شرعا ًحرام قرار دی گئی چیزوں کے سرور وکیف کو اللہ تعالیٰ کے عذاب وعقاب اور اس کے وعدو وعیداستحضارکے ذریعہ مکدر کیا جاسکتا ہے
* * * * * شیخ محمد صالح المنجد* * * * *
اللہ تبارک و تعالیٰ کے خوف کے فوائد اور ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ خوف الٰہی بندے کو اعمال صالحہ کی انجام دہی کے لئے ابھارتا ہے ،ارشادباری تعالیٰ ہے’’اور ان گھروں کو بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے(یعنی مسجدیں) وہاں صبح وشام(اہل ایمان) اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں،ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اورنماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اُس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی‘‘(النور37,36) چنانچہ یہ اعمال صالحہ نماز کا قیام،زکوٰۃ کی ادائیگی،اور تسبیح وتحمید وغیرہ کی انجام دہی کا داعیہ پیدا کرنے کا ذریعہ اور قیامت کے دن کا خوف وڈر ہے اسی لئے حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ’’جس شخص نے خوف وڈر کا پاس ولحاظ رکھا وہ صبح تڑکے سفرکے لئے نکل پڑا اور جوسفر کے راہ پر چل پڑے وہ منزل تک رسائی پاکر رہے گا اور یاد رکھو!اللہ سے سودی بازی بڑی قیمتی ہے اور اللہ کا سودا جنت ہے‘‘ اس حدیث میں’’أدلج‘‘ کا لفظ وارد ہواہے،ا س سے مراد اول لیل سفر کرنا ہے،اس کلمہ کا مقصدپوری توانائی صرف کرکے سفر کی منازل طے کرنا ہے ۔
حدیث کے معنی ومرادیہ ہیں کہ جس شخص نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف اختیار کیا اور اس کے عذاب کی ہولناکی کو مد نظر رکھاتو اعمال صالحہ کی انجام دہی اللہ تعالیٰ سے خوف کے پیش نظراس کی سعیٔ پیہم کا محور بن گئی اور جس شخص نے اعمال صالحہ کی ادائیگی میں جان توڑ محنت وجانفشانی سے کام لیا وہ منزل مقصود تک رسائی پانے میں کامیاب ہوگیا اور بندئہ مؤمن کی منزل مقصود جنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے خوف کی وجہ سے نافرمانیوں اور معصیتوں کی رنگینیاں ماند پڑجاتی ہیں اوراس کا سرور وکیف مکدر ہوکر رہ جاتا ہے ۔امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’خوف الٰہی کے ثمرات اور فوائد میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف شہوات کا ستیاناس کرڈالتا ہے اورگناہوں کی لذتوں کو بدمزہ کردیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور خوف کھانے والوں کی نگاہوں میں گناہوں کی خر مستیاں اور قلقل ومینا کی محبوب ترین جھنکار یں مکروہ اور بد مزہ ہوجاتی ہے‘‘ اس اقتباس کی وجہ سے کوئی شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ مباح چیزوں کی لذتوں اور مسرتوں کو مکدر کرکے رکھ دیا جائے اور ہر وقت رنجیدگی وغمگینی کے عالم میں دنیا کے کیف وسرور کے لمحات سے کنارہ کش ہوکرماحول کو گدلا بنا دیا جائے، نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے! کیونکہ نبی کریم تو’’سید الخائفین‘‘ تھے،آپ دنیامیں پائی جانے والی مباح چیزوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے اسی لئے نبی کریمنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ’’تمہارے دنیاوی مال ومتاع میں میرے نزدیک عورت اور خوشبو پسندیدہ ہے‘‘بلکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے خوف کی بنیاد پر حرام قسم کی خرمستیاں اور ناجائز عیش وطرب کے ساز وسامان سے محظوظ ہونے کی ممانعت واردہوئی ہے ۔
حرام قسم کی لذتوں اور مستیوں سے اجتناب کی کیا شکل ہوسکتی ہے؟اور کس طریقہ سے حرام چیزوں کی رنگینیوں کو اپنی نظروں سے گرایا جاسکتا ہے؟ شرعا ًحرام قرار دی گئی چیزوں کے سرور وکیف کو اللہ تعالیٰ کے عذاب وعقاب اور اس کے وعدو وعیداستحضارکے ذریعہ مکدر کیا جاسکتا ہے چنانچہ ایک زانی اور زانیہ یوم آخرت زانیوں کو جوعذاب دیا جائے گا اس کی یاد تازہ کرلے اور اس لہو اور پیپ کے بارے میں استحضار کرے جو ان کے جسم سے اس دن بہہ رہا ہوگا اور زانی لوگ اس پیپ اورلہو کو پی کر اپنی پیاس بجھائیں گے،یہ تو یوم آخرت کی بات ہے اگر ان کو قبر کے عذاب کا استحضار ہوجائے جوان کو قبر میں ملنے والا ہے تو یہ حرام کی خرمستیاں مکدر ہوکر رہ جائیں اور عیش وعشرت کی ساری دھماں چوکڑیاں وہ بھول جائیں اور بدکاری وفحش کاری کا مزہ مکدر اور بد مزہ ہوجائے ۔
شراب نوشی کرنے والے کو اگر اس بات کا استحضار ہوجائے کہ اگر اس نے دنیا میں شراب نوشی کی تو جنت کی شرابِ طہورکا جام پینے سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑے گا تو دنیا کی گندی اور سڑی بدبودار پینے کی طرف اس کی طبیعت راغب نہ ہو اور اس بدبودار سڑی شراب کو وہ منہ لگانا گورا نہ کرے اور جاموں کی کھنک اس کے لئے بدمزہ ہوجائے ۔اس کے بعد امام قدامہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: شہد اس شخص کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہوجاتا ہے جس کو اس بات کا پتہ چل جائے کہ اس میں زہر آمیزاں ہے ،یہ بات سنتے ہی مارے خوف کے شہد نوشی کی خواہش سرے سے ختم ہوجاتی ہے اور اعضا وجوارح میں شائستگی پیداہوجاتی ہے۔ قلب ودماغ کو تسکین ہوجاتی ہے اور کبر وغرور اور حقد خود بخود اس خبر کو سن کر چلتا بنتا ہے اور خوف کی وجہ سے پورے طور پر اس کو یہی فکر لاحق رہتی ہے اور اس کے انجام کار کے خطرے کی طرف اس کی نگاہ لگی رہتی ہے۔ اب اس کی نیند حرام ہوجاتی ہے اُس کی توجہ کسی اور طرف نہیں ہٹتی۔
اب اس کا اہم ترین مشغلہ یہی خبر بن جاتی ہے، اسی کی سوچ بچار،اسی کے غور وخوض،اسی کے تصور اورجانچ پڑتال اورحساب وشمار اور اسی خبر کی تحقیق اور سعی وجد وجہدمیں سانسیں گھٹنے لگتی ہیںاور پھر وہ خطرات کے موقع پر یاکسی عمل کے اقدام کے وقت یا زبان سے الفاظ نکالتے وقت پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ اس کا حال اس شخص کی طرح ہوجاتا ہے جوچیرپھاڑ کر کھانے والے درندوں کے چنگل میں پھنس گیا ہو، اس کا کچھ پتہ نہ ہو کہ آیا اسے مہلت ملے گی تا کہ ان کے چنگل سے نکل بھاگے یا اس پر وہ درندے حملہ کرکے اسے چیر پھاڑ ڈالیں گے؟اس کے ذہن ودماغ میں وہی بات گردش کرتی رہتی ہے جس صورتحال سے وہ دوچار ہے ۔ جتنا خوف الہٰی دل جاگزیں ہوگا اسی کے بمقدارحضوریٔ دل سے اللہ تعالیٰ کا دھیان اورمحاسبۂ نفس کی کیفیت میں تقویت پیداہوتی چلی جائے گی اوراللہ تعالیٰ کی جلالت شان اور اس کی صفاتِ ا علیٰ کا جتنا زیادہ خیال ہوگا اتنا ہی خوف الٰہی رنگ لاتا چلا جائے گا اور جتنا اپنے نفس کے عیوب ونقائص اور اس کے ارد گرد جو خطرات اور ہولناک آفتیں منڈلارہی ہیں اس کااستحضار ہوگا اتنا ہی خوف الہٰی کا رشتہ مستحکم ہوتا چلا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوف الہٰی سے سرشارلوگوں کوثناخوانی کے حصول کی بشارت ملنا بھی اللہ تعالیٰ سے خو ف کا فائدہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے سے اقرب ترین بندوں کی محض خوف الہٰی سے متصف ہونے کی وجہ سے مدح سرائی کی ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے’’یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف سبقت کرنے والے تھے اور ہمیں خوف وطمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے( خشوع وخضوع)عاجزی(وانکساری) سے پیش آنے والے تھے‘‘(الأبنیاء90)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمنین کی ان کے عذاب الٰہی سے خوف وڈر کی کیفیت سے متصف ہونے کی بنیاد پر وصف بیانی کرتے ہوئے تعریف کی ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے’’اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں،بلاشبہ ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں‘‘(المعارج28,27) اورارشادباری تعالیٰ ہے’’بھلاجوشخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں گزارتا ہو،آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو(اور جو اس کے برعکس ہو)برابر ہوسکتے ہیں؟(آپ) کہہ دیجئے ذرا بتاؤتو علم والے اور بے علم برابرہوسکتے ہیں،یقینا نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل ودانش سے بہرہ ور ہیں ‘‘(الزمر9)اور اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں ودانشمندوں کی تعریف کی ہے اور ان کی وصف بیانی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ عقل ودانش سے بہرہ ورلوگ خوف الہٰی کی حقیقت سے آشنا ہواکرتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے’’کیا وہ شخص جو اس بات کا علم رکھتا ہو کہ جو آپ() کی طرف آپ() کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ مبنی برحق ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو، نصیحت پر وہی لوگ کان دھرتے ہیں جو عقل ودانش سے بہرہ ور ہوتے ہیں،جو اللہ کے عہد( وپیمان) کو پورا کرتے ہیں اورقول وقرارکو توڑتے نہیں ،اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اس کو(صلہ رحمی کی بنیاد پر) جوڑتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں اور حساب(وکتاب) کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں‘‘(الرعد21-19)
اللہ تعالیٰ کے خوف کا پاس ولحاظ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ خائف وخاشع شخص عقل مند ودانش مند ہوتاہے اور اس کی بنیاد پر اسے عقلمندوں میں شمار کیا جاتا ہے گویاکہ خوف الہٰی سے سرشارلوگ ہی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی عقلیں دانشمندی ودانشوری کی دولت سے مالا مال ، انہیں پتہ ہے کہ کس سے ڈراجائے اور کس سے نہ ڈرا جائے اور اللہ تعالیٰ کاخوف اختیار کرنے کے اسباب ووسائل کے فہم وادراک سے ان کی عقلیں آشنا ہیں وہ اس بات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں کہ کہاں خوف کرنا چاہئے اور کہاں نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے خوف کے فوائد اور ثمرات میں سے اللہ کی سرزمین پرغلبہ وقوت بھی ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے’’اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے یاتم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ،تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کردیں گے اوران کے بعد ہم خودتمہیں اس زمین پر بسائیں گے یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کاڈر رکھیں اور میری وعید سے خوف زدہ رہیں‘‘(ابراہیم14-13)
لہذا اللہ کاخوف تمکین فی الأرض کا ذریعہ اور دشمنوں پر قوت وغلبہ کا سبب ہے اور ان کی ملکیت واراضی کے بطور وراثت حصول کا وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ خوف کے فوائد وثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ خوف ہر قسم کی مصیبت وبلا سے نجات کا ذریعہ ہے ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ کا ارشادہے کہ’’3 چیزیں نجات سے ہم کنار کرنے کا ذریعہ ہیں!ایک تو خفیہ یاعلانیہ طورپر اللہ تعالیٰ کاخوف اور اس کی خشیت، دوسرے کیف وسرور یاغیظ وغضب دونوں کیفیتوں میں عدل وانصا ف سے کام لینااور تیسرا مالداری اور فقر دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا‘‘یہی وہ خوف وخشیت ہے جو بندے کی حفاظت وسلامتی کی ضامن ہے اور اسے ہر قسم کی مصیبت وبلاء سے نجات سے ہم کنار کرنے کاسبب اور ذریعہ ہے اورحدیث مذکور میں نجات کا لفظ بغیر کسی قید کے استعمال ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد دنیا وآخرت کی نجات اور کامیابی وکامرانی ہے کیونکہ یہ اپنے عموم پر دلالت کررہی ہے ۔
یہ تو خوف الہٰی کے فوری فوائد کا بیان تھا اب اس کے اخروی فوائد کا بیان پیش خدمت ہے ۔ خوفِ الٰہی کے فوائد میں سے اہم ترین اخروی فائدہ عرش الہٰی کے سایہ سے محظوظ ہونے کی سعادت کا حصول ہے ۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ان 7 آدمیوں کا صراحتاً ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا۔ اس حدیث میں یہ وضاحت موجودہے کہ’’وہ شخص جس کوبڑے مرتبہ اور عالی منصب نیزحسن وجمال کا پیکر عورت لفٹ دے مگر وہ یہ کہہ کر کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس کی پیش کش ردکردے‘‘مرادیہ ہے کہ اللہ کا خوف وڈراس عورت کے ساتھ بدکاری کرنے سے اسے روک دے یہی وہ خوف الٰہی ہے جو اللہ کے عرش کے سایہ تلے پناہ لینے کا اس کے لئے سبب بن جائے گا خصوصاً اس موقع سے اس کو عرش الہٰی کے سایہ میں جگہ ملے گی جبکہ سورج لوگوں کے سروں پر ایک میل کے فاصلہ پر منڈلا رہا ہوگا اور لوگ اس کی شدت حرارت سے پسینہ میں غرق ہوں گے! اوراس شخص کا اس عورت سے یہ کہنا کہ(میں اللہ سے ڈرتا اور خوف کھاتا ہوں)اس حدیث کا ظاہری سیاق یہ بتلارہا ہے کہ اس شخص نے اپنی زبانِ حق سے یہ بات کہی ہے تاکہ اس عورت کو فحش کاری کے ارادے سے باز رکھ سکے اور اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے خوف کا استحضار دلا کر اپنے موقف اور ارادے کی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اپنے عزم مصمم کومنظر عام پر لائے اور ان مبادی واصول کے اعلان کے بعدالٹے پاؤں پسپائی اختیار نہ کرے ۔ اسی طرح ان 7 اشخاص میں اس شخص کا بھی تذکرہ ہے کہ جس نے خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ہو اور اس کی آنکھوں سے مارے خوف اور خشیت کے سیل رواں جاری ہوجائے تو اس بندے کی خوف الہٰی کی یہ کیفیت جس نے اس کی آنکھوں کو بہنے پر مجبور کردیا اور اس سے جاری آنسوؤں کی بارش قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایۂ عاطفت میں جگہ فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
خوف الٰہی کے فوائد میں سے اہم ترین اخروی فائدہ قیامت کے دن کی ہولناکی اور خوفناکی سے نجات بھی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ حدیث قدسی بیان فرماتے ہیںکہ ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گاکہ میری عزت وکبریائی کی قسم!میں اپنے بندے کے اوپر دوخوف اور دو قسم کے امن کو جمع نہیں کروں گا! اگر وہ دنیا میں مجھ سے خوف کھاتا اور ڈرتارہا تو میں قیامت کے دن اس کو امن وامان دے کر چین وسکون کی سعادت سے بہرہ ور کردوں گا اوراگردنیا میں اس نے میرے خوف اور ڈرکی پرواہ نہ کی اورمجھ سے دنیاوی امن وسکون مانگ کر محظوظ ہوتا رہا تو قیامت کے دن میں اسے خوف سے دوچار کروں گا‘‘ خوف الٰہی کے فوائد میں سے ایک اور اخروی فائدہ جہنم کی آگ سے نجات ہے ۔
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ’’وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کے ڈر سے روپڑا ہو یہاں تک دودھ اپنے تھن میں واپس لوٹ جائے‘‘اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’دوآنکھیں یا دیدئہ تر ایسے ہیں جن کو جہنم کی آگ چھو نہیں سکتی۔ ایک تو وہ دیدئہ تر جو اللہ تعالیٰ کی خشیت میں آنسو جاری ہوگئے ہوں اور دوسرا وہ دیدئہ بینا جس نے اللہ کے راستہ میں پہرہ داری کرتے ہوئے شب بیداری کی ہے‘‘ خوف الٰہی کے فوائد میں سے اہم اخروی فائدہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت کا حصول ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی نبی کریم کا ارشاد ہے کہ’’ گزشتہ زمانے میں ایک شخص تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو مال ودولت سے نوازاتھا (چنانچہ جب اس کی جانکنی کا وقت قریب آیا تو حالت احتضار میں اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے کہا کہ ذرا مجھے بتلاؤ بطور باپ میرا تم لوگوں سے کیسا سلوک تھاتو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے ایک اچھے باپ ہونے کاحق ادا کردیا توباپ نے کہا کہ میں نے زندگی میں کوئی خیر کاکام نہیں کیا اس لئے جب میں مرجاؤں تو تم لوگ میری لاش کو جلادینا اور اسے راکھ بنادینا پھر تیز ہوا میں اسے اڑادینا ،اس شخص کے بیٹوں نے باپ کی وصیت کے مطابق اس کے ساتھ وہی سلوک کیا،اللہ تعالیٰ نے اس کے ذرہ ذرہ کو جمع کیا اور اس سے پوچھا کہ تم کو اس ْحرکت کی انجام دہی کے لئے کس چیز نے آمادہ کیا؟اس شخص نے جواب دیامحض تیرے خوف کی وجہ سے میں نے ایسا کیا!تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمایا (یہ ہے اللہ تعالیٰ کی شان رحیمی وکریمی)‘‘ خوف الٰہی کے فوائد میں سے ایک اور فائدہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا حصول بھی ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور یہ (لوگ) اس سے راضی ہوگئے یہ(رتبۂ بلند)اس شخص کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرے( اور خوف کھائے)‘‘(البینۃ8) آیت کریمہ اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ اللہ کی رضامندی وخوشنودی انہی لوگوں کو حاصل ہوگی جن کا تذکرہ سور ۃ البینہ میں گزر چکا ہے یہ محض رب کریم سے ان کے خوف کھانے اور ڈرتے رہنے کی وجہ سے ان کو حاصل ہوگی ۔