Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علی امین گنڈاپور کا سوشل میڈیا پر انحصار، ’مشروط انٹرویو کی پیشکش‘

علی امین گنڈاپور نے کہا تھا ’میں جو بولوں گا، وہ ایڈٹ کیے بغیر براہ راست نشر کیا جائے۔‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور گزشتہ دنوں کرپشن کی روک تھام کے لیے دیے گئے اپنے ایک بیان پر خبروں میں رہے مگر میڈیا سے ان کا رابطہ یا گفتگو نسبتاً کم دکھائی دے رہی ہے۔
علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی ہے اور حالیہ دنوں میں ان کے اکثر بیانات ٹِک ٹاک ایپ پر جاری ہوئے جو بعدازاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے شائع اور نشر کیے۔
پشاور میں علی امین گنڈاپور سے ملاقات کے لیے نوجوان کارکن اکثر وزیراعلیٰ ہاؤس کا رُخ کرتے ہیں۔ وہ ملاقات کے دوران وزیراعلیٰ کی ویڈیو بناتے ہیں جن میں سے اکثر بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔
انہوں نے گذشتہ دنوں ٹک ٹاک پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے متعلق ایک بیان دیا جو فوری طور پر وائرل ہو گیا اور پھر میڈیا نے بھی ان کے اس بیان کو نشر کیا۔
انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وفاقی حکومت سے متعلق بیانات بھی سوشل میڈیا پر ہی جاری کیے۔
گذشتہ دنوں 20 مارچ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اپنے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں سوشل میڈیا کے نمائندے سے بات چیت کے دوران وفاقی حکومت کو دھمکی آمیز بیان دیا تھا۔ 
پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا ونگ کے سربراہ اکرام کھٹانہ نے اس بارے میں  اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کوئی نئی بات نہیں کیونکہ انتخابی مہم کے دوران بھی پی ٹی آئی نے سماجی میڈیا پر ہی زیادہ انحصار کیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سرکاری طور پر کسی ٹِک ٹاکر کو ملاقات کا وقت نہیں دیا گیا تاہم کارکنوں کے وفود میں شامل نوجوان وزیراعلیٰ سے مل کر ویڈیوز ریکارڈ کر لیتے ہیں۔‘
پارٹی کے سوشل میڈیا ونگ کے سربراہ اکرام کھٹانہ کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ایک خاصیت یہ ہے کہ کوئی اگر ان سے سوال پوچھے تو وہ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتے ہیں، چاہے وہ سیاسی سوال کا جواب ہی کیوں نہ دے رہے ہوں۔‘
انہوں نے کہا، ‘نوجوان بسااوقات ان کے ویڈیو بیانات ریکارڈ کرکے اپنے فالوورز کے لیے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریتے ہیں۔‘
وزیراعلی کی جانب سے مین سٹریم میڈیا کے لیے عائد شرط
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے ٹیلی ویژن چینلز کو انٹرویو دینے کے لیے رکھی گئی شرط بھی میڈیا سے ان کی دوری کا سبب بن رہی ہے۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ ہاؤس میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو میں دوٹوک الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ’کوئی صحافی یا اینکر اگر ان کا انٹرویو کرنا چاہتا ہے تو وہ براہ راست نشر کرنا ہو گا۔‘
انہوں نے ریکارڈڈ انٹرویو دینے سے معذرت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا۔ ’میں جو بولوں گا، وہ ایڈٹ کیے بغیر براہ راست نشر کیا جائے۔‘
Saif blames 'anti-TTP groups' for K-P law and order situation
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا ’میڈیا کے ہر ادارے سے الگ الگ بات کرنا اور موقف دینا ممکن نہیں‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پشاور کی سینیئر صحافی فرزانہ علی بھی اس ملاقات میں موجود تھیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلی کی مشروط انٹرویو دینے کی پیشکش وہاں موجود بہت سے صحافیوں کے لیے حیران کن تھی کیونکہ پہلی بار کسی وزیراعلیٰ نے کھل کر یہ بات کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی شرط مناسب ہے کیونکہ ریکارڈڈ انٹرویو میں بہت سی باتیں حذف ہوجاتی ہیں جس کے باعث براہ راست انٹرویو نشر کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس میں کچھ غلط نہیں ہے۔‘
فرزانہ علی نے یہ بھی کہا کہ ’ان دنوں مین سٹریم میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے بہت سے رہنما سوشل میڈیا پر انٹرویو دینے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سوشل میڈیا پر کی گئی گفتگو کسی قسم کی سنسرشپ کے بغیر براہ راست عوام تک پہنچ جائے گی۔‘
دوسری جانب مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومتی سطح پر میڈیا پر بیانات اور موقف ظاہر کرنے کے تناظر میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ میڈیا کے ہر ادارے سے الگ الگ بات کرنا اور موقف دینا ممکن نہیں ہے، اس لیے ایسا میکنزم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا کے تمام اداروں تک کسی تاخیر کے بغیر معلومات پہنچ جائیں۔‘ 

شیئر: