Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کچھ بھی ہوا لوگ تو میرے مریں گے‘، ویب سیریز ’دا ریلوے مین‘

دنیا کی بدترین صنعتی تباہی کی کہانی اور ’انڈین چرنوبل‘ کہلانے والے واقعے پر ویب سیریز بنائی گئی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
بہت کم ایسے ڈرامے یا فلمیں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نیٹ فلکس پر 18 نومبر کو ریلیز ہونے والی ویب سیریز ’دا ریلوے مین‘ انسان کے خیر اور شر کے رویوں کی ایسی بھرپور عکاسی کرتی ہے کہ اس کی چار اقساط آپ ایک ہی بار میں دیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اس ویب سیریز کی کہانی سال 1984 میں انڈیا کے شہر بھوپال میں موجود فیکٹری ’یونین کاربائیڈ‘ سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کے بارے میں ہے جس سے 15 ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
فیکٹری انتظامیہ اور اس وقت کی حکومت اس معاملے کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہو گئی تھی لیکن ریلوے کے کچھ فرشتہ صفت ملازمین کی وجہ سے ہلاکتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور یہ انہی میں سے کچھ لوگوں کی کہانی ہے۔
عماد ریاض (بابل خان) یونین کاربائیڈ فیکٹری کے قریب آباد بستی کا رہنے والا اور سابق ملازم ہے جو فیکٹری میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے پر تحقیقاتی صحافی کوماوت کی مدد کر رہا ہے کیونکہ اس کا ایک ساتھی اس وجہ سے ہلاک ہو چکا ہے۔ اب عماد ریاض ریلوے میں ’لوکو پائلٹ‘ کے طور پر بھرتی ہوتا ہے جہاں فرض شناس سٹیشن ماسٹر افتخار صدیقی (کے کے مینن) اس کے اچھے کام سے متاثر ہے۔ اسی دوران ایک چور بلونت یادو (دیویانندو) بھی بھوپال کے ریلوے سٹیشن پر آ چکا ہے جو سٹیشن ماسٹر کی تجوری لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسری جانب فیکٹری کے ناتجربہ کار ملازمین ہیں جن کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی بدولت معاملات ان کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ زہریلے مواد ’میتھائل آئسوسائنائڈ‘ کے لیے پانی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے لیکن حفاظتی اقدامات اور باقاعدہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے دو دسمبر 1984 کی رات وہ لمحہ آن پہنچتا ہے جب زہریلے مواد سے بھرے چیمبر پانی ملنے کی وجہ سے پھٹ پڑتے ہیں اور جان لیوا گیس بھوپال شہر کے باسیوں کو نگلنا شروع کر دیتی ہے۔
موت کی عمل داری شروع ہوتی ہے اور شہر میں لوگ کھانستے ہوئے تیزی سے مرنے لگتے ہیں۔ یہی حال بھوپال ریلوے سٹیشن کا ہے جہاں سٹیشن ماسٹر افتخار صدیقی معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے لوگوں کو بچانے کی کوشش شروع کرتے ہیں۔
عماد ریاض ان کے ساتھ ہے اور چور بلونت یادو بھی انسانی جذبے کے تحت مدد کرنے کے لیے اپنی جان پر کھیلنے کو تیار ہے۔ یہاں ایک اور کردار رتی پانڈے (آر مادھاون) کی اینٹری ہوتی ہے جو ریلوے کا جنرل مینیجر ہے اور تمام حکومتی رکاوٹوں کے باوجود مدد کے لیے بھوپال جنکشن پہنچنا چاہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے ان چار لوگوں کی جدو جہد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جس کے لیے یہ آپ یہ ویب سیریز ملاحظہ فرمائیں۔

یہ ویب سیریز یش راج فلمز کا او ٹی ٹی پر پہلا قدم ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اداکار کے کے مینن کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ سٹیشن ماسٹر افتخار صدیقی کے کردار میں سب سے مشکل کام رکتے ہوئے سانس کی اداکاری کے ساتھ ڈائیلاگ بولنا تھا۔ لیکن انھوں نے تاثرات کے لیے آنکھوں کا بہترین استعمال کیا ہے۔ بابل خان کی اداکاری میں آپ کو آنجہانی عرفان خان کی جھلک ضرور دکھائی دے گی۔ والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ اپنے ہر کردار کو خوش اسلوبی سے نبھانا سیکھ رہے ہیں اور ان کا مستقبل روشن ہے۔
یہ ویب سیریز یش راج فلمز کا او ٹی ٹی پر پہلا قدم ہے۔ اگر آغاز ہی ایسا شاندار ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والی پروڈکشنز بہترین ہوں گی۔ ہدایت کار شیو راویل کا بھی یہ پہلا پراجیکٹ ہے جو انھوں نے پانچ سال کی محنت کے بعد بنایا ہے۔ اس ویب سیریز سے متعلق ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر 2018 سے کام کر رہے تھے کیوں کہ اس افسوسناک حادثے پر ملنے والی معلومات ناکافی تھیں۔
بہت سی معلومات بھوپال شہر کے لوگوں سے حاصل کی گئیں اور تحقیقاتی صحافی ’راج کمار کیسوانی‘ کے کام سے بھی بہت مدد لی گئی جو اس حادثے سے پہلے یہ دعویٰ کر چکے تھے کہ یہ فیکٹری ایک آتش فشاں ہے جو بس پھٹنے کے انتظار میں ہے مگر حکومتی اداروں نے ان کی چیخ و پکار پر کان نہیں دھرا۔

اداکار کے کے مینن نے سٹیشن ماسٹر افتخار صدیقی کا کردار نبھایا ہے۔ (فوٹو: نیٹ فلکس)

آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ 10 میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے جب کہ نیٹ فلکس پاکستان پر اس وقت یہ نمبر ون پر موجود ہے۔ کاسٹ شاندار ہے اور اداکاری جاندار۔ دنیا کی بدترین صنعتی تباہی کی کہانی اور ’انڈین چرنوبل‘ کہلانے والے اس واقعے کے دوران انسانی جان کی قدر و قیمت بیان کرتی اس ویب سیریز کی ڈرامائی تشکیل لاجواب ہے۔
’یہ میری بستی ہے، یہ میرا شہر ہے، کچھ بھی ہوا لوگ تو میرے مریں گے۔‘ یہ ڈائیلاگ کردار عماد ریاض کا ہے جو وقتاً فوقتاً ویب سیریز کے دوران اس کے لاشعور میں دہراتا سنائی دیتا ہے۔ شاید یہ اس بات کا عکاس ہے کہ اگر انسانوں کا مجموعی رویہ آپس میں ایک دوسرے کو انسانیت کے ناطے ہی سہی، ’اپنا‘ سمجھنے کی طرف مائل ہو جائے تو کسی تباہی کی نوبت ہی نہ آئے۔

شیئر: