ریاض------- ملازمتوں کی سعودائزیشن اور افرادی قوت کے ماہر عبدالعزیز الحوالی سمیت متعدد ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ بقالوں کی سعودائزیشن سے قبل کلیدی عہدوں پر ہم وطنوں کو تعینات کیا جائے۔ بقالوں سمیت متعدد شعبوں کی سعودائزیشن کی خبر نے سعودی معاشرے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف زبردست نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ بیروزگاری کے خاتمے اور سعودائزیشن کے امور سے دلچسپی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ نجی اداروں کے کلیدی عہدوں اور اہم ملازمتوں کی سعودائزیشن ترجیجی بنیادوں پر کی جانی ضروری ہے۔ اس کے لئے فوری فیصلے کرنے ہوں گے۔ الحوالی نے بقالوں کی سعودائزیشن کے فیصلوں کو شکست خوردہ ذہنیت کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عالم میں جبکہ اعلیٰ عہدوں پر غیر ملکی فائز ہیں اور سعودی ماہرین کے ہوتے ہوئے اعلیٰ تنخواہیں لے رہے ہیں بقالوں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے مراکز کی سعودائزیشن کی باتیں عجیب ہیں۔ الحوالی نے یہ بھی کہا کہ بقالوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اگر بقالے کا مالک کسی سعودی کو ملازم رکھے گا تو اسے کم از کم 3ہزار ریال تنخواہ دینی ہو گی۔ ایسی حالت میں اس کے پاس کیا بچے گا۔ بقالہ معمولی سی دکان ہوتی ہے۔ یہ کوئی کمپنی نہیں جس سے لاکھوں کی آمدنی ہوتی ہو۔ اس کا ایک نقصان یہ ہو گا کہ غیر ملکی درآمد کنندگان سعودیوں کو بقالوں پر سامان فراہم نہیں کریں گے اور ان کے خلاف محاذ قائم کرلیں گے۔ الحوالی نے توجہ دلائی کے سعودائزیشن کا مقصد مقامی شہریوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ غیر ملکی کارکنان سے نفرت یا جلن یا حسد نہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس میں بے روزگار نہ ہو۔ وزارت محنت جرأ ت مندانہ فیصلوں سے قاصر نظر آ رہی ہے۔ بڑی کمپنیوں اور قدآور تاجروں کے خلاف سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ سعودی تاجروں کا مقامی کارکنان کے بارے میں نقطہ نظر تبدیل کرانا ہوگا۔ الحوالی نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ بقالوں کی سعودائزیشن کے فیصلے سے متفق نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 14برس سے افرادی قوت کے شعبہ میں سرگرم عمل ہیں اور سعودائزیشن کے کسی بھی فیصلے کے حوالے سے کیا کچھ ہو گا اس کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ الحوالی نے کہا کہ موبائل مارکیٹ کی سعودائزیشن کامیاب ہوئی ہے۔ اس کا سہرا وزارت محنت کے سر نہیں جاتا اس کے ہیروز وہ سعودی نوجوان ہیں جو اسمارٹ فون کے دیوانے ہیں اور وہ اس شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کی امنگ رکھتے ہیں۔ الحوالی نے سوال اٹھایا کہ سیرو سیاحت کے شعبے کی سعودائزیشن کیوں نہیں کی گئی اس شعبہ کی سعودائزیشن آسانی سے کی جا سکتی تھی۔ انہو ں نے کہا کہ ہمارے یہاں غیر ملکیوں نے کافی کام کیا ہے۔ ہم ان کے کردار کا انکار نہیں کر سکتے تا ہم اب ہمارے نوجوان تعلیم اور تجربہ حاصل کر کے روزگار سے محروم ہیں انہیں بھی بیروزگار نہیں چھوڑ سکتے۔ الحوالی نے کہا کہ حساب کتاب کی ملازمتوں کی سعودائزیشن کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔ اداروں کے سودے غیر ملکیوں کے ہاتھ میں کیوں ہیں۔ سعودی جامعات سے سیکڑوں نوجوان سالانہ اکاؤنٹنٹس بن کر نکل رہے ہیں اور روزگار سے محروم ہیں۔