Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایوب خان کو ایوانِ اقتدار سے کس نے بے دخل کیا تھا؟

ایوب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم، مزدور تحریکوں اور طلبہ نے بے مثل احتجاجی تحریک منظم کی(فائل فوٹو: پینٹرسٹ)
گذشتہ ماہ پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے ایک صحافی نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار سے ایوب خان کی فوجی حکومت کے جمہوریت اور پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں رائے جاننا چاہی۔
انہوں نے رُکے بغیر مختصر جملہ بولا ’آپ تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔‘
آج ایوب خان کو دنیا سے گزرے 50 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
اس موقعے پر ان کے پوتے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کے جواب سے جنم لینے والے سوال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ تاریخ فیلڈ مارشل ایوب خان کے 10 سالہ اقتدار کے بابت میں خاموش ہے۔ پاکستان میں مثبت یا منفی ہر دو صورتوں میں پہلے فوجی حکمراں کا دور کسی نہ کسی حوالے اور تنازعے کی وجہ سے تذکروں میں رہتا ہے۔ ان کے بارے میں بحث و مباحثہ میں تنقید اور تعریف دونوں ہی زیرِبحث آتے رہتے ہیں۔
دور کیوں جائیں، سابق وزیراعظم عمران خان اکثر و بیشتر ایوب کے دور حکومت کو معاشی ترقی اور پاکستان کے عالمی وقار میں اضافے کی مثال کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔
ایوب خان کا دور کچھ لوگوں کے لیے ترقی میں سبقت  کی وجہ سے تفاخر کا زمانہ ہے۔ ناقدین کی نگاہ میں تنازعات، تفریق اور تقسیم کے تحفے ایوب حکومت کی دین ہیں۔
ایوب خان کے دور کو سمجھنے اور جانچنے کا ایک ذریعہ غیرملکی مصنفین اور محققین کی کتابیں ہیں۔
اس کے علاوہ ایوب خان کے فوجی رفقاء، بیوروکریسی کے ماتحتوں اور سیاسی مؤرخین نے ان کی ذات اور انداز حکمرانی کی  تفصیل بیان کی ہے۔
ایوب خان کی اپنے سوانحِ حیات اور ذاتی ڈائریاں ان کی شخصیت اور خیالات سے واقفیت کا ذریعہ بھی ہیں۔
کمانڈر اِنچیف کا عہدہ کیسے ملا؟
ایوب خان 1951 میں جنرل گریسی کے بعد پاکستانی فوج کے کمانڈر اِن چیف بنے۔
خیبر پختونخوا کے علاقے ہزارہ کے ترین خاندان میں جنم لینے والے ایوب خان نے 1928 میں برطانیہ کی رائل اکیڈمی سینڈ ہیرسٹ سے تربیت اور کمیشن حاصل کیا۔
ان کا فوجی کیریئر پیشہ ورانہ اعتبار سے ذہانت اور معاملہ فہمی سے عبارت تھا۔ بقول امریکی محقق لارنس زائرنگ وہ میدان جنگ میں صلاحیتوں کے اظہار سے زیادہ فوج کے انتظامی اور منصوبہ بندی کے امور میں غیرمعمولی مہارت رکھتے تھے۔
پاکستان کے ابتدائی 11 برسوں میں کرنل سے فیلڈ مارشل کے عہدے تک وہ تنازعات اور خوش بختی کے مراحل سے گزرے۔
سنہ 1948 میں انہیں ترقی دے کر مشرقی پاکستان میں جے او سی تعینات کیا گیا مگر کچھ وجوہات کی بنا  کچھ عرصہ تک  نئے عہدے کے رینک نہیں لگائے گئے۔
قبائلی علاقوں سے پاکستانی افواج کے انخلا میں غیرمعمولی کردار اور سرگرمی دکھانے پر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پائی۔
اس سے اگلے رینک میں ترقی اور سنیارٹی میں پہلے نمبر پر آنے کی وجہ ایک حادثہ بنا۔

ایوب خان کی اپنے سوانحِ حیات اور ذاتی ڈائریاں ان کی شخصیت اور خیالات سے واقفیت کا ذریعہ بھی ہیں (فائل فوٹو: وِکی ملٹری)

فوج میں ان کے سینیئر میجر جنرل افتخار علی کی طیارہ حادثے میں موت کے بعد وہ مقامی افسروں میں پہلے نمبر پر آگے۔ اگلا مرحلہ ان کے فوج کا سربراہ بننے کا تھا۔
ایوب خان کے دور حکومت پر امریکی مصنف لارنس زائرنگ اپنی کتاب ’ایوب خان ایرا :پالیٹکس اِن پاکستان‘ میں بتاتے ہیں کہ کشمیر میں جنگ بندی سے فوج کے کچھ افسر حکومت سے خوش نہیں تھے۔ وہ علاقے میں نئی جنگ چھیڑنے کے لیے موزوں موقع اور حالات کی تلاش میں تھے۔
اسی باعث وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس سوچ اور رجحان سے دور رہنے والے ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
اپنی تعیناتی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے جنگ بندی سے نالاں افسروں کے ایک گروہ کو بغاوت کی الزام میں دھر لیا۔
جنرل شیر علی خان ہندوستان کی ریاست پٹودی کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ انڈین کرکٹر منصور علی خان پٹودی کے چچا اور فلم سٹار سیف علی خان کے دادا کے بھائی بھی ہیں۔
انہوں نے ایوب خان کے ساتھ چیف آف جنرل سٹاف کے طور پر کام کیا۔
ان کی آپ بیتی ’دی سٹوری آف سولجرنگ اینڈ پولیٹکس اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ ایوب خان کے مزاج اور فوجی زندگی کے اہم ادوار کا حال بیان کرتی ہے۔
ان کے بقول ایوب خان کی کامیابی میں ان کے اسکندر مرزا کے ساتھ قریبی تعلقات کا ہاتھ تھا۔ اسکندر مرزا نے بحیثیت سیکریٹری دفاع ہمیشہ انہیں اہمیت دی۔
اگر اسکندر مرزا سیکریٹری دفاع  نہ بنتے یا لیاقت علی خان کا قتل نہ ہوتا تو شاید ایوب خان کا کیریئر مختلف ہوتا۔
ان کی رائے میں اسکندر مرزا کے علاوہ گورنر جنرل غلام محمد کی پالیسیوں اور فیصلوں کی تائید نے بھی ایوب خان کے ترقی کا راستہ کھولا۔
ایوب خان کا کمانڈر اإن چیف ہوتے ہوئے وزیر دفاع بننا اور مدت ملازمت میں توسیع بااثر سیاسی اور انتظامی اشرافیہ سے گہری قربت کا نتیجہ تھا۔

بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ایوب خان ایک دن کے لیے پاکستان کے وزیراعظم بھی بنائے گئے تھے (فائل فوٹو: دا فرسٹ ایڈیشن)

مسیحا یا غاصب
طاقت کے دو ستونوں ایوب اور اسکندر مرزا کی یکجائی نے پاکستان میں فوجی راج کا راستہ کھولا۔
اسمبلیوں اور آئین کی تحلیل کے چند دنوں بعد دونوں کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا۔
اندرون خانہ اسکندر مرزا ایوب خان سے جان چھڑانے کے درپے ہو گئے۔
بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ایوب خان ایک دن کے لیے پاکستان کے وزیراعظم بھی بنائے گئے تھے۔
27  اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا نے کابینہ کی تشکیل کی اور انہیں وزیراعظم کی ذمہ داریاں سونپیں۔
مگر اسی رات ایوب خان کے دو وفادار ساتھیوں نے اسکندر مرزا سے استعفیٰ لے کر انہیں پہلے صدارت اور پھر ملک سے  چلتا کر دیا۔
ایوب خان اپنی ذہنی ساخت اور سوچ کے زیرِاثر سیاست دانوں سے سخت بیزار تھے۔ اپنے آپ کو ملک کے مسیحا کے روپ میں دیکھتے تھے۔
نواب شیر علی خان کے بقول انہوں نے فوج کے ادارے کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
’وہ ہمیں کہتے تھے کہ آپ لوگ سیاست  سے دور رہیں۔ میں ان سیاست دانوں کے معاملات ٹھیک کر کے ملک کی سمت درست کر دوں گا۔‘
ان کے دل میں یہ خوف جاگزیں ہو گیا تھا کہ پاکستان کے سماجی اور سیاسی منظرنامے پر پارلیمانی طرز حکومت کا مطلب ہے سیاسی استحکام۔
انہوں نے عوامی خواہشات کے علی الرغم پارلیمانی نظام حکومت کی بحالی میں کوئی دلچسپی نہ لی۔
ایوب خان کا صدارتی نظام ان کے اپنے نزدیک پاکستان کے سیاسی مسائل کے حل کا تریاق تھا۔ اس نظام پر غیرمتزلزل یقین کا کرشمہ تھا کہ صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا۔

ایوب خان کا صدارتی نظام ان کے اپنے نزدیک پاکستان کے سیاسی مسائل کے حل کا تریاق تھا (فائل فوٹو: پینٹرسٹ)

صدر ایوب کے وفادار زیڈ اے سلہری نے فاطمہ جناح کے بارے میں لکھا کہ ’وہ صدارتی نظام کو چیلنج کر رہی ہیں نہ کہ ایوب کی ذات کو۔ان کا مقصد پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کو بدلنا ہے تاکہ لوگ بدامنی کو ووٹ دیں۔‘
سیاست دانوں سے ان کی پرخاش کی ایک وجہ شیرعلی خان یہ بھی لکھتے ہیں کہ 1947 میں انہیں پنجاب کی تقسیم کے لیے قائم باؤنڈری کمیشن کے ہیڈ آفس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے بھیجا گیا۔
ایوب خان کی بدقسمتی کہ یہاں ان کا واسطہ دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر ان کے ایک سابق انگریز کمانڈر سے پڑا جن سے ان کے تعلقات خوش گوار نہ تھے۔
انگریز افسر نے ان کی کسی معاملے میں نہ چلنے دی۔ یوں مقامی سیاسی رہنماؤں نے ان پر تنقید کی کہ وہ ملک کے مفاد کا خیال نہیں رکھ سکے۔ اسی باعث ان کی نفسیات میں سیاسی رہنماؤں کے بارے میں بیزاری اور بغض پایا جاتا تھا۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے پرانے سیاست دانوں کی پوری کھیپ کو ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست سے بے دخل کر دیا۔
ایوب خان ملک میں نئے تصورات اور نئی ترجیحات کے ساتھ ساتھ نئی سیاسی قیادت لانے کے بھی متمنی تھے۔
وزیرِ خزانہ محمد شعیب اور وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اسی تصور کے تحت آگے لایا گیا مگر آنے والے وقت میں دونوں انہیں چھوڑ گئے۔
اگلے مرحلے میں بنیادی جمہوریتوں کے ذریعے نیا سماجی اور سیاسی نظام متعارف کروایا جس کے پہلے الیکشن میں 26 دسمبر 1959 کو 80 ہزار نمائندوں کا انتخاب ہوا اور انہی کے بل پر وہ صدر بھی منتخب ہوئے۔
نیا پاکستان کیوں نہ بن سکا؟   
صدر ایوب پاکستانی معاشرے کو بدلنے کے لیے غیر معمولی پرجوش اور سنجیدہ تھے، مگر اپنے تمام تر بیانات کے باوجود انہوں نے سیاسی ترقی کو معاشی ترقی کے مقابلے پر کمتر سمجھا اور اسے ثانوی حیثیت دی۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان عدم مساوات کو کم کرنا ،بیوروکریسی زمینداروں اور کسان کے درمیان دوری کو ختم کرنا اور پڑھی لکھی مڈل کلاس کو مطمئن کرنے جیسے بنیادی مسائل کو اپنی دانست اور دانش کے بل پر حل کرنے کی کوشش کی۔
اپنی خودنوشت ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں وہ اپنی اصلاحات اور نئے انتظام کی خوبیاں گنواتے ہیں۔
ایوب خان کی اصلاحات اور ادارہ سازی کے نتائج کا ملکی اور غیرملکی محققین اور سیاسی مفکرین نے تنقیدی اور تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے بیوروکریسی میں اصلاحات کا کمیشن قائم کیا۔ اسی کے ساتھ لینڈ ریفارمز کے لیے کمیشن بھی بنایا۔ آئینی ضروریات کا تعین کرنے کا کام بھی ایک الگ کمیشن کے ذمے لگایا۔
پاکستان میں بیوروکریسی کے اختیارات، مراعات اور اثرات ہمیشہ تنقید اور سوالات کی زد میں رہے ہیں۔

مصنف اور مؤرخ لارنس زائرنگ ایوب خان کی معاشی ترقی کا تجزیہ بھی کیا ہے (فائل فوٹو: آکسفورڈ پریس)

نو آبادیاتی دور کی ساخت اور نفسیات رکھنے والی افسر شاہی  کو لگام ڈالنے کے لیے 1959 میں جسٹس کارنیلیئس کی سربراہی میں پے اینڈ پینشن کمیشن قائم ہوا۔ پانچ رکنی کمیشن نے اس ادارے میں بنیادی تبدیلیوں کے علاوہ اس کے مختلف شعبوں کا نیا ڈھانچہ تجویز کیا۔
طاقت ور بیوروکریسی کے نمائندوں کے زیراثر ایوب خان ان سفارشات پر عمل درآمد تو کجا اس کمیشن کی سفارشات بھی سامنے نہ لا سکے۔
پاکستانی معاشرے کے ایک اور سماجی اور معاشی مسئلے یعنی جاگیردار طبقے کے زور کو کم کرنے کے لیے لینڈ ریفارمز کمیشن ایوب حکومت نے بہت خوش کن توقعات کے ساتھ قائم کیا۔
اختر حسین کی سربراہی میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ میں زمین کی ملکیت کی حد بارانی علاقوں کے لیے ہزار ایکڑ جبکہ نہری علاقوں میں 500 ایکڑ مقرر کرنے کی سفارش کی گئی۔
معروف سیاسی مورخ خالد بن سعید کے تجزیے میں زمینداروں کے لیے زمین کی کم از کم مقدار کو کم نہیں کیا گیا اس لیے کہ حکومت اس طبقے کی دشمنی مول نہیں لینا چاہتی تھی۔
ان سفارشات کو مغربی پاکستان میں لاگو ہی نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ان کے نفاذ کا الٹا اثر ہوا اور بنگالیوں نے اسے محرومیوں میں اضافے سے تعبیر کیا۔
جاگیرداروں کے اثر و رسوخ کو بچانے کے لیے انہیں یہ رعایت دی گئی کہ وہ اپنے ورثا کو تحفے میں زمین دے کر اس نظام سے اپنی گلوخلاصی کروا سکیں۔
دستور بے نور     
سنہ 1962 کا دستور حبیب جالبؔ کی نظم کے ایک مصرعے نے بری طرح بے نقاب اور بے وقعت کر کے رکھ دیا تھا۔
ایوب خان نے آئین سازی کا کام اپنے وزیرِ قانون کے بجائے وزیرخارجہ منظور قادر سے لیا۔ نئے دستور میں براہ راست انتخاب کے بجائے بنیادی جمہوریت کے ارکان کو صدر اور اراکینِ اسمبلی کے انتخاب کا حق دیا گیا۔
صدارتی نظام کی ساخت ایسی رکھی گئی کہ صدر ایوب کی ذات میں تمام اختیارات جمع ہو جائیں۔
اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے سرکاری سرپرستی میں سیاسی جماعت بھی قائم کی۔ 14 ستمبر 1962 کو سرکاری پارٹی کنونشن لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی۔
مئی 1963 کو صدر ایوب نے ایک اخباری مضمون میں قوم کو خوشخبری سنائی کہ وہ مسلم لیگ کے ’دو آنے‘ کے رکن بن گئے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان ایوب دور کی معاشی ترقی کے بے حد مداح ہیں (فائل فوٹو: آکسفورڈ پریس)

کراچی کے روزنامہ ڈان نے اس مجوزہ جماعت کو ’کنگز پارٹی‘ کے نام سے یاد کیا۔ یہ اصطلاح آج بھی سرکاری اثر و رسوخ سے بننے والی جماعتوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
نئے دستور کے بعد جب سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئی تو اپوزیشن نے پارلیمانی نظام کی بحالی اور براہ راست انتخاب کا مطالبہ دہرایا۔
حکومت نے ان مطالبات کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس شہاب کی زیرِنگرانی آئینی کمیشن بنایا۔
حیرت انگیز طور پر کمیشن کے سربراہ سمیت دو اراکین نے اپوزیشن کے مطالبات کو قوم کی امنگوں کے مطابق قرار دیا۔
ایوب حکومت کے لیے یہ شرمندگی اور خجالت کا مقام تھا۔ اس نے ان سفارشات کا علاج ایک اور کمیشن قائم کر کے ان سے من پسند سفارشات لے کر کیا۔
معاشی ترقی کا سراب
سابق وزیراعظم عمران خان ایوب دور کی معاشی ترقی کے بے حد مداح ہیں۔
وہ اپنی گفتگو میں ایوب کی معاشی پالیسیوں کو پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے کی طرف تیزی سے سفر کا باعث قرار دیتے ہیں۔
معاشی اور سیاسی تاریخ کے ماہرین نے اس موضوع پر کافی کچھ لکھا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایوب دور میں صنعتی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی۔ آبی ذخائر کی تعمیر سے زراعت کی استطاعت بڑھی اور تجارتی اداروں نے پھلنا پھولنا شروع کیا۔
مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ اس 10 سالہ دور کے معاشی فوائد سے کون مستفید ہوا؟ یہ معاشی خوشحالی ایک پائیدار سیاسی نظام اور سماجی سدھار کا باعث کیوں نہ بن سکی؟
مصنف اور مورخ لارنس زائرنگ ایوب خان کی معاشی ترقی کے بارے میں اپنی کتاب میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’پاکستان معاشی ترقی کے تمام شعبوں میں نمایاں منافع کما رہا تھا۔ مگر غریب شہری اور دیہی عوام تک اس کے اثرات برائے نام پہنچ رہے تھے۔ سرمایہ چند لوگوں میں محدود رہنے کا عذر یہ دیا جا رہا تھا کہ اس طرح منافع دوبارہ سے معیشت میں لگایا جا رہا ہے مگر صرف 24 معاشی یونٹس تمام تر نجی صنعتی اثاثے کہ گویا آدھے حصے کو چلا رہے تھے۔‘
پاکستان کے مفلوک الحال عوام کے درمیان امراء کا نیا طبقہ اپنی طاقت اور معاشی حیثیت کی چکاچوند کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا۔
مراعات یافتہ طبقے کے مقابلے میں صنعتی مزدوروں کی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ غذاؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ شہریوں کی تعلیم و صحت اور فلاح کے منصوبوں کی کمی نے صورتحال کو اور کشیدہ کر دیا۔
ایوب دور میں ڈاکٹر محبوب الحق کی رپورٹ میں 22 سیاسی خاندانوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے زیرِتصرف ملک کے صنعتی وسائل تھے۔
حکومت پاکستان کے ادارے پلاننگ کمیشن کی دسمبر 1968 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ نے ایوب حکومت کے معاشی سراب کو اور نمایاں کر کے رکھ دیا۔
اس میں بتایا گیا تھا کہ معاشی ترقی اور سماجی عدل میں فرق بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ آٹھ برسوں میں صنعتی پیداوار 160 فیصد بڑھی تھی مگر مزدور طبقے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اسی سماجی عدل کے مطالبے اور خواہش کی کمی کو بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نوزائیدہ جماعت کے منشور میں سماجی انصاف اور معاشی برابری کو مرکزی نقطہ قرار دیا۔

ایوب دور میں ڈاکٹر محبوب الحق کی رپورٹ میں 22 سیاسی خاندانوں کا ذکر کیا گیا ہے (فائل فوٹو: فلِکر)

ایوب خان کے زوال میں امریکہ کا کردار
پاکستان میں دو برس قبل تحریک انصاف کی حکومت کی تبدیلی کے بعد اس کے بانی اور دیگر رہنماؤں نے ایک سائفر کی بنیاد پر امریکہ کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا ذمہ دار قرار دیا ۔
25 مارچ 1969 کو دو سال چلنے والی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان نے صدارت چھوڑنے اور اقتدار بری فوج کے سربراہ جنرل یحیی خان کو سونپنے کا اعلان کیا۔
ایوب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم، مزدور تحریکوں اور طلبہ نے بے مثل احتجاجی تحریک منظم کی۔
تاشقند معاہدے پر اختلافات سے کابینہ سے الگ ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو حکومت مخالف تحریک کے سب سے بے لچک اور مقبول رہنما تھے۔
ایوب خان کے زوال میں فاطمہ جناح کو الیکشن میں دھاندلی سے شکست دینا، 1965 کی جنگ کے بعد قومی مفاد پر سمجھوتے کا تأثر اور صدارتی نظام سے جنم لینے والی سیاسی اور معاشی محرومیاں شامل تھیں۔
مگر اسے امریکہ کی مداخلت اور مفاد کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے والوں کی کمی نہیں۔ خود ایوب خان نے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
’ڈائریز فیلڈ مارشل محمد ایوب خان‘ نامی کتاب کچھ عرصہ قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی تھی جس میں 1966 سے 1972 تک ایوب خان کی ذاتی ڈائریوں کا انتخاب شامل ہے۔
ایوب خان نے اقتدار سے محرومی کے چھ دن بعد امریکی مداخلت کے بارے میں لکھا: ’لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ اس غرض سے امریکہ نے انڈونیشیا میں مداخلت کے طرز پر ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کی تاکہ پاکستان میں بائیں بازو کو بے نقاب کیا جائے اور دائیں بازوں سے معاملہ کرنا آسان ہو سکے۔
ایوب خان کی ایک اور ڈائری کے مطابق صدارتی انتخاب کے بعد امریکی سفیر نے  ملاقات میں ان کی حکومت کے بارے میں عدم اعتماد اور عدم تعاون کا تأثر دیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر اسی صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے قریبی ساتھی اور حکومتی وزراء متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں پر امریکی سرپرستی حاصل کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔
فاطمہ جناح کی الیکشن مہم کے بارے میں ایوب خان کی ایک وزیر نے پولنگ سے ایک دن پہلے یہ الزام لگایا کہ ان کے الیکشن کے اخراجات امریکہ پورا کر رہا ہے۔
امریکی مداخلت کے الزام میں کتنی صداقت ہے اس کا تو پتہ نہیں مگر ایوب حکومت کے آخری پانچ دنوں کے واقعات ان کی رخصتی کے دیگر اسباب اور محرکات کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو حکومت مخالف تحریک کے سب سے بے لچک اور مقبول رہنما تھے (فائل فوٹو: فلِکر)

21  مارچ 1969 کو الطاف گوہر اور وزیر قانون صدر سے ملنے گئے۔ ایوب خان نے انہیں بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے آئینی ترمیم کی تجویز پر وزیر دفاع اور کمانڈر اِن چیف سے ملاقات کر کے ان کی رائے جاننے کا کہا۔
اسی رات دونوں ایک بار پھر صدر سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ انہوں نے ایوب کو یحییٰ خان کے جواب سے مطلع کیا۔
جب انہیں صدر کی طرف سے تجاویز کا بتایا گیا تو غصے کے عالم میں یحییٰ خان نے جواب دیا کہ ’ان آئینی ترامیم سے کوئی معجزہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی حکومت کے گورنر لوگوں کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کر سکیں گے ۔‘
اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایوب خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
’اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ یحییٰ خان کیا کرنے جا رہا ہے۔‘
پاکستان کی اجتماعی زندگی پر ایوب خان کے دور حکومت کے نقوش ابھی تک باقی ہیں۔ ملک کی شاہراہوں پر شمال سے جنوب کی طرف رواں دواں مال بردار ٹرکوں کے پیچھے ایوب خان کی فوجی وردی والی تصویر کے نیچے لکھا نظر آتا ہے
’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘

شیئر: