Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نسل نو کی لغت:بحث و تکرار کا نام’’ آزادیٔ اظہار‘‘

آجکل بچوں کی بھی ’’پرائیویسی ڈسٹرب‘‘ ہونے لگی والدین کمرے میں جانے سے پہلے ’’ڈور ناک‘‘ کریں

حسن محمد یوسف۔ جدہ

- - -  - - - -  - - -  -

گزشتہ شب عالم غنودگی میں مستغرق تھے کہ زوں زوں کی آواز سماعتوں سے متصادم ہوئی ، ہم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ہم چونکہ مچھر کی اس کم بختی کے بچپن سے عادی تھے لہٰذا تھوڑا سا منہ بگاڑا اورکروٹ بدل کرپھرسلسلۂ خواب وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی جہاں سے ٹوٹا تھا۔نیند تو نہ آئی پر زمانۂ طفلی کی یادیں گنگنانے لگی ، ان گنگناتی یادو میں نہ جانے کہاں سے بلقیس آنٹی کے بیٹے حارث کی چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں جو اپنی اماں سے ضد کر رہاتھا کہ مجھے ترکاری کا سالن نہیں کھانا ، کچھ اور پکا کر دو۔اماں نے لاکھ سمجھایا، منت سماجت کی ،چمکارا، لاڈ لڈائے مگر وہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے لکیر کا فقیر بنا رہا۔مگر ماں تو پھر ماں تھیں، بلقیس آنٹی ہمارے گھر کی طرف آئیں اور ہماری اماں جان سے سوالیہ استفسار کرنے لگیں کہ آپا آج کیا پکایا ہے؟ ایک پلیٹ سالن تو دینا حارث میاں آج پھر بضد ہیں کہ ترکاری نہیں کھاؤں گا۔

یہ وہ بداخلاق اور غیرتعلیم یافتہ دور تھا جب لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بے دھڑک گھسنے پر برا نہیں مانا کرتے تھے، ایک دوسرے سے کھانا مانگ لیا کرتے تھے ،محلے کے بزرگ بچوں کی غلطیوں پر ان کی سرزنش بھی کرتے ، بوقت ضرورت کنپٹی بھی لال کردی جاتی، محلے کے بچے بچیاں مل کر کھیلا کودا کرتے تھے، مہمانوں کی آمد پر خوشی ہواکرتی تھی، ان کی آؤبھگت پرخلوص طریقے سے ہواکرتی تھی۔ 10لوگ ایک ہی گلاس استعمال کرلیا کرتے تھے۔2دوست 8 آنے والی قلفی مزے سے کھا لیا کرتے تھے۔ایک روپیہ جیب خرچ پورے دن کے عیش کیلئے نہ صرف کافی تصور کیا جاتا تھابلکہ چونی یا دونی بچا کر غلک میں بھی ڈال دی جاتی تھی۔ ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر گلی محلوں کی سیر ہوا کرتی تھی، صبح آنکھ کھلتے ہی گھر کے تمام افراد ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے۔ اپنی عمر سے بڑے کو بھائی یا باجی کہہ کر پکارتے تھے،چوٹے یا چھوٹی کوپیار سے بلاتے تھے۔سب مل جل کر اسکول جاتے، مل کر ہوم ورک ہوا کرتا تھا۔ گھر کے بزرگوں سے ہم کلام ہونا تو دخل در معقولات یا گستاخی تصور کی جاتی تھی۔بچوں میں کوئی توتکار ہو جاتی تو صحیح اورغلط کا فیصلہ بزرگ کر دیا کرتے اور اسے حتمی تصور کیا جاتا۔تعلیم و تربیت اولین ترجیح ہوتی۔ اسکول کی مشہوری وہاں کی تعلیم و اساتذہ کی محنت کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج کے اس تعلیم یافتہ اور بااخلاق دور میںاسکول کواس کی عمارت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

وہاں تعلیم و تربیت سے زیادہ انگریز کی طرح انگریزی بولنے کوترجیح دی جاتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کا ضیاع گویا جدید فیشن ہے۔نسل نو کی لغت میں والدہ کو ’’ممی‘‘ اور والد کو ’’ ڈیڈی‘‘ کہنا اور سمجھنا باعث ِافتخار سمجھاجاتا ہے ۔ ہم نے اتنی ترقی کر لی کہ بحث و تکراراور جوتم پیزار کو کو نام دیا گیا آزادیٔ اظہار۔ الگ الگ برتن کے استعمال کو صحت کے اصول و ضوابط کے تحت ضروری قرار دیدیا گیا۔ شوگر، بلڈپریشر، امراضِ قلب عام سی بات سمجھی جانے لگی ۔ دواؤں کا استعمال ، ناز ، نخرے، یہ سب اعلیٰ معیار زندگی تصور کیا جانے لگا۔آجکل کے بچوں کی بھی ’’پرائیویسی ڈسٹرب‘‘ ہونے لگی چنانچہ والدین کو پابند ہونا پڑاکہ بچوں کے کمرے میں جانے سے پہلے ’’ڈور ناک‘‘ کرنا ضروری ہے۔ اولڈ ہاؤس یعنی ’’بیت المعمرین‘‘ بوڑھے والدین کے لئے بہترین پناہ گاہ ہے ۔ خالہ ، ماموں ، چچا، پھوپی، عمزادگان ہیں تو بے حد قریبی رشتے مگر گھر سے دور ہی اچھے۔مکمل پتلون اولڈ فیشن جبکہ پھٹی جینزجدید طرز ہونے کے باعث مارکیٹ میں’’اِن‘‘ ہے۔ ’’ناؤ آ ڈیز‘‘ کسی کی مدد کرکے جتانا ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔ہر وہ نوجوان اپنے آپ کوعقل مند سمجھتا ہے ، ہمیشہ بزی کا لیبل منہ پر لگائے رکھتا ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر لوگوں کو علم ہو گیا کہ میں فارغ ہوں تو وہ قدر کرنا چھوڑ دیں گے ۔ رہی دوستی تو وہ آج کل ہوتی ہی مطلب کیلئے ہے۔ ایسے میں دوست کے لئے وقت صرف کرنے سے بہتر ہے کہ انٹرنیٹ پر ’’سرف‘‘ کیاجائے ۔

کچھ مہینوں پہلے ہم وطن عزیز گئے۔ وہاں پہنچتے ہی دوسرے دن علی الصباح اپنے پرانے دوست کو کال کی اور حال چال دریافت کرنے کے بعد اس سے ملاقات کے لئے کہا تو جناب کہنے لگے’’ یار میں فی الوقت مصروف ہوں ۔ ہم دوپہر دو بجے تک ملتے ہیں، کھانا ساتھ کھائیں گے ۔‘‘ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ تقریباً ڈھائی بجے ہم نے انہیں پھر فون کیا کہ شاید مصروفیت کی وجہ سے وہ بھول گئے ہوں۔ہم یاد دہانی کروادیتے ہیں۔ ایک دو مرتبہ کال کرنے کے بعد جناب نے کال ریسیو کی اور ہم سے معذرت چاہی کہ یار مصروفیت کی وجہ سے میں تم سے ملاقات نہیں کرسکتا لہٰذا ایسا کرو،ہم شام5بجے ملتے ہیں اور کہیں گھومنے جائیں گے۔ ہم نے اس کی ’’مصروفیات‘‘ کا خیال رکھتے ہوئے بات کو طول دینے سے گزیز کیا اور ’’جی جی! ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر فون بندکردیا۔ شام 6بجے پھر ہم نے اسے یہ یاد دلانے کے لئے فون کیا کہ بھائی آپ کہیں پھر سے تو ہمیں آس دلا کر نہیں بھول گئے؟ لیکن ہم نے 3،4 مرتبہ لمبی لمبی گھنٹیاں بجنے دیں مگر دوسری جانب سے کسی نے فون اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔ ہم ناکام ہو کر اپنے گھر میں اپنی ہی آپ میں مگن ہوگئے ۔پھر یوں ہوا کہ رات 10بجے کے قریب ہمیں اپنے دوست کی کال موصول ہوئی۔ جیسے ہی ہم نے فون اٹھایا، اس نے ہمارے استفسار سے پہلے ہی معذرت چاہی اور کہا کہ تم کہاں ہو، میں آرہا ہوں۔ ہم نے جناب سے کہا کہ اب تورات ہوچکی ہے ۔

ہم صبح ملاقات کرلیتے ہیں۔ اس پر ہمارے دوست ناراض ہوگئے اور کہنے لگے یار آپ صبح سے کال کررہے ہو ،میں مسلسل ٹینشن میں رہا ہوں کہ آپ سے ملاقات کا وقت کسی نہ کسی طرح نکالنا ہے اور اب جب مجھے وقت ملا تو آپ فرما رہے ہیں کہ کل ملاقات کریں گے ۔ ہم نے دوست سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ابو غصے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشاء کے بعد سب کو گھر میں ہونا چاہئے ۔ بہرحال جب ان سے ملاقات ہوئی تو ہمیں یہ جان کر بڑا افسوس ہوا کہ جناب دن بھر گھر میں مصروف تھے۔ کوئی کام بھی نہیں تھا ۔ ہم سے کہنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح پیسے کا انتظام کردو۔ یہ سارا واقعہ جب ہم نے اپنے ایک اور قریبی دوست کو سنایا تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا تم اب تک ناسمجھ ہی ہو۔ درحقیقت وقت اب بدل چکا ہے لوگ بااخلاق اور تعلیم یافتہ ہوچکے ہیں اس لئے آپ کے پاس کام ہو یا نہ ہو، آپ کو ہمیشہ مصروف رہنا چاہئے۔جیب بھری ہو یا خالی دکھاوا بھرپور ہونا چاہئے ۔

شیئر: