Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسے بھی لوگ تھے

 
بمبئی میں لال چند نے سندھیوں کے لئے نئے تعلیمی اداروں کی تشکیل اور نصابی کتابوں کی تیاری میں دل لگایا مگر جی لگا نہیں
 
وسعت اللہ خان
 
  اردو میں اب تک9 بڑے ناول لکھے گئے۔آگ کا دریا ، چاندنی بیگم ، گردشِ رنگِ چمن ، آخرِ شب کے ہمسفر ، اداس نسلیں ، خدا کی بستی ، چاکیواڑہ میں وصال ، راجہ گدھ اور غلام باغ۔ پہلے 4 قرة العین حیدر کے ہیں اور باقی ایک ایک علی الترتیب عبداللہ حسین ، شوکت صدیقی ، محمد خالد اختر ، بانو قدسیہ اور مرزا اطہر بیگ کا ہے اور بھی سینکڑوں ناول ہیں مگر اکثر کی ورق گردانی کرتے بار بار جون ایلیا کی بات یاد آجاتی ہے ” جنہیں پڑھنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں ”۔
( آپ کا متفق ہونا ہرگز ہرگز ضروری نہیں )۔
جس طرح ایک ادیبہ قرة العین حیدر تھیں۔انہیں" پاکستان دشمنی" کا اس قدر جنون تھا کہ تقسیم ہوتے ہی اپنا بڑا سا گھر اور اشرافی حلقہِ احباب ترک کرکے دلی سے کراچی یہ جا وہ جا۔نئی حکومت نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ان کے شجرے کا لحاظ کیا اور محکمہ اطلاعات کے شعبہ مطبوعات میں ایک میز کرسی اور چھوٹی موٹی افسری عنایت کردی۔
مگر عینی آپا نے سرکاری فرائض میں کل وقتی جی جان لگانے کے بجائے اپنی ہی کوئی کتھا شروع کردی حالانکہ واضح سرکاری ہدایات تھیں کہ کوئی بھی سرکاری اہلکار اپنے غیر تخلیقی معمولات سے ہٹ کر کوئی تخلیقی کام کرنا چاہے تو اس کے لئے افسران بالا کی پیشگی اجازت ضروری ہے۔
افسر بالا کا دھیان فوری طور پر بلحاظ عقل و منصب4 باتوں کی جانب گیا کہ یہ محکمہ اطلاعات کی کیسی افسر ہے جسے یہ اطلاع تک نہیں کہ ضابطے کے مطابق تخلیق کاری کی پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے کام مکمل ہونے کے بعد نہیں۔ اگر یہ کوئی سیدھی سیدھی کتھا ہے تو اتنی ضخیم کیوں ہے ؟ یقیناً ضخامت کی دال میں کچھ کالا ہے۔ 
ان خدشات و تشویشات کے ساتھ افسربالا نے اس پلندے کو پہلے کے بجائے آخری صفحے سے پڑھنا شروع کیا اور پھر مسودہ واپس کرتے ہوئے عینی آپا سے کہا ویسے تو سب ٹھیک ہے لیکن اس 2ہزار سالہ داستان میں سے صرف آخری 10 برس نکال دیں کہ جن کا تعلق14اگست1947ء کے بعد سے ہے کیونکہ ان میں سے کارسرکار میں مداخلت اور سرکار دشمنی کی بو آتی ہے۔
عینی آپا نے مسودہ واپس لیتے ہوئے فیصلہ کرلیا کہ جہاں بہرے سُر کی داد دینے کی کوشش کریں ، ہکلے آلاپ سکھائیں اور نابینے راستہ دکھائیں وہاں اب نہیں رہنا۔ اور یہ معاملہ یہیں پر نہیں رکھے گا بڑھتا ہی چلا جائے گا اور سماج جس فضا میں سانس لے رہا ہے اس فضا سے آکسیجن کھنچتی ہی چلی جائے گی۔
اگرچہ صدر ایوب کے چہیتے قدرت اللہ شہاب نے غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور مسودے پر اعتراضات واپس بھی ہوگئے اور 1959ءمیں آگ کا دریا چھپ بھی گیا اور دنیائے ادب میں سنسنی بھی پھیل گئی مگر عینی آپا کی اشرافی انا کسی ٹکے ٹوکری افسر کی افلاطونی نہ بھلا پائیں اور پہلے لندن اور پھر دلی تشریف لے گئیں۔ایک تقریب میں پنڈت نہرو سے سامنا ہوگیا۔پنڈت جی نے گلے لگاتے ہوئے کہا " تو ہماری بیٹی گھر لوٹ ہی آئی "۔
لال چند امر ڈینومل جگتیانی۔
بیسویں صدی کے سندھی ادب کا یہ بنیادی نام آج کا پاکستان چھوڑ سندھ میں کتنے لوگوں نے سنا ہے ؟ لال چند اول تا آخر ایک ایجوکیشنسٹ اور ادیب تھے۔جب وہ کراچی کے سندھ مدرسے میں پڑھاتے تھے تو انہوں نے سندھی زبان میں رسول اکرم کی پہلی سیرت مبارکہ لکھی جو 1911ء میں شائع ہوئی۔تب سے ان کا نام ہندو دوستوں کے حلقوں میں لال محمد پڑ گیا۔صرف اسلام ہی نہیں پوری صوفی روائیت ، چاروں وید ، مارکسزم اور جدید یورپی و ہندوستانی ادب لال چند نے گھول کے پی رکھا تھا۔ وہ حضرت سچل سرمست کے عاشق اور گاندھی کے پرستار تھے ۔ تحریک خلافت میں بھی سال بھر کی جیل کاٹی اور سودیشی تحریک میں بھی آگے آگے رہے۔کراچی ڈسٹرکٹ کانگریس کے سیکریٹری بھی رہے۔پھر بھی اتنا وقت نکال لیا کہ 60 سے زائد ناول ، مضامین ، ڈرامے اور کہانیاں شائع ہوئیں۔کئی اخبارات و ادبی پرچوں کی ادارت بھی کی۔ واحد سندھی ہندو سرکردہ شخصیت تھے جو سندھ کی بمبئی ریذیڈنسی سے علیحدگی کے حق میں تھے۔
بیوی اور 4 بچے پہلے ہی مرچکے تھے۔47 کے ہنگامے میں واحد بیٹی دیوی بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہند چلی گئی۔لال چند دیوی سے بے انتہا محبت کرتے تھے لیکن بے حد اصرار کے باوجود ہند منتقل نہیں ہوئے مگر جب زمین و فضا میں اجنبیت بڑھتی چلی گئی تو لال چند خود کو دھکیل کر 1948ء کے وسط میں بمبئی پہنچ گئے۔کراچی سے وہ چند بوریوں میں کتابیں اور مسودات بھر کے لے گئے مگر ان میں سے بھی دو بوریاں بحری جہاز پر چوری ہوگئیں۔
بمبئی میں لال چند نے سندھیوں کے لئے نئے تعلیمی اداروں کی تشکیل اور نصابی کتابوں کی تیاری میں دل لگایا مگر جی لگا نہیں۔ سندھ سے نکلنے کے بعد ان کی صحت جواب دیتی چلی گئی۔ وصیت کی کہ کچھ بھی ہوجائے میری راکھ دریائے سندھ میں بہائی جائے۔ اپریل1954ءمیں لال چند کی وفات ہوگئی۔21 ماہ بعد ان کی استھیاں کراچی لائی گئیں۔ فیصلہ ہوا کہ دوسری برسی کے موقع پر یہ کام انجام دیا جائے گا۔
چنانچہ 18 اپریل 1956 ءکو 5 سندھی اخبارات نے لال چند کی حیات اور ان کی ادبی و ثقافتی خدمات پر خصوصی ایڈیشن شائع کئے اور ان کی کتاب ” سون ورنﺅں دلیوں ” ( سنہری دل ) کراچی سے شائع ہوئی۔سخت موسم اور رمضان کے باوجود لال چند کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے بسنت ہال حیدرآباد کھچاکھچ بھرا تھا۔سورج ڈوبنے سے پہلے سندھو کے کنارے الوداعی تقریب ہوئی۔5 کشتیوں میں 100 کے لگ بھگ لوگ سوار ہوئے اور دریا کے وسط میں پہنچ کر معروف ادیب اور لال چند کے دوست عثمان علی انصاری نے راکھ دریا کے سپرد کردی۔یوں بیٹے کی گھر واپسی کا سفر مکمل ہوا.........
( دوسری داستان نندیتا بھونانی کی کتاب ” دی میکنگ آف ایگزائل ” سے لی گئی )۔
******

شیئر: