Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریسرچیات و ڈگریات وغیرہ

 
وہ دن گئے جب پی ایچ ڈی پیدا ہوتے تھے۔اب اسمبل ہوتے ہیں،صرف پیسہ اور تعلقات ہوں تو سپروائزر اپنی مرضی کا رکھوا لیں
 
 وسعت اللہ خان
 
زیادہ پریشان مت ہوں۔ڈگری ہو نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔اکبرِ اعظم کے پاس تو اصلی چھوڑ جعلی تک نہ تھی اور جن کے پاس جعلی یا مشکوک ہے ان کا کسی نے کیا بگاڑ لیا۔جب سابق ایرانی وزیر داخلہ علی کردان ، سابق سویڈش وزیر روزگار سوین آٹو لٹورین ، برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے سابق ڈپٹی چیئرمین جیفری آرچر ، معروف یونانی سیاستداں کوستا مارگریتاس، ٹورنٹو اسٹاک ایکسچینج کے سابق نائب صدر ٹیری پاپاوچ ، سابق کینیڈین پارلیمینٹرین راک بہادریا ، لبنانی رکن پارلیمان انتون زاہرا ، امریکہ کے ہوم لینڈ سیکیورٹی محکمے کی سابق ڈائریکٹر لارا کیلہان ، آئرش حکومت کے مشیرسائنس بیری میکسوینی ، برطانوی سائنس فکشن لکھاری رون ہوبرڈ ، انٹرنیشنل فٹ بال کوچ جارج اولیری ، جنوبی کوریا کے فلمی اداکار اور تھیٹریات کے پروفیسر یانگ می ہی ، اندرا گاندھی کے پوتے ورون گاندھی اور ایوب خان کے پوتے اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر مواصلات یوسف ایوب خان وغیرہ پریشان نہیں تو آپ کیوں دبلے ہو رہے ہیں۔
سابق ایف بی آئی ایجنٹ ایلن ایزل اور جان بئیر کی تحقیق "ڈگری ملز۔ دی بلین ڈالر انڈسٹری"کے مطابق اس وقت لگ بھگ ساڑھے 3 ہزار نام نہاد تعلیمی فیکٹریاں دنیا بھر میں ڈگریاں اور ڈپلومے بانٹ رہی ہیں اور ان میں سے لگ بھگ ایک ہزار فیکٹریاں امریکہ میں ہیں۔ان فیکٹریوں سے سالانہ تقریباً 50 ہزار پی ایچ ڈی پیدا ہو رہے ہیں اور یہ تعداد دنیا بھر میں ہر سال اصلی پی ایچ ڈی کرنے والوں سے ذرا ہی کم ہے۔دھڑکا اگر ہے تو حساس پروفیشنل شعبوں میں دی جانے والی مشکوک اسناد سے ہے۔ذرا تصور کیجئے کہ ایک سرجن جو ڈاکٹر ہی نہیں اور کاک پٹ میں بیٹھا ایک ایوی ایشن ڈپلومہ ہولڈر جو پائلٹ ہی نہیں۔
مگر یہ کاروبار اتنے دھڑلے سے کیوں ؟ وجہ شاید یہ ہے کہ اس دو طرفہ مفید صنعت سے نہ شکاری کو تکلیف ہے اور نہ ہی شکار کو۔ اور جو باسز ان برائیلر ڈگری یافتگان کو نوکری دیتے ہیں وہ اپنی بدنامی کا سوچ کے شور نہیں مچاتے کہ انہوں نے نوکری دینے سے پہلے جعلی یا غیر تسلیم شدہ ڈگری کی چھان پھٹک کیوں نہ کی۔ اس لئے یہ گندہ دھندہ " نہ پوچھو نہ بتاو، بس کام چلاو " کی بنیاد پر جاری ہے ، جاری رہے گا........
اس تعلیمی دیمک کو کنٹرول صرف موثر قانون سازی سے ہی کیا جاسکتا ہے لیکن جب خود قانون ساز ہی دیمک زدہ ہوں تو ؟ گزشتہ عام انتخابات سے تقریباً دو ماہ پہلے یکم مارچ 2013ءکو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان نے اپنے مضمون میں ایک اخباری رپورٹ کا حوالہ دیا کہ 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے والے 13ہزار 490 امیدواروں میں سے تقریباً 2 ہزار امیدواروں کی تعلیمی قابلیت مشکوک تھی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے2010ء میں ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی کی تعلیمی چھان بین کا حکم دیا۔اس پر عملدرآمد میں تقریباً 2 برس لگے۔خدا خدا کرکے مارچ2013ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے الیکشن کمیشن کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 54 سابق ارکان کی پہلی فہرست بھجوائی۔ان میں سے 32 کی اسناد جعلی اور 22 کی مشکوک یا غیر تسلیم شدہ تھیں۔
پھر جیسا کہ رواج ہے یہ چھان پھٹکی بیچ میں ہی رہ گئی کیونکہ تب تک پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہونے لگا تھا۔کوئی رکن پارلیمان اپنا میٹرک کا سرٹیفکیٹ کہیں رکھ کے بھول گیا تو کسی کی انٹرمیڈیٹ کی سند چوہے کتر گئے اور کسی کو بی اے کی اوریجنل ڈگری کے بجائے اس کی ایک فوٹو کاپی مل گئی جو اس قدر مدہم تھی کہ اسے پڑھنے کی کوشش میں ہائر ایجوکیشن کمیشن ہی کے دیدے پھوٹ گئے۔یوں نئے انتخابات کی ہاو ہو میں جعلی تعلیمی مچھلیاں پکڑنے کی پوری مشق مکمل ہونے سے پہلے ہی غتر بود ہوگئی۔
2013ءکے انتخابات کے بعد بھی کئی منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی و وزرا ء وقتاً فوقتاً جعلی اور مشکوک ڈگریوں کے سبب نااہل قرار پا کے مختلف میعاد کی سزائیں یا جرمانے بھگت رہے ہیں مگر ان کے شاندار تعلیمی پس منظر کے سراغ کا سہرا کسی تحقیقاتی ادارے کو نہیں بلکہ ذاتی و سیاسی شکست خوردہ مخالفین کو جاتا ہے۔
مگر میرا سوال یہ ہے کہ جو تعلیمی ادارے قانونی ہیں اور ان کی ڈگریاں اور اسناد اصلی نسلی ہیں وہ عملاً کس قدر حلال اور کارآمد ہیں ؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نزدیک سرقے کی تعریف یہ ہے کہ کسی تحقیقی مقالے میں کم ازکم 20 فیصد ایسا مواد جو بغیر کسی حوالے کے کہیں اور سے اڑا کے اپنے نام سے پیش کیا جائے۔کمیشن نے سرقہ پکڑنے کے لئے بس اتنا کیا کہ2007ءمیں ٹرنیٹن نامی سافٹ وئیر یونیورسٹیوں کو تھما دیالیکن یہ سافٹ وئیر انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان کے مقالے میں چوری پکڑنے سے معذور ہے اور انگریزی مقالوں میں بھی عملاً 10 تا 15 فیصد چوری پکڑنے کے قابل ہے۔باقی محنت سرقہ باز کے حریف و حاسد اساتذہ کو رضاکارانہ کرنا پڑتی ہے۔ اب تک مختلف تعلیمی اداروں میں علمی ڈاکہ زنی کے لگ بھگ 200 کیسز پکڑے جا چکے ہیں۔ 
مگر جس طرح بدنام و معطل پولیس افسر کی تحقیقات پیٹی بھائی کرتے ہیں اسی طرح یونیورسٹی میں بھی ایک 3 رکنی مقامی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔وہ اس کیس کے اوپر جب تک بیٹھ سکتی ہے بیٹھتی ہے اور کچھ ثابت بھی ہوجائے تو لعن طعن کے بعد معاملہ ختم یا پھر ایک آدھ نوکری تیل۔کوئی فوجداری مقدمہ نہیں بنتاکیونکہ اس بارے میں کوئی واضح طے شدہ قانون ہی نہیں۔
وہ دن گئے جب پی ایچ ڈی پیدا ہوتے تھے۔اب اسمبل ہوتے ہیں۔صرف پیسہ اور تعلقات ہوں تو سپروائزر اپنی مرضی کا رکھوا لیں۔40، 50 ہزار میں تھیسس میں لکھ دوں گا۔تھیسس کے معیار کا تعین کرنے والے دیسی بدیسی ماہرین کا انتخاب بھی سپروائزر کا تعلقاتی دردِ سر ہے اور وائیوا ( زبانی امتحان ) تو گھر کی کھیتی ہے۔لیجئے ہوگئی ڈاکٹری۔اگلے ماہ کی تنخواہ میں ریسرچ الاونس بھی شامل ہوجائے گا۔ پھر اسی زبان سے اپنے نونہال شاگردوں کے سامنے گلو گیر ہو کر یہ کھوجنے میں کیا حرج ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم زوال پذیر کیوں ہے۔
******

شیئر: