناک، انا اور وقار کا مسئلہ جو آڑے آگیا تھا۔اس کے بعد سے ہم نے سال میں 2مرتبہ وطن کا چکر لگانا شروع کر دیا۔سالے کو دکان کھلوا دی جس میں وہ ہر چھٹے ماہ وصول ہونے والے تحائف فروخت کرتا ہے ، اس کا کاروبار خوب چل رہا ہے ۔“یقین جانئے ! آج ایک سیاسی شخصیت پاکستان پہنچی، لوگ بسوں میں بھر بھر کراستقبال کےلئے پہنچ گئے۔ہمیں” کچھ کچھ“ نے فون پر کہا، لگتا ہے کہ میری ساس کی”ساسیانہ چال“کی خبر کسی طرح مذکورہ ہستی تک پہنچ گئی ہوگی۔ 
******

شیئر: