Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت

امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہوئی 40 سالہ سرد جنگ کے دوران50 سے زائد جوہری ہتھیار لاپتہ ہوئے
*****تحریر۔وسعت اللہ خان *****
جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتیں نئی جوہری طاقتوں کی مخالفت میں سب سے وزنی دلیل یہ لاتی ہیں کہ ان ’’ نوجوہریوں ’’ کو ایسے حساس ہتھیاروں کی حفاظت کرنی نہیں آتی لہذا یہ ہتھیار غلطی سے فائر ہو سکتے ہیں ، چوری ہو سکتے ہیں ، غائب ہو سکتے ہیں یا پھر دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ہم چونکہ خاندانی ایٹمی ممالک ہیں لہذا ہمارے ساتھ یہ مسئلہ نہیں۔کیا واقعی ایسا ہی ہے ؟ امریکی اخبار وال ا سٹریٹ جرنل کے مطابق 2014ء میں اسپین میں ہونے والی ناٹو جنگی تربیتی مشقوں کے بعد امریکی میزائلوں کی گھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ایک ہیل فائر میزائل پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ سے ریاست فلوریڈا بھیجا جانا تھا مگر ایئر فرانس کے عملے نے اس میزائل کو ہوانا کی فلائٹ پر بک کردیا اور پھر یہ میزائل کیوبا پہنچ کے غائب ہوگیا۔امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ میزائل چین ، روس یا شمالی کوریا کے ہاتھ لگ گیا ہوگا اور انہوں نے ٹیکنالوجی چرا لی ہوگی۔ سرکردہ جرمن تھنک ٹینک برلن انفارمیشن سینٹر فار ٹرانس اٹلانٹک سیکیورٹی کا اندازہ ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہوئی 40 سالہ سرد جنگ کے دوران50 سے زائد جوہری ہتھیار لاپتہ ہوئے۔پینٹاگون کے مطابق 11 امریکی جوہری ہتھیار آج تک غائب ہوئے ہیں۔ ان میں سے 7 ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اندر لاپتہ ہیں۔کئی ایسے حادثات بھی ہوئے کہ جوہری ہتھیاروں سے لدے طیارے تباہ ہوگئے۔ایک ایٹمی آبدوز لاپتہ ہوگئی۔
کچھ ہتھیار مل گئے کچھ نہ مل پائے۔مثلاً 13فروری 1950 ء کو امریکی فضائیہ کا ایک بی 36 طیارہ ریاست الاسکا سے ٹیکساس جا رہا تھا کہ اچانک دورانِ پرواز 3 انجن بند ہو گئے اور طیارہ زمین کی جانب آنے لگا۔عملے نے بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کارگو سمندر میں پھینکنا شروع کیا۔اس کارگو میں30 کلوٹن دھماکہ خیز شدت کا ایک ایٹم بم بھی تھا۔یہ بم سمندر کی تہہ میں ایسا بیٹھا کہ آج تک نہ ملا۔ 10 مارچ1956 ء کو امریکی فضائیہ کا بی 47 طیارہ 2 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ سمندر پار روانہ ہوا۔بحیرہ روم کے اوپر اس کی ری فیولنگ ہوئی اور کچھ دیر بعد وہ ساڑھے 14 ہزار فٹ کی بلندی پر گہرے بادلوں میں غائب ہوگیا۔اس کے کارگو میں مارک15ساخت کا ایک تھرمو نیوکلئیر ( ہائیڈروجن بم ) بھی تھا جس کی دھماکہ خیز شدت 3.4کلو ٹن تھی۔ 24 جنوری ا1961 ء کو ریاست شمالی کیرولائنا کے ایک ایئربیس سے بی 52 بمبار طیارے نے پرواز بھری۔ٹیک آف کرتے ہی یہ ایک بڑی دلدل پر گر پڑا اور طیارے پر موجود 24 میگاٹن طاقت کے 2میں سے ایک ایٹم بم دلدل میں غائب ہوگیا۔ 5 دسمبر1965 ء کو ویتنام سے جاپانی جزیرے یوکوسا جانے والے امریکی طیارہ بردار جہاز ٹائکونڈروگا کے عرشے سے ایک ا سکائی ہاک طیارہ پھسل کر کھلے سمندر میں گڑ پڑا۔اس پر ایک میگا ٹن طاقت کا تھرمو نیوکلئیر بم لوڈ تھا۔
جہاں یہ واقعہ ہوا وہاں سمندر کی گہرائی16 ہزار فٹ تھی۔کہیں15 برس بعد1981ء میں امریکی بحریہ نے اس حادثے کا اعتراف کیا۔ یہ ثابت ہوگیا کہ امریکہ نے ویتنام میں جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی کر رکھا تھا۔ 17جنوری1966ء کو ایک امریکی بی52 طیارہ 28 ہزار فٹ کی بلندی پر ری فیولنگ کے دوران ایئرکرافٹ ٹینکر سے ٹکرا گیا اور دونوں طیارے فضا میں ہی آتشیں لاوے کا گولہ بن گئے۔بی 52 میں 4 ہائیڈروجن بم لدے تھے۔ان میں سے ایک جزیرہ پالومرس میں ٹماٹر کے ایک کھیت پر گر گیا۔2دیگر بموں کے غیر جوہری فیوز زندہ ہوگئے جنہوں نے ان بموں کی کور پھاڑ دی اور پلوٹینیم کے ذرات کی ایک بڑے علاقے پر بارش ہوئی۔( آج تک اس علاقے میں تابکاری کی شرح دیگر علاقوں سے زیادہ ہے )جبکہ چوتھا ہائیڈروجن بم 81 دن کی سرتوڑ تلاش کے بعد 26سو فٹ نیچے زیرِ آب تلاش کر لیا گیا۔ 1968ء میں ایک اور بی 52 طیارہ گرین لینڈ پر سے گزرتے ہوئے گر کر برف میں گھس گیا۔ڈھانچہ تو مل گیا مگر ایک ایٹمی ہتھیار آج تک نہ ڈھونڈا جا سکا۔ 1968ء کے موسمِ بہار میں یہ انہونا واقعہ بھی ہوگیا کہ ریاست ورجینا کے نارفوک نیول بیس سے روانہ ہونے والی ایٹمی آبدوز یو ایس ایس اسکارپیئن جزائر ازورس سے200 میل پرے غائب ہوگئی۔اس آبدوز پر99 افراد پر مشتمل عملہ سوار تھا اور250 کلو ٹن طاقت کے 2ایٹمی ہتھیار بھی لدے ہوئے تھے۔ اپریل1979ء میں روسی ایٹمی آبدوز کومسومولیز آگ لگنے کے سبب بحیرہ شمالی میں ڈوب گئی۔
یہاں سمندر کی گہرائی تقریباً ساڑھے5ہزار فٹ تھی۔اس آبدوز پر 2 ایٹمی تارپیڈو بھی نصب تھے۔ڈھانچہ توڈھونڈھ لیا گیا مگر تارپیڈو کہیں دب دبا گئے۔ ایک سرکردہ امریکی تھنک ٹینک’’ کونسل آف فارن ریلشنز‘‘ کا اندازہ ہے کہ 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے اب تک روسی جوہری مواد کی اسمگلنگ یا فروخت کے300 سے زائد واقعات ریکارڈ پر آ چکے ہیں۔گو پکڑے جانے والے جوہری مٹیریل کی مقدار قلیل ہے لیکن اگر کسی دہشت گرد تنظیم کے پاس ایک خام جوہری بم بنانے کی صلاحیت بھی آ جائے تو سوچئے کیا کیا نہیں ہوسکتا۔ سرد جنگ کے زمانے میں جوہری ہتھیاروں کی گمشدگی یا تباہی کے جو واقعات ہوئے انہیں اسلئے انہونا نہیں سمجھنا چاہئیے کہ جب سوویت یونین اور امریکہ کے پاس مجموعی طور پر50 ہزار کے لگ بھگ جوہری ہتھیار تھے تو ان میں سے 40،50 کا اِدھر اُدھر ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن ان میں سے اگر کوئی ہتھیار حادثاتی طور پر چل جاتا تو کیا ہوتا۔ اس تناظر میں جب مغرب بالخصوص امریکہ پاکستان ، ہند اور شمالی کوریا جیسے ممالک میں جوہری ہتھیاروں کی سلامتی کے بارے میں اکثر فکرمندی ظاہر کرتا ہے تو کم ازکم میرے چہرے پر یہ سوچ کے مسکراہٹ پھیل جاتی ہے کہ اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔

شیئر: