Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم تاریخ و ثقافت کی کہکشاں ،، سمرقند

اسلام کریموف نے سمرقند کو اسکی حقیقی شناخت دی ،تیموری حکومت میںتجاری قافلوں کا مرکز رہا ، مرزا الوغ بیگ کی رصد گاہ آج بھی ماہرین علوم فلکیات کیلئے مثال ہے 

ارسلان ہاشمی  ۔۔  جدہ 

بخارا شہر کے حوالے سے بعض تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ بخارا حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے بھی 3 سو برس پرانا ہے ۔ جب سکندر اعظم یہاں سے گزرا تو اس وقت بھی بخارا تجارت اور ثقافت کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا ۔ یہ شہر 5 ویں اور 7 ویں صدی کی فن تعمیر کی مثال ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا ۔ تاریخ اسلام میں پہلی بار 850 سنہ میں سامانی حکمرانوں نے اس شہر کو دارالحکومت قرار دیا ۔سن 1220 میں چنگیز خان نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی بعدازاں چغتائی سلطنت ، تیموری حکمران اور خان بخارا کی حکومتیں یہاں قائم ہوئیں اور ایک بار پھر ترقی و تعمیر کی نئی داستانیں یہاں رقم ہو ئیں ۔شیخ المحدثین امام بخاری کے بعد دوسری عالمی مشہور شخصیت بو علی سینا کا تعلق بھی بخارا سے تھا۔ بہاء الدین نقشبندی کمپلیکس کے بعد میزبان ہمیں بخار ا کے قدیم علاقے میں لے گئے جہاں انہو ںنے خصوصی طور پر ایک ماہر گائیڈ بھی مہیا کر دیا تھا ۔ رضا نامی گائیڈ جو بہترین انگلش بولتا تھا اس نے بتایا کہ یہاں کا سب سے بڑا مدرسہ میر عرب ہے جس کی تاریخ انتہائی قدیم ہے ۔ مدرسہ میر عرب کا نام امیر عرب ہوا کرتا تھا جو حضرموت کے تاجروں نے قائم کیا تھا ۔مدرسہ کے ساتھ ہی امام بخاری مسجد ہے جہاں امام بخاری ؒ درس حدیث دیا کرتے تھے ۔

بلند وبالا عمارت جہاں طلباء کی اقامت کیلئے کمرے بھی بنائے گئے تھے ۔ گائیڈ نے بتایا کہ سرخ انقلاب کے بعد اس مدرسے کا حال بھی وہی ہوا جو دیگر مدارس و مساجد کا ہوا تھا مگر اب حکومت نے اسے از سرنو اصل حیثیت میں بحال کر دیا اب مدرسے میں باقاعدہ درس و تدریس ہوتی ہے اور طلباء قرآن کریم اور حدیث کا علم حاصل کرتے ہیں ۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء کو مساجد میں نائب امام مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو جدید علوم بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ مدرسہ کے سامنے معروف مسجد کلاں ہے جو اتنی بڑی ہے کہ اس میں 60 ہزار نمازی آرام سے نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں ۔ مسجد کلاں کے باہر بلند و بالا مینار ہے جس میں 148 سیڑھیا ں ہیں ۔ گائیڈ نے بتایا کہ مینار کی تعمیر کے 2 اسباب تھے پہلا سبب اس مینار سے موذن پانچ وقت اذان دیتا تھا جبکہ دوسرا سبب یہ مینار شہر کی حفاظت کے لئے اہمیت کا حامل تھا نگران ٹیمیں اس مینار پر ہمہ وقت موجود رہتی تھی جو کسی ناگہانی صورت میں نقاروں کے ذریعے باقی لوگوں کو خبردار کرتے ۔

مینار رات کو قافلوں کی رہنمائی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ۔ رات کے وقت مینار کی چوٹی پر مشعلیں روشن کردی جاتی تھی جس کی روشنی دور سے دکھائی دیتی اور قافلے اس کی روشنی میں اپنی منزل کا اندازہ کرتے تھے ۔ مسجد کلاں ( بڑی مسجد ) سے کچھ فاصلے پر امیر تیمور کے پوتے مرزا الوغ بیگ کا تعمیر کردہ مدرسہ بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجو دہے جس کی بناوٹ دیکھ کر اس وقت کے معماروںکی کمال مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا ۔مسجد سے کچھ فاصلے پر " لب حوض " ہے یہاں بڑی تعداد میں آثار قدیمہ موجود ہیں جن میں زمانہ قدیم کی سرائے ( رہائشی ہوٹل ) مدرسے اور طلباء کی اقامت گاہیں شامل ہیں ۔ تیموری دور حکومت میں بخارا نے ایک بار پھر صنعت و حرفت میں نمایاں مقام حاصل کیا دنیا بھر سے تجارتی قافلے یہاں آتے تھے ۔ لب حوض کے چوک پر ملا نصیر الدین کا مجسمہ نصب ہے جو گدھے پر سوار گہری سوچ میں مگن دکھائی دیتا ہے ۔ ملا نصرالدین کی تخیلاتی شخصیت متعدد ممالک میں پائی عرب ممالک میں یہ " جحا" کے نام سے مشہورہے جبکہ پاک و ہند میں " ملا نصیر الدین " ہی کے نام سے معروف ہے۔ لب حوض کی دوسری جانب زرتشتوں کی قدیم عبادت گاہ ہے ۔

گائیڈ کے مطابق صدیوں قبل انکی یہ عباد ت گاہ زمین میں دھنس گئی تھی بعدازاں انکے علماء نے کہا کہ دھنسی ہوئی عبادت گاہ کی بنیادوں پر ہی دوسری عمارت تعمیر کی جائے ۔ عصر حاضر میں محکمہ آثار قدیمہ نے پرانی عمارت کی بنیاد یں بھی تلاش کر لی ہیں ۔ لب حوض کے مشرقی جانب ایک اور زمانہ قدیم کے پرانے آثار دریافت ہوئے ہیں جن کی دیواریں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی زمانے میں اقامت گاہیں رہی ہونگی ۔ تیموری سلطنت میں تجارت کو کافی فروغ ملا اس کی بنیادی وجہ امن وامان اور فراغی تھی ۔ بخارا کی مرکزی مارکیٹ لب حوض کے شمالی سمت میں قائم کی گئی تھی جو گنبدوں پر مشتمل تھی ہر گنبد میں مخصوص قسم کی دکانیں قائم کی جاتی تھی اور وہ مارکیٹ اسی جنس کے حوالے سے مشہور تھی ۔ گائیڈ رضا نے بتایا کہ پہلا گمنبد کرنسی تبدیل کرنے والوں کا ہے جبکہ دوسرا کپڑے کے کاروبار کیلئے مخصوص ہے تیسرا خشک میوہ جات کے لئے ہے اور چوتھے میں دستکاری کا سامان رکھا گیا ہے ۔ آج بھی اس مارکیٹ کو اسی انداز میں دوبارہ قائم کیا گیا ہے ۔ اہل بخارا سردیو ں میں سرشام ہی گھر میں چلے جاتے ہیں بازار مغرب کے بعد ویران اور آبادیوں کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں ۔

ازبکستان میں ہر جگہ صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے جس سے ماحول بے انتہاء خوشگوار لگتا ہے ۔ گائیڈ رضا ہمیں ایک قدیم عمار ت میں لے گیا جو پتھروں سے بنائی گئی تھی عمارت میں مختلف راہداریاں تھیں جو عجیب و پراسرار منظر پیش کر رہی تھیں ۔ مرکزی راہداری کا اختتا م ایک ہال میں ہوا جس کے اطراف میں مختلف کمرے تھے جو تمام اس مرکزی ہال میں کھلتے تھے ۔ عمارت زمانہ قدیم کا حمام تھا جسے اس انداز میں بنایا گیا تھا کہ پہلا کمرہ معمولی گرم ہوتا دوسرا اس سے زیادہ تیسرا اور زیادہ اور چوتھے میں بھانپ بھری ہوتی ۔ حماموں کا رواج ازبکستان میں زمانہ قدیم سے ہے ۔ یہ حمام اسی دور کی یادگار تھی جو آج بھی اسی انداز میںقائم ہے بلکہ اسی انداز میں ماہرین وہاں آنے والوں کا خصوصی مساج کرتے ہیں ۔ قدرتی طریقے سے بنائے گئے قدیم حمام میں روشنی کیلئے اب بھی شمعو ں اور مشعلوںکا انتظام کیا گیا تھا جبکہ ہوا کی کراسنگ اور درجہ حرارت کو تدریجی انداز میں کم و زیادہ کرنے کیلئے بھی قدرتی طریقے استعمال کئے گئے تھے ۔

* * * امیر بخارا کا محل * * *

ریاست بخارا نے 1785 سے لیکر 1920 تک بہت اتار چڑھائو دیکھے ۔ یہاں 8 افراد کی حکومت رہی جنہیں امیر بخارا کہا جاتا ہے ۔ آخری امیر بخارا سید میر محمد عالم خان تھے جنہوں نے 1910 کے اواخر میں بخارا کا اقتدار سنبھالا مگر 10 برس بعد ہی سرخ انقلاب نے ماورالنہر کے علاقو ںپر قبضہ کرنا شرو ع کیا تو بخارا کی امارات بھی ختم ہو گئی اور امیر بخارا ہجرت کر کے افغانستان کے شہر کابل میں پناہ گزیں ہو گئے جہاں ان کا انتقال 1944 میں ہوا ۔ امیر بخارا کا محل آج بھی اسی شان و شوکت کی علامت ہے جو کبھی ماضی میں رہا ہو گا ۔ محل کی فصیل بلندو بالا اور مرکزی دروازہ کئی میٹر اونچا ہے ۔ محل میں داخل ہونے کے لئے ڈھلوان راستہ بنایا گیا ہے جس سے ہو کر محل کے مرکزی حصہ میں پہنچا جاتا ہے ۔ محل کا مرکزی ہال جہاں امیر بخارا کا دربار لگتا تھا بالکل وسط میں تھا ہال کے درمیان میں امیر بخارا کیلئے تخت لگایا جاتا تھا ۔محل میں مسجد ایک بلند مقام پر تعمیر کی گئی تھی جو دور سے دکھائی دیتی تھی ۔ بخارا میں مساجد اس اندازمیں تعمیر کی جاتی تھیں کہ نمازی جب باہر نکلیں تو وہ جانبی دروازے کی جانب رخ کریں جس سے ان کی پیٹھ قبلہ کی سمت میں نہیں ہوتی ۔ مسجد کے تین اطراف میں دروازے بنائے جاتے تھے کہ نماز ی ان دروازوں سے نکلیں ۔محل کے مرکزی ہال کے دوسری جانب ریاست کے مجرموں کے لئے قید خانے بھی تھے جن کے دروازے پر علامتی طور پر شیر کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ محل کی فصیلوں پر گارڈز کے لئے خصوصی کمرے بنائے گئے تھے جبکہ حفاظت کیلئے توپیں بھی نصب تھیں ۔ روسیوں کی یلغار کے موقع پر سب سے زیادہ مزاحمت بخارا کے لوگوں نے امیر بخارا کی سربراہی میں کی تھی ۔ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے محل کے اطراف میں بخارا کی دستکاری کی دکانیں بنائی گئی ہیں جہاں مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں ۔

* * * بخارا کی عام صنعت * * *

اہلیان بخارا زمانہ قدیم سے ہی دستکاری میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ یہاں کے قالین عالمی شہرت رکھتے ہیں ۔ گھروں میں خواتین قالین سازی کا کام کرتی ہیں ۔ بخارا میں بنے ہوئے پکی مٹی اور چینی کے برتن بھی کافی مقبول ہیں ۔ مٹی کے برتنوں پر انتہائی باریکی سے نقش و نگار بنائے جاتے ہیں کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ نقش ونگار کا تمام کام آج بھی ہاتھ سے کیا جاتا ہے اسی لئے بخارا کی گھریلو صنعت ازبکستان میں غیر معمولی شہرت رکھتی ہے ۔ ہاتھ سے بنی ہوئی چائے دانی اور 6پیالوں کا ایک سیٹ بخارا میں 10 امریکی ڈالر میں ملتا ہے جبکہ یہی سیٹ تاشقند میں 15 سے 20 ڈالر میں فروخت کیاجاتا ہے ۔ دستکاری میں زری کا کام بھی یہاں غیر معمولی شہرت رکھتا ہے ۔ زری سے کڑھی ہوئی ایک ٹوپی کی قیمت 10ڈالر ہے ۔ ریشم کے کیٹرے پالنے کا رواج عام ہے ۔ بخارا کو قدرت نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے یہاں میوہ جات کی کثرت ہے ۔ سڑکوں پر سیب کے درخت اور انگور کی بیلیں عام طور پر لگی ہوتی ہیں ۔

* * * سمرقند روانگی * * *

بخارا سے واپسی کے دوسرے دن ہمیں سمرقند روانہ ہونا تھا اس دوران ایک دن کا وقفہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے گزرا جس کی الگ داستان ہے ۔ میری درخواست پر سمرقند کیلئے ریل میں بندوبست کیا گیا ۔ ازبکستان میں اسپیڈ ٹرین کی آمد کے بعد مسافت کافی گھٹ گئی چکی ہے ۔ 1992 میں وہاں کوئلے کے انجن والی ٹرین چلتی تھی جس کی رفتار کامقابلہ بلٹ ٹرین سے قطعی طور پر نہیں کیا جاسکتا ۔ "افراسیاب " نامی ٹرین میں ہماری ٹکٹ بک ہو چکی تھی ہمیں دوسرے دن صبح 7 بجے والی ٹرین پکڑنی تھی ۔ سمرقند ازبکستان کا دوسرا بڑا شہر شمار ہوتا ہے ۔ زمانہ قدیم سے چین اور مغرب کے درمیان شاہراہ ریشم کے وسط میں واقع اسلامی تعلیم اور تحقیق کے مرکز کے طور پر جانا جاتاتھا ۔اس مشہور تاریخی شہر میں امام البخاری کا مزار اور کمپلیکس ہے جبکہ دیگر مشہور عمارتیں اور مساجد آنے والوں کو بہ زبان خاموشی اپنی عظمت رفتہ کی داستان سناتی ہیں ۔ یونیسکوکے ریکارڈ کے مطابق یہ شہر 2750 برس قدیم ہے جسے تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے ۔ تاریخ میں سمر قند کا قدیم نام " اسمارا" بتایا جاتا ہے جس کے معنی پتھر یا چٹان کے ہیں جبکہ " قند " قلعہ کو کہا جاتا ہے اس طرح سمرقند کے معنی چٹانی قلعہ ہے ۔ یہاں زیادہ تر آبادی تاجکوں کی ہے جبکہ فارسی بھی یہاں آباد ہیں ۔ سمرقند شہرکو صوبے کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے ۔ ہماری ٹرین وقت مقررہ سے کچھ تاخیر سے روانہ ہوئی بعدازاں معلوم ہوا کہ ٹریک میں فنی خرابی ہو گئی تھی جسے ماہرین نے دور کیا اس طرح ہم وقت مقرر ہ سے2 گھنٹہ تاخیر سے پہنچے ۔ راستے میں محتلف قصبوں اور علاقوں کوپیچھے چھوڑتی ہوئی افراسیاب ٹرین تیزی سے سمرقند کی جانب گامزن تھی ۔ ہمارے ڈبے میں دیگر ممالک سے آئے ہوئے مہمان بھی سوار تھے جو سمرقند ہی جارہے تھے ۔ 2 گھنٹے کی تاخیر سے ہماری ٹرین سمر قند ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو وہاں ہمارے لئے پہلے سے گاڑی اور گائیڈ کاانتظام موجود تھے ۔ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ان سے تعارف ہوا ۔ میر احمد جان سمرقند کالج میں عربی کا ٹیچر تھا ۔

* * * * امیر تیمور کے دارالحکومت میں * * * *

14 ویں صدی میں معروف مسلم فاتح امیر تیمور نے سمرقند کو اپنا دارالحکومت بنایا اور یہاں سے دیگرفتوحات کا سلسلہ شروع کیا ۔ اسٹیشن سے ہمیں ہمارے رہنما ناشتہ کرانے ہوٹل میں لے گئے جہاں سمرقند کے مشہور زمانہ گرما گرم نان اور بالائی کے علاوہ سیخ پائے کا شوربہ ازبک قہوہ کے ساتھ پیش کیا گیا جو کہ لازمی حصہ تصور کیاجاتا ہے ۔ناشتے سے فارغ ہو کر ہم سمرقند کے قدیم محلے گئے جہاں ازبکستان کے اولین سابق صدر اسلام کریم آف نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی لے جایا گیا ۔ جس محلے میں یہ مدرسہ واقع ہے وہاں سے کچھ ہی فاصلے ہر امیر تیمور کی چوتھی بیوی بی بی خانم مسجد ہے جو تاریخ میں اپنی طرز تعمیر اور مکانیت کے اعتبار سے کافی مشہور ہے ۔ اسکے بارے میں بعض مورخین کہتے ہیں کہ امیر تیمور کی چوتھی بیوی " بی بی خانم" نے یہ مسجد اس وقت تعمیر کروائی جب امیر تیمور فتوحات میں مصروف تھا ۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ مسجد امیرتیمور نے اپنی بیوی کے لئے بنوائی تھی اس کے سامنے بی بی خانم کا محل بھی بنوایا تھا جو اب بھی موجود ہے ۔ سمرقند کے دوسرے اہم تاریخی مقام کو " میدان ریگستان" کہتے ہیں ۔ اس میدان میں امیر تیمور کامحل ہوا کرتا تھا جبکہ یہاں دیگر فاتحین نے بھی قیام کیا تھا ۔ میدان ریگستان کو اب حکومت کی جانب سے قومی تقریبات کے لئے مختص کردیا گیا ہے ۔

* * * * مرزا الوغ بیگ کی رصد گاہ * * * *

امیر تیمور کے پوتے مرزا الوغ بیگ انتہائی ذہین اور ماہرفلکیات تھا ۔ سمرقند کے بلند مقام پر مرزا الوغ بیگ نے 14 ویں صدی میں رسد گاہ تعمیر کروائی جس میں دیو ہیکل دور بین کی تنصیب کیلئے جو عمارت بنوائی گئی تھی اسکی کچھ باقیات اب بھی موجود ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہوتا ہے کہ مرزا الوغ بیگ فن فلکیات کے رازوں کی باریکیوں سے کتنا واقف تھے ۔ 14 ویں صدی میں اتنی عظیم الشان رسد گاہ کی تعمیر ماہرین فلکیات کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی تھی جس کے حوالے آج تک اس علوم کے ماہرین کے پاس موجود ہیں ۔ مرزا الوغ بیگ نے فلکیات کے نظام میں جو نظریات قائم کئے وہ آج بھی کار آمد ہیں ۔

* * * * شیخ المحدثین امام البخاری کمپلیکس * * * *

امام محمد بن اسماعیل بخاری 194 ھ میں بخارا میں پیدا ہوئے ۔ انکے والد بھی مشہور محدث انکا شمار عبداللہ بن مبارک ؒ کے خصوصی شادگردوں میں ہوتا ہے ۔ وہ بچپن میں ہی شفقت پدری سے محروم ہو گئے ۔ والدہ ماجدہ کے زیر سایہ بچپن کے ایام گزارے ۔ 16 برس کی عمر میں والدہ مکرمہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کرنے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے 2 برس وہاں مقیم رہ کر علم حدیث حاصل کیا ۔ اٹھارہ برس کی عمر میں مدینہ منورہ آئے ۔ امام البخاری کو رب تعالی نے مثالی قوت حافظہ عطا فرمائی تھی ۔ علماء میں انہو ںنے انتہائی کم عمری میں ہی اپنی نمایاں شناخت قائم کر لی تھی ۔ شاہ ولی اللہ نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ انتہائی سخی اور کم خوراک تھے ۔ نیشا پور گئے تو وہاں کے لوگوں نے شہر سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا۔ اس بارے میں مورخین کا کہنا ہے کہ جس طرح کا استقبال امام بخاری کا دیکھنے میں آیا کسی حاکم کا بھی نہیں تھا ۔ مرجع خلائق تھے ۔ آپ کا انتقال62 برس کی عمر میں 256 ہجری میں ہوا ۔ سمرقند میں آپ کا مزا ر ہے ۔ آپ سے براہ راست درس حدیث لینے والے شاگردوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 90 ہزار سے زائد ہے ۔ آپ مستند حدیث معلوم کرنے کیلئے میلوں سفر کرتے تھے ۔ جس سے حدیث لیتے اس کی زندگی کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرتے کہ اس نے زندگی میں ایک بھی جھوٹ تو نہیں بولا اگر شبہہ ہوتا تو وہ اس حدیث کو نقل نہیں کرتے تھے ۔ سمرقند اتنا بڑا اور تاریخی شہر ہے کہ یہاں تمام مقامات کیلئے چند گھنٹے کافی نہیں بلکہ اس کیلئے کم از کم ایک ہفتے کا وقت درکا رہے مگر ہماری مجبوری تھی کہ ہمیں واپس بھی آنا تھا اور اب وقت ہوگیا تھا واپسی کا ۔ یہ حقیقت ہے کہ سابق صدر اسلام کریموف نے سمرقند کو اسکا کھویا ہوا حقیقی مقام عطا کر دیا ۔ سمرقند ریلوے اسٹیشن پہنچے اور وہاں سے تاشقند کیلئے روانہ ہو گئے جہاں سے ہمیں دوسرے دن انتخابات کے عمل کودیکھنا تھا اس کے بعد تاشقند میں مزید ایک دن کے قیام کے بعد واپس جدہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔

شیئر: