لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ
یوم عرفہ حجاج کرام رسالت کی عظیم امانت کو اٹھانے کا عہد کرتے ہوئے میدان سے رخصت ہوں،جیسے صحابہ کرام امانت اٹھانے کا عہد کرکے رخصت ہوئے
* * * *
ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ
* * *
اگر یہ دنیا اور اس کے عقلاء اپنے پورے شعور اور عقل اور اپنی کمال فراست سے ہم سے یہ پوچھیں کہ ہمیں کوئی ایسا نظام بتائیں جو انسان کی اصلاح اور اس دنیا کی تعمیر کا کفیل ہو، جو انسانوں کو محکم وحدت میں پرو دے، جو انہیں امت واحدہ بنا کر ان کی سعادت و قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو، جو حضرت انسان کی سعادت دنیوی اور اخروی کی ضمانت دے اور وہ نظام انسانی زندگی کے لئے جامع اور کامل و مکمل ہو ، اس کا صرف ایک لفظ میں نام بتا دیں اور تعارف کرادیں تو ہم پورے وثوق سے ایک ہی لفظ بولیں گے اور وہ ہے’’ اسلام‘‘۔ صرف یہی وہ نظام ہے جو خالق نے حضرت انسان کی فطرت کے مطابق اور اس کی تمام حاجات دنیوی اور اخروی کی تکمیل کی خاطر تشکیل دیا اور اس کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کے ہاں نظام زندگی تو اسلام ہی ہے۔
پھر اس کو انتہائی طور پر جامع شامل، کامل اور مکمل فرمایا اور حج کے موقع پر حضرت خاتم النبیین پر میدان عرفات میں اس کے تعارف کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی کہ آج تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور نظام کے پسند کرلیا۔ اسلام کے ساتھ ہماری وفا یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے اسی امر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے دین کے بارے میں پختہ علم اور یقین رکھیں کہ واقعی اسلام اور صرف اسلام ہی کے اندر یہ قابلیت اور صلاحیت ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لئے ایک جامع اور شامل نظام ہے اور پوری انسانیت کے لئے اس کی سعادت ابدی دنیوی اخروی کا کفیل ہے۔ پھر غور کریں کہ اسی اسلام کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ اسلام کی بنا 5چیزوں پرر کھی گئی، پہلی چیز اللہ وحدہ لا شریک کی الوہیت کی گواہی اور جناب محمد رسول اللہ کی رسالت کی گواہی دینا۔ یہی شہادت حضرت انسان کے باطن کی تنویر اور تبصیر کے لئے کافی ہے کہ یہ گواہی دینے والا صرف اللہ تعالی کو لائق اطاعت اور عبادت کا اکیلا مستحق جان لے۔ اسے ہی اپنی تمام حاجات کو اکیلا پورا کرنے پر قادر ہونے کا یقین کرلے، جناب محمد رسول کے حسین طریقوں کو کامیاب ترین علمی اور عملی طریقے سمجھ لے۔
دوسرا امر جس پر اسلام کی بنا ہے ،وہ نماز ہے۔ نماز میں تدبر کر لیں کہ حضرت انسان کے لئے ہر دو اعتبار سے، ظاہری اور باطنی طہارت کا بندو بست کیا گیا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے لئے لباس اور جگہ کی طہارت کو شرط قرار دیا گیا ۔پھر اطراف عالم میں ہر ایک نمازی کو ایک ہی طرف توجہ کرنے کا حکم دیا گیا اور یوں شہادت اور نماز نے جملہ انسانوں کو ایک مومن امت بنا دیا جو ایک ہی جیسے ارکان کو ادا کرتے ہیں ۔یہ ارکان ایسے ہیں جن میں انسان کی صالحیت اور اسکے ظا ہر وباطن کی صفائی ہے ۔
جب انسان اذان میں بار بار اللہ اکبر سن کر نماز کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، پھر وہ اللہ کی ثنا اور حمد کرتا ہے۔ اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے۔ اسی سے مدد لینے اور اسی کی عبادت کر نے کا بار بار اقرار کرتا ہے ۔یہ تمام امور انسان کی باطنی صفائی کرتے ہیں ۔پھر نماز ہی میں یہ انسان جب اشرف المخلوقات ہوکر اپنے سر کو جھکاتا ہے، رکوع اور سجدے کی شکل میں، پھر دوزانو ہو کر اللہ کی تعریف کرتا ہے۔ یوں نمازی اللہ کی تکبیر سے داخل ہو کر تسلیم کے ساتھ نماز سے نکلتا ہے تو گویا نمازی اس عالم دنیا میں رہ کر اپنے رب کی تعلیمات کے استحکام کا اعادہ بار بار کرتا ہے ۔یوں یہ نماز انسان کو تقوی اور طہارت سکھاتی ہے۔ انسان اپنے بدن اور باطن کو اللہ کے سامنے جھکا دیتا ہے ۔رکوع ، سجود، تشہداور قیام تو بدن کا جھکنا ہے جبکہ خشوع اور خضوع باطن کا جھکنا ہے۔
پھر نماز کے بعد زکوٰۃ اسلام کا رکن ہے۔ انسان اس دنیا میں چونکہ مال اور متاع دنیا کا بھی مالک ہوتا ہے تو حضرت انسان کے لئے مال کے حصول اور اسکے صرف کرنے کے لئے بھی اللہ کی حدود کی پابندی کرنا، اسے مال کے معاملہ میں گندگی سے بچانا اور اسکی طہارت کرنا ہے۔ اسی لئے اسلام کے اس تیسرے رکن کو زکوٰۃ کہتے ہیں تاکہ انسان کا حصول مال اور صرف مال کا راستہ صاف ستھرا ہو۔ اللہ جل شانہ کی تو حید، رسول اللہ کی رسالت کی گواہی اور نماز کی اقامت پھر زکوۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اصلاح انسان کے لئے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں۔ روزے میں انسان کی اصلاح، انسان کی تطہیر پھر اس میں تمام طبقات میں مساوات اور امیر وغریب کے فرق کو مٹانے کیلئے اللہ تعالی نے سبھی مسلمانوں کو ایک ہی وقت صبح سے شام تک ایک ہی حالت میں رہنے کا حکم دیا ہے اور حلال چیزوں سے بھی منع فرمایا تاکہ انہیں اللہ کی اطاعت کی مشق ہواور حرام چیزوں سے بچنے کی عزیمت پیدا ہو، یہی تقوی ہے۔ ان4 امور کے ساتھ ساتھ جس پانچویں اور آخری چیز پر اسلام کی بنا ہے ،وہ حج ہے ۔ اللہ کے نبی نے فرمایا کہ اللہ کے گھر کا حج کرنا اگر تمھیں استطاعت ہو۔ آج کل ہم جن ایام سے گزر رہے ہیں وہ حج کے ایام ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالی کی حکمت دیکھیں کہ کس قدر افراد امت مسلمہ کو اکناف عالم سے ایک ہیئت میں ایک ہی جگہ جمع فرمایا ، سبھی ایک شکل وصورت میں ہیں ۔ سبھی کا ایک نعرہ ہے، لبیک اللہم لبیک ایک ہی شعار ہے کہ ’’ اے اللہ ہم حاضر ہیں ،ہم حاضر ہیں‘‘ سبھی اللہ تعالی کی عظمت بآواز بلند بیان کرتے ہوئے اپنی عاجزی اور بندگی کو بیان کرتے ہوئے ایک ہی گھر کا رخ کرتے ہیں۔ سبھی ایک ہی جیسے اعمال کرتے ہیں۔ اعمال حج میں کس طرح اللہ تعالی حضرت انسان کی اصلاح کا بندوبست فرماتا ہے ۔حج کی ادائیگی کے حکم دینے اور اسکی حکمتوں کے بیان میں قرآن کے اس اعلان میں تدبر کریں: تاکہ یہ لوگ اپنی مصلحتوں اور منافع کو پاسکیں ۔ آخر کن کن منافع سے حجاج اپنے دامن کو بھر کر لے جائیں ؟ اللہ کی وسیع وعریض کائنات اوراس عالم کی جہات اربعہ سے اہل ایمان، انسانی قلوب اور ابدان کو متوجہ فرمایا کہ لوگو تم اللہ کے گھر کا قصد کر کے آؤ۔ پھر اس گھر کی عظمت و محبت کو ان کے قلوب میں راسخ بھی فرمادیا کہ وہ شوق سے کھچے چلے آتے ہیں۔ حج کی خاطر جن تمام امور کو ترک کرنا ہے۔ اپنا گھر، اپنے اہل وعیال، اپنی قوم، قبیلہ، اپنی تجارت، اپنا وطن، سبھی کو ترک کرکے اس عالم میں کرئہ ارضی کے نقطئہ ارتکاز بلکہ نقطئہ آغاز کا سفر کرنا، وہ بھی سیاحت کی نیت سے نہیں عبادت کی نیت سے اور اس ایمان ویقین کے ساتھ کہ میری یہ حاضری فریضہ ربانی کی ادائیگی کے لئے ہے ۔یہ کوئی مستحب عمل یا نفل کام کے لئے نہیں ۔ پھر یہ صرف انہی مقررہ ایام میں ہوگا دیگر میں نہیں ۔اس کے لئے مخصوص اعمال ہیں،دیگر نہیں ۔
وہ اعمال مخصوص مقامات پر ادا کرنے ہیں ،دیگر پر نہیں ۔ نماز بدنی عبادت ہے، زکوۃ مالی عبادت ہے اور حج دونوں کامجموعہ ہے۔ نماز میں زینت اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اس میں اس کا بر عکس ہے۔ عموماً اللہ کی یاد میں پست آوازی کی ترغیب دی گئی ہے مگر حج میں خوب شور سے پکارنے اور ندائے حاضری لبیک اور تسبیح ، تکبیر، تہلیل کوبآواز بلند کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ہر عمل صالح بار بار اور مکرر، نماز شب و روز میں پنچ گانہ فریضہ ، روزہ اور زکوۃ سالانہ فریضہ مگر حج صرف پوری عمر میں ایک بار۔ جملہ اعمال اسلام میں جسمانی راحت کی خصوصی رعایت ۔ حج میں جسمانی مشقت کے بقدر ہی اجرو ثواب ہے اور ان جیسے دیگر امور اسلام کے اس رکن خامس کو امتیازی شان دلاتے ہیں۔ لہذا ہمیں منافع حج در مناسک حج میں خوب تدبر کرنا چاہئے تاکہ ضیوف الرحمن ،رحمن کی طرف سے ملنے والے منافع کو حاصل کر کے بندگان رحمن اور صالح انسان بن کرحرمین شریفین سے واپس ہوںلہذا حجاج کرام یاد رکھیںکہ آپ کو حج میں اللہ کے شعائر کی تعظیم کو دلوں میں بٹھانا ہے۔
اللہ کا گھر شعائر اللہ میں سے عظیم الشان شعیرہ ہے۔ اسی کا طواف کرتے ہیں ۔ اس گھر کے بارے میں ارشاد ہے :یہ اولین گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ اسی گھر کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے: یہ لوگوں کے لئے ذریعہ ہدایت ہے، اس میں اللہ تعالی کی کھلی نشانیاں ہیں ۔ یہیں مقام ابراہیم ہے ۔ یہیں پر صفا مروہ ہے، جسکے بارے میں قرآن کریم کہتاہے:یقینا صفا مروہ اللہ کے شعائر ہیں۔ انہی کی حجاج سعی کرتے ہیں ۔ان کے مابین دوڑتے ہیں ۔ اللہ کے شعائر کی حرمت کا علم ، ان کی عظمت کا شعور حج کے عظیم منافع ہیں، بیت اللہ جو مسجد الحرام کے وسط میں ہے اور مسجد الحرام جسکے ماحول میں میلوں تک حدود وحرم ہیں ۔ یہ وہ حدود ہیں جس میں انسان تو انسان کسی حلال جانور کا شکار بھی جرم ہے۔ شکار میں تعاون بھی جرم ہے ۔ پھر جس زمانے میں حجاج کو یہاں آنا ہے ۔ وہ بھی حرمت والے مہینے ۔ ان تمام حرمتوں کا علم اور تمام حرمتوں کا شعور اور اسکا استحضار حج کے اہم ترین منافع ہیں ۔ مسجد الحرام سے کچھ دور مشاعر مقدسہ بھی اللہ کے شعائر ہیں ۔
وہ منی ہو، مزدلفہ ہویاعرفات۔ سبھی کے ساتھ تمہاری عظیم یادیں وابستہ ہیں ۔ان امور کا شعور یقینا حج کے منافع ہیں جو اس عظیم فریضہ ربانی اور اسلام کے رکن خامس کے ساتھ حضرت انسان کی اصلاح کا مربوط پروگرام ہے ۔ ان سطور میں ہم نے مناسک حج کی بات ہی نہیں کی۔ اب ذرا ان پر بھی غور کر لیں۔ اپنے حلال مال، قیمتی وقت، عزیز ترین اہل وعیال، پیارے گھر اور وطن سبھی کا ترک کرنا ہی تو حج ہے ۔ پھر زیب زینت کے لباس کو بہت دور سے ترک کردینا اور صرف احرام کی دو چادریں پہن لینا ۔ اپنی خالص نیت کے ساتھ اللہ کے لئے دورکعت ادا کرنا ۔ اس کے لبیک کا ترانہ اختیار کرکے آپ اعمال حج یا مناسک حج میں داخل ہوگئے ۔ دوسروںکے ساتھ حسن سلوک اپنے آپ کو مشقت میں آگے رکھنا، دوسروں کی راحت کا خیال رکھنا، اسی ادب کا نام احرام ہے ۔ محرم کا ہمہ وقت ترانہ لبیک اسے عافل نہیں رہنے دیتا ، ہر پستی اور بلندی میں ذات اکبر کی کبریائی ، اسکی معیت ،اسکے ساتھ کو یاد رکھنے کانام تلبیہ ہے ۔اسکی تسبیح، اسکی تقدیس، اسکی تکبیر اور اسکی تہلیل یہ حاجی کا شعار ہے ۔ آج احرام تو پہن لیا مگر حرام بولنا، حرام عمل، حرام معاملہ، حرام سلوک اور حرام قول وفعل، اس سے قصد کر کے بچنا یہ احرام کی منفعت ہے ۔ ہمیں اپنے آپ کو اس کا عادی بنانا ہے، اسی حالت میں ہمہ وقت بیدار رہنا ہے۔ محرم کا سونا جاگنا ، کھانا پینا ،آرام کرنا، مشقت اٹھانا سبھی اسکی ظاہری وباطنی طہارت کا سبب ہے ۔ اسی حال میں اسی کیفیت میں حرم محترم میں حاجی داخل ہو ۔
حرم محترم میں اولین نگاہ بیت اللہ پر پڑتی ہے تو ساری زندگی کا گوشوارہ اسکی نگاہ کے سامنے ہے جس کی ندامت کی خاطر ہی وہ معافی کا خواست گار ہے اور اپنے رب سے اسکے گھر میں حاضر ہوکر اسکے گھر کے گرد اسکی عظمت اور اپنی بندگی کے شعور کے ساتھ چکر لگانا، یہ اسکا طواف ہے ،احرام کے بعد طواف بیت اللہ کرتے ہوئے مقام ابراہیم کے پاس سے اسکے بانی کے نقش پا کو ان کے اخلاص کی یادگار سمجھے ۔ اسی بانی نے اس بے آب گیاہ وادی میں اس گھر کے مالک کے سامنے اپنے دودھ پیتے بچے اور اسکی ماں کو اللہ کے رضا کی خاطر چھوڑاتھا تو مخلص باپ کے کمسن بیٹے کے پائوں کی رگڑ سے یہیں پر چشمئہ زم زم پھوٹا جو آج تک پوری قوت کے ساتھ جاری وساری ہے اورانسانیت کی روحانی اور بدنی پیاس کو بجھارہا ہے ۔ پھر طواف کے بعد حاجی صفا مروہ کا رخ کرتے ہیں تو اپنے مناسک کا تیسرا عمل ’’سعی‘‘ کرکے یہ انہیں اس عظیم عورت کی یاد دلاتا ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا تھا : اے ابراہیم تو ہمیں یہاں بے آب وگیاہ وادی میں اللہ کے حکم کی تعمیل میں چھوڑ رہا ہے۔ ابراہیم نے اشارہ کرکے فرمایا: ہاں، تو اس عظیم مؤمنہ نے فرمایا: تب وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا حاجی اللہ کی ذات گرامی پر اسی اعتماد کی دولت کو اپنا قیمتی سرمایہ بنائے اور سعی کے ہر چکر میں ابراہیم، اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی اس عظیم قربانی کے جذبہ سے اپنے قلب کو معمور کرے ۔ یہی مناسک کی عظیم منفعت ہے۔ اب یہ تیسرا عمل ’’سعی‘‘ کاادا کرلے تو سمجھ لے کہ اسکے رب نے اسکی طہارت فرمادی ۔
یہ بھی اپنے بال اترواکر اپنے مناسک سے نکل جاتا ہے ۔ 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے اپنی عارضی رہائش گاہ یا آرام دہ گھر بھی چھوڑ کر احرام کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکل جائے اور منی کا رخ کرے۔ شہر سے باہر خیمہ بستی میں قیام دنیاوی آرائشوں سے دوبارہ دور ہوکر منی میں بار بار لبیک ، بآواز بلند تسبیح وتکبیر اور تہلیل۔ شب وروز کی پنجگانہ نماز یں خوب خشوع وخضوع سے ادا کرنے کے بعد اس خیمہ بستی کو بھی خیر آباد کہہ کر میدان عرفات میں برائے معرفت محبوب حق پہنچ جائے اور یہی اس کے حج کا رکن اعظم ہے۔ نبی کریم نے فرمایا ’’حج عرفات ہی کا نام ہے‘‘ یہاں پر زیادہ فرضی نمازیں بھی نہیں، صرف ظہر اور عصر ،وہ بھی اول کے وقت میں ۔ گویا حاجی اپنی معمول کی عبادت سے بھی فارغ ہوچکا۔اب کسے پانا ہے ؟ وہ عظیم ذات جس کی خاطر اس نے سب کچھ چھوڑا، آج صرف اسی کا حصول اس کا مقصود ہے ۔غور کریں کہ بقول مربی اعظم رسول اکرم ’’حج عرفہ کا نام ہے ‘‘۔ سب سے فارغ ہوکر اپنے محبوب حقیقی کی معرفت کا نام ہی حج ہے ۔ یہاں پر وہ رنگ ونسل ، زبان، وطن، انسانی طبقات کے جملہ امتیازات کے جملہ حجابات کی ظلمتوں سے نکل کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر حاجی اس کیفیت میں ہے کہ گویا وہ آج بھی سیدالخلق نبی خاتم کے اس عظیم خطاب کوسن رہا ہے:’’ لوگو! تم سب آدم کی اولاد ہو، آدم کی خلقت مٹی سے ہوئی، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ، عربی، عجمی، کالے، گورے کے تمام فروق مٹ چکے ،جاہلیت کی ہر رسم کو میں نے اپنے قدموں سے مٹا دیا،آج کے بعد سودی کاروبار،دیگر کے حقوق ان کے مال اور جان اسی طرح قابل حرمت و احترام ہیں جیسے آج کایہ دن ، یہ مہینہ اور یہ شہر قابل حرمت اور احترام ہیں‘‘ پھر حجاج کرام نبی خاتم کی پوری رسالت کی عظیم امانت کو اٹھانے کا عہد کرتے ہوئے اسی میدان سے رخصت ہوں۔ جیسے رسول اللہ کے رفقاء دین کی امانت کو اٹھانے کا عہد کرکے رخصت ہوئے ۔یہ وہ حاجی ہے جوآج پیدا ہوا۔
یہ بچہ حاجی ہے ،صاف ستھرا حاجی ہے ، نیا انسان ہے جو نئی عزیمت لیکر عرفات سے مزدلفہ کا رخ کر رہا ہے ۔ جہاں پر وہ رات اپنے رب کے کھلے آسمان تلے اپنے رب کی زمین پر اپنے نفس امارہ کو مار کر اپنے محبوب اعظم کو پانے کی خاطر پوری رات پڑا رہتا ہے۔ جسمانی اور بدنی گندگی ساتھ یہ صبح کرتا ہے تو ہر الائش سے پاک صاف تقوی کے نور سے منور ، شیطان سے مکمل طور پر برأت کے اظہار کے لئے سبھی کے سامنے جمرات کی رمی کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ پھر اپنے نفس کی پاکیزگی کی خاطر ہی ایک زندہ نفس کی قربانی کر کے حاجی باطن کے اعتبار سے بتمام صاف ستھر ہوجاتاہے ۔ پھر اپنے ظاہر کو صاف کرکے صاف ستھرا لباس پہن کر اپنے رب کے گھر کا طواف کرتا ہے ۔ یوں احرام کے ساتھ ، منی، عرفات، مزدلفہ کی حاضری اور جمرات کی رمی اور قربانی کے مناسک نے بندئہ مؤمن کو ایسا حاجی بناکر واپس لوٹایا کہ رحمان کا مہمان اب پورے عالم میں جہاں جائے گا ،وہ رحمن کا سفیربن کر واپس لوٹے گا۔ یہی حج کے وہ عظیم منافع ہیں جنکے حصول کی خاطر رحمن نے عبادالرحمن کو ضیوف الرحمن بنایا اور اس عظیم منصب اور مقام عالی پر فائز فرماکر ان کا اکرام فرمایا ۔ یہ بندہ اسی دنیا میں ہادی و مہدی بن کر واپس ہوا۔ یہی حج مبرور ہے جسکی جزا رحمن کی جنت ہے۔دعا ہے کہ باری تعالی اپنے فضل کرم سے حج کے مناسک کے اہتمام اور منافع حج کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنے گھر سے رخصت فرمائیں اور تمام حجاج کا حج ، حج مبرور ہو۔