Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گمراہی سے روشنی تک سفر کیلئے درکار ایک ساعت

دنیا کے بڑے کاروباری ذہن نے جو مادی اشیاء کی صورت میں لغویات کی بھرمار کی ہے، وہ یہ منظر دیکھ کر خوش ہورہے ہیں کہ ساری دنیا ہر طرف سے بے خبر رہ کر الیکٹرانکس کی دنیا میں گم ہے

اُم مزمل ۔ جدہ

وہ اپنی سینڈل کی اسٹریپ بند کررہی تھی۔ جس دن مہینے کے پہلے ہفتے میں یوم صفائی منایا جاتا اس کی شامت آجاتی۔ سب سے برا یہ لگتا کہ صبح سے اخبار ، رسالہ اور اگر اس دن اسکے پسندیدہ مصنف اشتیاق احمد کا جاسوسی ناول ہاکر پہنچاکر جاتا تو وہ بھی اخبار اور رسالے کے ہمراہ کہیں ایسی جگہ رکھ دیا جاتا کہ کسی کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔

امی جان کا کہنا تھاکہ ’’جب گھر کی صفائی مکمل ہوجائے گی تو اخبار، رسالہ اور ناول بھی مل جائے گا اور اسی جستجو میں فجر سے کام شروع ہوجاتا۔ دونوں نوکرانیاں محنت سے ساتھ لگی رہتیں۔ ظہر تک سب دھلائی صفائی کا کام ہوجاتا۔ اب اس سے کہیں زیادہ صبر آزما کام لگتا جب سب چیزوں کو جگہ پر رکھنا پڑتا۔ اسکی سہیلی نے فون پر بتایا تو ان دونوں بہنوں نے بھی کتاب میلے میںجانے کا پروگرام فائنل کرلیا تھا۔ اب وہاں جانے کی تیاری تھی۔

جس دن یوم صفائی منایا جاتا اس دن گھر پر کھانا نہیں بنتا تھابلکہ ایک دن پہلے کوئی میٹھا وغیرہ بنالیا جاتا اور کھانا قریبی ریسٹورنٹ سے منگوالیا جاتا تھا۔ آج بھی یہی ہوا ۔ اب تو شام کی چائے کا وقت تھا۔ اس نے بوا کو اپنی پسندیدہ چیزیں لانے کے لئے کہا تھا۔ آلو کے سموسے، دال بھری کچوریاں اور گرم جلیبیاں لیکن یہ کیا؟ جب سینڈل کی اسٹریپ بند کرکے پلٹی تو اس کے بک شیلف کے سب سے اوپر رکھے اس ناول پر نظر پڑی جو وہ تلاش کررہی تھی۔

آگے بڑھی کہ اسے لے سکے۔ چھوٹی بہن تیزی سے آئی اور اس کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر وہ ناول اٹھا کر لے گئی۔ وہ شور مچاتی اسکے پیچھے لپکی کہ پہلے مجھے پڑھنا ہے۔ ابھی وہ بہن کے کمرے کے دروازے تک پہنچی تھی کہ اس نے ناول واپس کردیااور کہا کہ ’’تمہیں پہلے پڑھنا ہے تو لے لو لیکن چائے پینے کے بعد کتابوں کے میلے میں بھی تو جائیں گے، جب تک تو تمہارا ناول مکمل نہ ہوسکے گا ۔ اس نے جواب دیاکہ مکمل آکر کرلوں گی لیکن شروع ابھی کردوں گی۔ بہن نے ناول اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اپنی پسندیدہ مخصوص جگہ گیٹ کے بالکل سامنے پھولوں کے کنج میں ڈرائیور وے سے گزر کر سیڑھیوں پر جابیٹھی۔ قریب رکھے توتے کے پنجرے میں موجود سلیٹی توتے کو مخاطب کرکے اس نے کہاکہ آج زیادہ حکایتیں سنانے نہ بیٹھ جانا اور سیٹی بھی مت بجاتے رہنا جو تم نے چھوٹے بھائی سے سیکھ لی ہے ۔

توتا تو نجانے کچھ جان پایا یا نہیں لیکن ایک گھنٹے بعد وہاں سے گزرتے مہمانوں کے ہمراہ آئے مہمان خصوصی نے ضرور غور کیا کہ وہ جس کا چہرہ پھولوں کی شاخوں کے درمیان نظر آرہا تھا ،جو بڑی محویت سے ایک ہاتھ داہنے گال پر رکھے، نیچی نظرکئے مسکرائے جارہی تھی ، کسی چیز میں اتنی مگن تھی کہ اسے مہمانوں کے آنے کی خبر بھی نہ ہوسکی۔ وہ تو اس ناول کے ہیرو کے کردار میں گم تھی، کیا اچھا منظر چل رہا تھا وہ بہادری سے لڑتا، دشمن کی جگہ پہنچ کر خوب گھونسے لگا رہا تھا۔ دشمن اس کے اچانک آجانے سے کیسا پریشان ہوگیا تھا۔ ایکشن پلے ایسے منظر نگاری میں تھا کہ جیسا ڈرامہ سامنے دیکھ رہے ہوں۔ ڈھشوں ، ڈھشوں ۔ اب دو بدو مقابلہ ہورہا تھا۔ آخر کار جیت تو ہیرو کی ہی ہونے والی تھی لیکن دشمن کے ساتھی نے اچانک حملہ کرکے اس کے ساتھی کو سخت ضرب پہنچا دی ۔

وہ ایک ایکشن پڑھتی اور تجسس کے مارے چار ایکشنوں کا سوچتی کہ ایسا ہوگا یا پھر ویسا ہوگا۔ اس وقت بھی آگے کا پیراگراف سوچے جارہی تھی کہ ہیرو اپنے ساتھی کو زخمی حالت میں چھوڑ جائے گا یا اس کی مدد کرے گا، اپنی جان کی بازی لگا دیگا۔ وہ اپنی رحمدلی کے باعث سوچ رہی تھی، ہیرو کو ضرور اپنے زخمی ساتھی کی مدد کرنی چاہئے بھلا بزدلوں کی طرح صرف اپنی جان بچانا اور دوستوں کی مدد نہ کرنا، یہ بھی کوئی ہیرو والی بات ہوئی؟ اس نے آگے کے منظر میں پڑھا کہ ہیرو آگے بڑھا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے مضروب ساتھی کو کندھے پر اٹھائے اس جگہ سے باہر گھنے درختوں کے درمیان موجود پگڈنڈی پر تیز رفتاری سے فاصلہ طے کرنے لگا۔ وہ مسکرائی، اس کا حُسن اور دلکش ہوگیا۔ وہ سوچنے لگی کہ مصنف نے کیا زبردست تجسس ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔

اب عروج کے بعد کہانی کا اختتام کیسے ہوگا ،یہ بھی زبردست اتار چڑھاؤ کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔ ابھی وہ یہی تک سوچ پائی تھی کہ اس کے کان تک’’ السلامُ علیکم ‘‘ کی آواز آئی ۔وہ ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے ہاتھ سے ناول گر پڑا اور اس میں موجود تصویر اس کی دا ہنی جانب جا پہنچی ۔

دونوں نے تصویر کو بیک وقت دیکھا تصویر کو دیکھ کر لمحوں میں جان گئی کہ جو سامنے کھڑا ہے یہ اسی کی تصویر ہے۔ یقینا اس کی بہن نے اسکے پسندیدہ ناول میں رکھ دیا ہے کہ اس طرح اس کی نظر تو ضرور پڑ جائے گی۔ یہ ذمہ داری امی جان نے سونپی تھی۔ وہ کہہ رہا تھاکہ جس تصویر کو آپ یہاں بیٹھی مسلسل مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ،اب روبرو بہ نفس نفیس موجود ہے۔ وہ ہونق بنی کھڑی صرف ایک نکتے یہ غور کررہی تھی کہ اکثر ہمارے سامنے جو منظر ہوتا ہے اور ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں وہ حقیقت سے کہیں دو ر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابھی ہوا تھا ۔وہ منظر نگاری پر مسکراتی جارہی تھی اور وہ اپنی تصویر دیکھ کر کچھ اور سمجھ بیٹھا تھا۔ بالکل اسی طرح دنیا کے بڑے کاروباری ذہن نے جو مادی اشیاء کی صورت میں لغویات کی بھرمار کی ہے، وہ یہ منظر دیکھ کر خوش ہورہے ہیں کہ ساری دنیا ہر طرف سے بے خبر رہ کر الیکٹرانکس کی دنیا میں گم ہے مگر یہ منظر درست نہیں ۔ وہ جن چیزوں کو سیکڑوں سال کی محنت سے بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ان سے دور ہونے میں فقط ایک لمحہ درکار ہوگا۔ گمراہی سے روشنی تک کے سفر کیلئے ایک ساعت ہی درکار ہوتی ہے ۔

شیئر: