آج اگر ابوالکلام آزاد اور ماسٹر تارا سنگھ زندہ ہوتے تو دھان پان منحنی سے بدن والے محمدعلی جناح کو 20ویں صدی کا عظیم ترین رہنما قرار دیتے ۔
**جاوید اقبال**
بدنما داغ ہیں۔ انتہائی بدنما اور بھیانک داغ ہیں۔ حالیہ ایام میں سوشل میڈیا پر ظاہر ہونے والے یہ مناظر کسی بھی معاشرے کے روشن خیالی کے دعوؤں کو جھٹلاتے رہیں گے۔ پہلا منظر ہندوستان کے کسی شہر کا ہے۔ ایک کار کا کھلا دروازہ ہے جس میں ایک پتلے دبلے چہرے والا باریش مسلمان کھڑا ہے۔ سر پر ململ کی بنی سفید ٹوپی ہے۔ گاڑی کا ڈرائیور اسکی کمزور گردن میں ہاتھ ڈال کر اس کا چہرہ زبردستی اندر کرتا ہے اور چلاتا ہے بول جے شری رام، مسلمان عاجزی سے مسکراتا اس کے الفاظ دہراتا ہے۔ ڈرائیور پھر زور سے کہتا ہے ’’بول جے شری رام!‘‘ مسلمان کی مسکراہٹ میں مزید بے بسی آتی ہے اور وہ سہمے انداز میں ڈرائیور کے الفاظ دہراتا ہے ۔ اب کے نیا نعرہ لگانے کا حکم ہوتا ہے ’’بول ماتا کی جے‘‘ اور سہمے باریش چہرے کے ہونٹ ہلتے ہیں۔ اب کے ڈرائیور کی بلند آواز میں دھمکی ہے’’کاٹ ڈالوں گا! چل گیٹ آئوٹ اور سفید ٹوپی والا صاحب ایمان بے بسی سے مسکراتا گاڑی کا دروازہ چھوڑ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر آنے والا دوسرا منظر ایک سڑک کے کنارے کا ہے۔ دائیں ہاتھ گاڑیاں دھونے والے ایک گیراج کا سامنے کا نصف حصہ نظر آرہا ہے ۔ کوئی ایک درجن کے قریب نوجوان ہاتھوں میں تلواریں اٹھائے بائیں طرف سے موٹر سائیکلوں پر وہاں پہنچتے ہیں۔ ان میں سے 3گیراج کے اندر گھس جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر نکلتے ہیں اور ہمراہ نیلی ٹی شرٹ اور نیکر میں ملبوس ایک زمین پر گرے زخمی بدن کو گھسیٹتے لاتے ہیں۔ مجروح کے ساتھ ہی خون کا ایک ننھا تالاب بھی باہر آگرتا ہے۔زخمی ہندوستان کا معروف مسلمان تن ساز نوید پٹھان ہے۔ زین پر پڑے اس کے بدن پر تلواروں کے وار ہورہے ہیں۔ ایک حملہ آور اسکی گردن کو نشانہ بنارہا ہے جبکہ ایک اور اسکی ٹی شرٹ اوپر کھینچ کر پیٹ پر وار کررہا ہے۔
سڑک پر اکا دکا گاڑیاں لاتعلقی سے گزر رہی ہیں۔ گردن پر کئے گئے ہر وار پر زخمی کے دونوں بازو ہوا میں بلند ہوتے ہیں۔ مضبوط تنومند تن ساز اپنے خون میں ڈوبا موت کی دہلیز پار کررہا ہے اور آس پاس کوئی روکنے والا نہیں۔ کسی صدا کا وجود نہیں۔ جب حملہ آوروں کو اپنی کامیابی کا پورا یقین ہوجاتا ہے تو نعرے لگاتے موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ وہاں ایک خون آلود تراشیدہ گلو بدن پڑا رہ جاتا ہے جس کا نام نوید پٹھان تھا اور جو جب زندہ تھا تو اپنے مساموں اور پٹھوں میں تیل جذب کرتے وقت یہی خواب دیکھتا تھا کہ کبھی مسٹر ورلڈ کا مقابلہ جیت کر ہندوستانی ترنگے کے سائے میں وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا پنے دیش کا ترانہ پڑھے گا۔ اور سوشل میڈیا پر ڈالا جانے والا تیسرا منظر بڑا دلفریب انداز میں ہندوستان کے آئندہ کا نقشہ واضح کرتا ہے۔ پٹیالہ میں ایک درجن کے قریب سکھوں کا ایک گروہ کھڑا ہے۔
ان میں سے ایک اپنے ہم عقیدہ ساتھیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے وہاں موجود صحافیوں سے مخاطب ہے۔ اس کے الفاظ سننے کے قابل ہیں۔ وہ کہہ رہا ہے پچھلے چند مہینوں سے انٹرنیشنل میڈیا، اخباروں اور سوشل میڈیا پر یہ بات مشہور ہوچکی ہے کہ پاکستان اور چین کا فوجی گٹھ جوڑ ہوگیا ہے اور وہ کسی وقت بھی ہندوستان پر حملہ کرسکتے ہیں۔ چین نے ہماچل پردیش کی ہماری 2چوکیوں پر قبضہ بھی کرلیا ہے اور ہندوستان انہیں ابھی تک ’’جی آیاں نوں‘‘ ، ’’جی آیاں نوں‘‘ ہی کہہ ہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بیان دیا ہے کہ کشمیر کی گڑبڑ میں چین کا ہاتھ ہے۔
چین بہت بڑی طاقت ہے۔ ہندوستان میں مودی کی حکومت ہے تو جو بجرنگ دل ہے اور بی جے پی ہے یہ آر ایس ایس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ گئو رکھشا دل والے بھی یہ سارے بھارت ماتا کی جے کے نعرے مارتے ہیں۔ ان جماعتوں کے سپوت بڑے زور سے بھارت ماتا کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہماری جماعت ہاتھ جوڑ کر ان سے التماس کرتی ہے کہ آپ بھارت ماتا کے سپوت اپنے اپنے طور پر پاکستان اور چین کی سرحدوں پر لڑنے جائیں کیونکہ ہمارا عتقاد ہے کہ اگر بھارت ماتا محفوظ ہے تو گئو ماتا بھی محفوظ ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ جس ولولے اور جوش سے بھارت ماتا کے نعرے لگاتے ہیں اگر یہی جوش سرحدوں پر برقرار رہا تو ضرور وہاں کچھ کریں گے اور یہ واپس تبھی آئیں گے جب کچھ نتیجہ دکھالیں گے۔
جہاں تک ہماری سکھ کمیونٹی کا خیال ہے تو اگر ضرورت پڑی تو ہم انکی مرہم پٹی بھی کرینگے اور ان کے خاندانوں کا خیال بھی رکھیں گے۔ ہماری وراثت ہے کہ ہم نے بھائی کنہیا جی کے روپ میں جنگ کے دوران مرہم پٹی بھی کی ہے اور ابدالی کے وقت میں ہندوئوں کی مائوں ، بہنوں کو غزنی کے بازوںسے چھڑا کر ان کے خاندانوں کے حوالے کیا ہے۔ وہ فرض ہم اب بھی نبھائیں گے اگر وقت آن پڑا تو۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ یہ پوچھیں گے کہ آپ تو انہیں بھارت ماتا کے سپوت کہہ رہے ہیں تو کیا آپ نہیں ہیں؟ میں یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہم خالصتانی یہ بات نہیں کہہ سکتے خصوصاً اس وقت سے جب سے ہمارے دربار صاحب پر حملہ ہوا ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں ہم نہ پاکستان کی مخالفت کرینگے اور نہ حمایت اور نہ ہی ہم ہندوستان کی حمایت کریں گے۔ یہ لوگ جو بھارت ماتا کی جے کے نعرے زور و شور سے لگاتے ہیں یہ ہند کیلئے جنگ کریں۔ ہم پاکستان کے خلاف نہیں جاسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہندوستان نے دربار صاحب پر حملہ کیا تو روس اور برطانیہ نے اس کاساتھ دیا۔
اکال تخت گرانے میں لیکن پاکستان اور چین نے ہم پر حملہ نہیں کیا ۔پھر بڑی بات یہ ہے کہ جب کل ہمارا خالصتان بنے گا تو ہمارا نزدیک ترین پڑوسی پاکستان ہوگا اور کشمیر سے چین ہمارا ہمسایہ ہوگا۔ پھر یہاں پٹیالہ میں کھڑے ہوکر میں کہتا ہوں کہ دنیا بھر کے سکھ ، پاکستان کو مردہ باد نہیں کہہ سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکھ دھرم کا جنم ننکانہ صاحب میں ہوا تھا جو کہ پاکستان میں ہے اور ہم کیسے پاکستان کو مردہ باد کہہ سکتے ہیں ۔ایسے ہی جیسے دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ اور سعودی عرب کے خلاف نہیں سوچ سکتے ۔ سوشل میڈیا پر محوِپروازیہ صورتگری تو آج کا حصہ ہے لیکن تاریخ کے اوراق ماضی میں رہنمائوں کے کئے گئے متعدد غیر دانشمندانہ فیصلوںکی گواہی دیتے ہیں ۔
آل انڈیا کانگریس کے صدر ابو الکلام آزاد نے ہمیشہ تشکیل پاکستان کی مخالفت کی۔ سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی لاہور کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر کرپان لہرائی اور اعلان کیا کہ وہ نیام میں تبھی واپس جائیگی جب پاکستان نیست و نابود ہوجائیگا۔ اس اعلان کے بعد واہگہ کے دونوں طرف اس قتل عام کا آغاز ہوا جو 50لاکھ سے بھی زیادہ کی قربانی لے گیا۔ آج اگر ابوالکلام آزاد اور ماسٹر تارا سنگھ زندہ ہوتے تو دھان پان منحنی سے بدن والے محمدعلی جناح کو 20ویں صدی کا عظیم ترین رہنما قرار دیتے ۔ کرہ ارض پر آباد ہر پاکستانی اور ہندوستان میں مقیم ہر مسلمان، سکھ اور دیگر اقلیتی شہری کو پاکستان کا یوم آزادی مبارک!!