Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شکوہ کس سے کریں؟

پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے ، کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، کیا حکومت انہی کاحق ہے ، کسی اور کا حق نہیں کہ وزیراعظم بنے
صلاح الدین حیدر
پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے، کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، کہ ایک بھائی ملک کی عدالت عظمیٰ سے نااہل ہوجائیں اور اب دوسرے بھائی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کےلئے تیار بےٹھے ہوں۔ یہی نہیں ستم بالائے ستم کہ شہباز شریف کے بیٹے، حمزہ شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ نواز شریف سپریم کورٹ کی ہدایت کے برعکس (جس نے انہیں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت سیاست سے عمر بھر کےلئے بے دخل کردیا) مزے سے (ن) لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کررہے ہیں، اپنے چھوٹے بھائی کو اپنی جگہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کا اعلان کرتے ہیں، پارٹی کے ارکان عدالت کا مذاق اُڑاتے ہیں، تالیاں بجا کر اور نعرے لگا کر نواز شریف کو داد و تحسین دیتے ہیں۔ جس ملک میں بے حسی اس قدر شدید اور نمایاں ہو، وہاں شکوہ کون اور کس سے کرے؟ ہم تماشائے اہل کرم دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہماری طرح کروڑوں عوام جن کے بدن پر کپڑا نہیں، پاو¿ں میں جوتی نہیں، کھانے کو گھر میں آٹا دال نہیں، اُنہیں تو بھول ہی جائیں، ان بے چاروں کا کیا قصور؟ وہ تو خود ہی قسمت کے ستائے ہوئے ہیں، لیکن آپ غور کریں کہ شاہد خاقان جیسے شریف النفس انسان (جنہیں عبوری وزیراعظم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے) عہدے کا حلف اُٹھانے سے پہلے ہی، پوری طرح وزیراعظم کا پروٹوکول لے کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
آئیے ہم آپ کو تصویر کا دوسرا رُخ دِکھاتے ہیں۔ ایک نامور صحافی، بے باک مصنف جس نے کئی کتابیں تحریر کر ڈالیں (آپ سمجھ گئے ہوں گے میرا اشارہ کس شخصیت کی طرف ہے) ہمارے ملک میں تو ویسے ہی بہت اعلیٰ ظرف صحافی، شاعر اور ادیب گزرے ہیں، کچھ تو گزر گئے، باقی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے ابھی ہم میں موجود ہیں، چلئے نام لے لیتا ہوں، منو بھائی اور مستنصر حسین تارڑ۔ آخر الذکر نے ایک پیغام بھیجا جو میں آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں، فرماتے ہیں کہ اگر برطانوی شہزادہ (بلکہ کراﺅن پرنس کہیں تو زیادہ مناسب ہے) پرنس چارلس کا چالان ہوجاتا ہے، وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی زیر زمین ٹرین میں سفر کرتی غلطی سے اگلے اسٹاپ پر اُتر جاتی ہے تو اُسے جرمانہ ہوجاتا ہے، سویڈن کا وزیراعظم بھٹو کی دعوت میں شامل ہونے کےلئے پیدل چلا آتا ہے، ڈنمارک و ہالینڈ کی ملکائیں سائیکلوں پر گھومتی نظر آتی ہیں، جرمن پارلیمنٹ کی ایک رکن دوبارہ منتخب نہیں ہوتی تو گزر اوقات کےلئے ایک اسٹور میں صفائی کرنے کی نوکری کرتی ہیں، آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچراتوار کو اپنے اور بال بچوں کے کپڑے دھو کر ڈاﺅننگ اسٹریٹ کے مکان نمبر 10 کے مختصر صحن میں سوکھنے کے لئے خود ڈالتی ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ہم اس حوالے سے بھی کچھ مضطرب ہوجائیں، کیونکہ یہ تو ہم بھول چکے ہیں کہ یہ اصل میں مسلمانوں کی روایات تھیں۔
آج ہمیں شان و شوکت نے گھیر لیا ہے، اس میں ہمارا قصور تو ضرور ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کا جو سبق پڑھایا اُسے ہم سرے سے بھول ہی بےٹھے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہےں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
ہم نے عیش و عشرت کو اپنانے میں فخر محسوس کیا۔غریب کی نظر تو اب بھولے سے بھی نہیں اُٹھتی کہ اُس کے گھر بچوں کو کھلانے کےلئے کیا ہے۔ ہمارے اسلامی اصولوں (جو ہمیں، اﷲ، اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک نے بتائے) کو مغربی ممالک نے اپنالیا اور آج وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کی مثال آج بھی زندہ ہے، جہاں ایک کپڑے کا حساب امیر المومنین کو دینا پڑ گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جنگ کے دوران اپنے گھر کا سارا سازوسامان، اونٹ، بھیڑ، بکریاں سب کچھ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا اور جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکر!گھر میں بھی کچھ چھوڑا ہے تو جواب بغیر کسی وقفے کے آیا کہ جی اﷲ اور اُس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ تھیں درخشاں روایات۔ 
ً کیا ہم آج بھی امین اور صادق ہیں، یا کہلانے کے بھی قابل۔ ہم تو راندہ¿ درگاہ ہوچکے ہیں۔ اُمراءاور رﺅسا کا طبقہ اعلیٰ منصوبوں کی دوڑ میں بے ایمانی تک سے باز نہیں آتا، پارلیمنٹ میں جانے اور وزیر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم بننے میں عوام کو یکسر نظرانداز کردیتا ہے، بڑے بڑے محلات عوام النّاس کے ٹیکسوں سے بنائے گئے، مغربی ممالک (جہاں اکثر جانے کا اتفاق ہوتا ہے) مےں وزیراعظم کے لئے چھوٹے سے مکانات ہوتے ہیں، امریکی صدر کےلئے وائٹ ہاﺅس میں صرف 3 کمرے مخصوص ہیں، جاپان کے وزیراعظم اور جرمنی کی چانسلر محدود اور چھوٹے مکان میں رہتے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے، امارت عوام کی ہتھیلیوں پر کھیلتی ہے۔ کیا انہی سب باتوں کےلئے ہم نے ایک علیحدہ ملک بنایا تھا، لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ 
رائیونڈ جسے آج کل تختِ لاہور کا بھی نام دیا جاتا ہے، سیکڑوں ایکڑپر پھیلا ہوا اور اُسکے مکین، اُس وسیع و عریض سلطنت کا ذکر تک نہیں کرتے، سڑکوں کا جال بچھانے اور جنگلہ بس چلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور بے شمار دولت کمانے پر جس کا وہ ذریعہ نہیں بتاسکتے، منصب اعلیٰ سے علیحدہ کردیے جاتے ہےں تو پھر اپنے چھوٹے موٹے کارناموں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کیا حکومت انہی کا حق ہے؟ کیا قومی اسمبلی میں جہاں آپ کی پارٹی میں 342 میں سے 188 ارکان ہیں اور حلیفوں کی ملاکر یہ تعداد 214 تک پہنچتی ہے، کسی اور کا حق نہیں کہ وزیراعظم بنے۔ جمشید دستی بے چارہ غریب ایم این اے ہے، وہ جیل تو جاسکتا ہے، لیکن کسی اعلیٰ عہدے کےلئے سوچا بھی نہیں جاسکتا، اس لئے کہ سچ بولتا ہے۔ 
تو قارئین یہ ہے حال، آپ سے تو کچھ چھپا ہوا نہیں۔ بس میں نے قلم اُٹھانے کی ہمت کرلی، خدا خیر کرے۔

******

شیئر: