Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سی سی آئی میں اسحاق ڈار کی شمولیت، نواز شریف اثرانداز ہو رہے ہیں؟

مشترکہ مفادات کونسل میں سے وزیر خزانہ کو نکال کو تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر خارجہ کو شامل کیا گیا جو کہ اسحاق ڈار ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کی نوزائیدہ حکومت اپنے آغاز سے ہی کئی طرح کی مشکلات میں نظر آ رہی ہے۔ خاص طور پور حکومتی امور چلانے کے لیے پہلے سے موجود آئینی کمیٹیوں اور اداروں کی سربراہی کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
اس تذبذب کی پہلی جھلک تو اس وقت نظر آئی جب اسحاق ڈار کو وزرات خزانہ کا عہدہ نہیں دیا گیا۔ اسی طرح دوسری بار ایسی صورت حال کا سامنا وزیراعظم شہباز شریف کو اس وقت کرنا پڑا جب انہیں خود کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سربراہی سے الگ کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو کمیٹی کا آل ان آل بنانا پڑا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ جمعے کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے اس میں سے وزیر خزانہ کو نکال کر تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر خارجہ کو کونسل میں شامل کیا گیا جو کہ اسحاق ڈار ہیں۔
سیاسی مبصرین اس صورت حال کو نواز شریف طرزِ سیاست سے تعبیر کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف خود بہت کنفیوز نظر آ رہے ہیں جو بہرحال ان کی شخصیت کے برعکس ہے۔ اور جس طرح سے اسحاق ڈار کو کونسل میں داخل کیا گیا ہے اس بات کے واضح آثار ہیں کہ وہاں نواز شریف کے سب سے معتمد شخص کو اسی لیے شامل کیا گیا ہے اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے طریقے سے معاملات چلانا چاہتی ہے تو انہیں راستہ پوری طرح کھلا نہ ملے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے آپٹکس کسی طور بھی مسلم لیگ ن کے حق میں نہیں ہیں، الٹا اس کا نقصان ہو گا۔ اور ایک چیز جو سب سے زیادہ واضح ہو رہی ہے کہ ایک بداعتمادی کی فضا ہے چاہے وہ حکومتی سائیڈ ہو یا پارٹی کے اندر کے معاملات ہوں۔

عاصمہ شیرازی کے مطابق ’وزیراعظم شہباز شریف خود بہت کنفیوژ نظر آ رہے ہیں جو بہرحال ان کی شخصیت کے برعکس ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ نواز شریف کے طرز حکومت سے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پالیسیوں اور عہدوں سے متعلق کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ وہ خود بھی اس بات کا اظہار کئی مرتبہ کر چکے ہیں، اور دوسرا ان کی زیادہ تر توجہ ترقیاتی منصوبوں پر ہوتی ہے۔
اس کی ایک جھلک ان کے پنجاب حکومت کے اس اجلاس میں شرکت سے بھی نظر آئی جس میں انہوں نے لاہور میں زیرِ زمین ٹرین چلانے کے لیے افسران کو فیزبیلٹی رپورٹ بنانے کی ہدایت کی۔
تو کیا شہباز شریف کی حکومت میں ان چیزوں کی جھلک آ رہی ہے؟ اس حوالے سے اینکر پرسن عادل شاہزیب کہتے ہیں کہ ’تاثر کی حد تک تو ایسے ہی ہے، لیکن میرا خیال ہے مشترکہ مفادات کونسل میں اسحاق ڈار کی شمولیت اس لیے کی گئی ہے کہ یہ ایک سیاسی اور آئینی فورم میں ہے اور نئے وزیر خزانہ بہرحال سیاسی شخص نہیں ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ دس، بارہ دنوں سے یہ تاثر بھی ہے کہ شاید اسلام آباد میں کوئی سیاسی سرد جنگ بھی چل رہی ہے جس میں محسن نقوی اپنی ٹیم لگانا چاہتے ہیں اور شہباز شریف اور دیگر اپنی، تو اس طرح کے تاثر حکومت ہی دور کر سکتی ہے۔

نواز شریف کے طرز حکومت سے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پالیسیوں اور عہدوں سے متعلق کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی البتہ اسحاق ڈار کی تقرری پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس بات میں تو کئی شک نہیں ہے کہ نواز شریف کے معتمد خاص شخص کو وزیر خزانہ نہیں لگایا گیا جس سے اسحاق ڈار کو خاصی شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس بات کا یہ حل نہیں تھا کہ انہیں مشترکہ مفادات کونسل جیسے آئینی ادارے میں شامل کر لیا جائے جہاں بنیادی طور پر وزیر خزانہ جوابدہ ہوتا ہے۔ اس سے شرمندگی اور بڑھے گی اور اگر یہ فیصلہ بھی واپس لینا پڑا تو شہباز حکومت کی ساکھ شدید متاثر ہو گی۔‘

شیئر: