Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”نخوتِ شاعرانہ، تکبر ناثرانہ، غرورِ ادیبانہ،تجاہلِ کاتبانہ “

 
”آمر“ شاعر چاہتے ہیں کہ شعرجیسا چاہے دے ماروں، ”واہ واہ“ ہونی چاہئے
 
ابوغانیہ۔جدہ
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ دورِ حاضر کا کوئی انساں عیب سے مبرا نہیں۔ شعرا، ادبا، نثار اور کاتب و ناشر ، سب ہی انسان ہیں چنانچہ ان میں بھی کوئی نہ کوئی سقم ضرور ہوتا ہے۔ بعض عیوب ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی ذات تک ہی محدود ہوتے ہیں مگر بعض وہ ہیں جن سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ دنیائے اردو ادب کے آسمان پر ان گنت درخشاں ستارے ہیں جن سے نوآموز نہ صرف راستے کا تعین کرتے ہیں بلکہ انکی جوتیاں سیدھی کر کے اپنی شاعری سنوارتے ہیںاور اگر وہ بقیدِ حیات نہ ہوں بلکہ فوت ہو چکے ہوں تو اُن کا کلام پڑھ پڑھ کر اپنے اوپر وہی ”متوفیانہ“ کیفیت طاری کر کے پھر شعرلکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا کو بتلاتے ہیں کہ میں تو ”جنابِ فلاں متوفی“ کا شاگرد ہوں۔ اسی آسمانِ ادب پر بعض ایسے دُمدار ستارے بھی ہیں جن میں”نخوتِ شاعرانہ، تکبر ناثرانہ، غرورِ ادیبانہ اور تجاہلِ کاتبانہ “کے باعث دہکتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک قسم کے سخن گستر وہ ہوتے ہیں جو بلحاظِ اوزان ڈھلمل ہونے کے باوجودخود کو شاعر سمجھنے اور سمجھانے کی تگ و دو میں مگن رہتے ہیں۔ جو لوگ اُن کے کلام میں سقم نکالتے ہیں، ان سے وہ علیک سلیک بھی منقطع کر لیتے ہیں اور انہیں ”جاہل“ شمار کرنے لگتے ہیں۔
بعض شاعر وہ ہوتے ہیں جو ایک آدھ اچھی غزل کہہ بیٹھیں تو خود کو آسمانِ ادب کا آفتاب سمجھنے لگتے ہیں۔ان کی نخوت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ مشاعروں میں اپنا کلام پڑھتے ہوئے سامعین کی باگیں تھامنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اگر سامعین انہیں ہاتھ نہ دھرنے دیں تو وہ ناراضی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر میرا کلام ”تمیز “ سے نہ سنا اور” واہ واہ“ کی بجائے” ہاوہو “کی صدائیں بلند کیں تو میں مشاعرہ چھوڑ کر چلا جاوں گا۔ایسے شاعر طینت، فطرت، عادت اور علت کے اعتبار سے آمر یعنی ڈکٹیٹر ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں جیسا چاہے شعر دے ماروں، سامعین کی جانب سے ”واہ واہ“ کے ڈونگرے آنے چاہئیں۔وہ اپنی دانست میں شعر کہتے نہیں بلکہ ”شعر فرماتے“ ہیں۔اپنے اشعار پر واہ واہ کہنے والےوں کو وہ صاحبانِ ذوق اور اعتراض کرنے والوں کو جہلا میں شمار کرتے ہیں۔
ایک ایسے ہی ”نخوتِ آمرانہ “کا شکار شاعر نجی محفلِ مشاعرہ میں شعر پڑھ رہے تھے۔ مائیک پر مسلط ہونے سے پہلے گویا ہوئے کہ تمام سامعین اپنے موبائل فون بند کر دیںکیونکہ کلام سنانے کے دوران مجھے کسی قسم کی مداخلت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میں سامعین کی ہمہ تن گوشی اور انہماک چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے ”غیر مترنم“ انداز میںکلام برسانا شروع کیا۔ ”خوش قسمتی“ سے اس دوران کسی صاحب کے موبائل سے انتہائی مترنم صدا بلند ہوئی۔ ساعتوں کی ترتیب انتہائی حسنِ اتفاق سے کچھ اس طرح ہوئی کہ” شاعرِ معیوب“ نے ابھی اپنے شعر کاپہلا مصرع ہی کہا تھا کہ موبائل کی ٹون بجنے لگی۔ یوں شاعر کے شعر کا دوسرا مصرع موبائل کی صدا نے پورا کیا۔ اس طرح جو شعر وجود میں آیا اس میں مصرع اولیٰ” انسانی“ تھا اور مصرع ثانی ”غیر انسانی“۔ ان دونوں کے سنگم سے نمودار ہونے والا شعر ملاحظہ ہو:
”عالی ہے کلام میرا، شاعروں کے شعر ردّی
وائے دِس کولا ویری، کولاویری، کولاویری ڈی“
اس صورتحال کو شاعر نے اتفاق نہیں بلکہ ”ادب کے خلاف سازش“ گردانا اور مشاعرہ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے مشاعرے کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعر کو روکنے کی ہزار کوشش کی اور سمجھایا کہ” اکثر لوگ تو مسجد میں داخل ہونے سے قبل بھی موبائل بند کرنا بھول جاتے ہیں۔یہ تو پھر مشاعرہ تھا“ مگر وہ شاعرنہ مانے اور مرغے کی ایک ٹانگ لئے رفوچکر ہوگئے۔ مشاعرے کے سامعین نے اُن کے چلے جانے پر ”روحانی مسرت“ کا اظہار کیا۔
بعض شعراءیہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے کلام کا ثانی اس روئے زمین پر موجود ہی نہیں۔ انہیں اگر غالب و اقبال کی مثالیں دی جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ میاں!اُس دور میں ہم نہیں تھے ورنہ آج درسی کتب میں ان شعراءمیں سے کسی ایک کی جگہ ہمارا نام ہوتا۔
اب غالب کو دیکھ لیجئے۔ انہوں نے غزل کہی کہ :
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
یہاں انہوں نے لفظ ”یار“ کا استعمال انتہائی بھونڈے انداز میں کیا ہے۔ اگر ہم اُن کی جگہ ہوتے تو ”یار“ کو کس انداز میں قالبِ شعری میں ڈھالتے، ملاحظہ فرمائیے:
تومرا اگر نہ ہوتا، کوئی اور پیار ہوتا
جو ہوا ہے تیرا دشمن، وہی میرا یار ہوتا
اسی طرح بعض ادیب و ناثر بھی ادیبانہ و ناثرانہ غرور و تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں۔کوئی ادیب اگر ایک آدھ کتاب لکھ یا لکھوا ڈالے تو وہ خود کو ”کتاب دار“ کہلوانے کے شوقین ہوجاتے ہیں۔کسی بھی بزم میں جب ان کا تعارف کرایا جاتا ہے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا جائے کہ وہ ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں اور دوسری کتاب تصنیفی وطباعتی مراحل طے کر رہی ہے۔اسی طرح بعض ناثر حضرات ایسے ہوتے ہیں جوکسی ششماہی، سہ ماہی ، ماہانہ، پندرھواڑے، ہفت روزہ یا روزنامہ میں ایک آدھ کالم وغیرہ لکھ کر خود کو غیر زمینی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ کسی بھی بزم میں گفتگو کر رہے ہوں تو ان کی زبان پر ”تکیہ کلام کی حد تک“ یہ جملہ بار بار آتا ہے کہ ”جی جی! آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں۔ میں نے اپنے کالم میں بھی یہی بات لکھی تھی۔ “ یا یہ کہ ”ارے! اب میں آپ کو اس کا جواب کیا دوں! آپ فلاں اخبار میں فلاں تاریخ کو شائع شدہ میرا کالم پڑھ لیجئے، تمام جوابات مل جائیں گے۔“
خود کو لاثانی ناثر و ادیب سمجھنے والی مخلوق بھی خوب ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اگر کسی بزم میں براجمان ہوں تو لوگوں پر اپنی ادیبانہ برتری کی دھاک بٹھانے کے لئے خاموش بیٹھے رہتے ہیں ۔ اس خموشی میں وہ شرکائے محفل کی باتوں پر کان لگائے رہتے ہیں اوروقفے وقفے سے منہ بناتے، بھوں چڑھاتے اور بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو اس امر کا بخوبی ادراک ہوجاتا ہے کہ جنابِ ادیب صاحب کو ہمارے الفاظ، تلفظ،جملوں کی ترتیب، جملوں میںفعل، فاعل اور مفعول کے استعمال کا موقع محل کھٹک رہا ہے اورانہی لفظوں کی چبھن کے باعث ان کے تیور وں سے کڑے اور کسیلے پن کا اظہار ہو رہا ہے۔
ایسے ہی ایک ادیبانہ تکبر کا شکار ایک صاحب کی محفل میں جا گھسنے کا موقع ہمیں بھی مل گیا۔ لوگ کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ انہیں خاموش دیکھ کر ہم نے کہا کہ جناب! آپ بھی اظہار خیال فرمائیے۔ وہ گویا ہوئے کہ” اس ”چوں چاں“ میں میرا بھلا کیا کام؟“ ہم نے اُن سے اُن کے ہی معیار کا سوال پوچھ لیا کہ جناب آج کل کے ٹی وی چینلز پر جو اردو بولی جا رہی ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد یوں لب کشائی کی کہ:
”صدشکر کہ غالب و اقبال دورحاضر میں مصروفِ تنفس نہیںورنہ اُذن ہائے ایں شعراءکی، مرواریدِ ریختہ کا شیرازہ بکھرنے کی صوتیات سے یوں جراحت ہوتی کہ وہ تاحیات سماعت سے محروم ہوجانے کواپنی اولین ترجیحات میں شمار کرنے لگتے۔“
موصوف کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی مگر سب نے اپنی عزت اور مہمان ادیب کا دل رکھنے کے لئے کہہ ڈالا کہ واہ واہ، کیا خوب فرمایا اور بالکل بجا فرمایا۔محفل برخاست ہونے کے بعد جب تمام مہمانان رخصت ہوگئے تو ہم نے صاحبِ خانہ سے دریافت کیا کہ جناب! آپ تو ادیب ہیں،اُس مہمان ادیب نے جو بات کہی تھی اس کا سلیس اردو میں ترجمہ بیان فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ”ارے میاں! وہ نجانے کس تکبر کا شکار ہیں۔خود کواردوئے معلی کا اکلوتا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا در اصل یہ تھا کہ”اس دور میں اگر غالب و اقبال زندہ ہوتے تو ٹی وی چینلز پر بولی جانیوالی اردو سن کر انہیں اردو کا شیرازہ بکھرنے کی آواز کانوں میں ٹکراتی محسوس ہوتی اوروہ یہ آواز سننے کی بجائے ساری زندگی کے لئے بہرہ ہو جانا بہتر سمجھتے۔“
ہم نے ان تمام واقعات و حقائق و تماثیل سننے، دیکھنے اور پڑھنے کے بعد شکر ادا کیا کہ ہم نہ شاعر ہیں، نہ ناثر ہیں، نہ ادیب ہیں اور نہ ہی کاتب کہ جن کی غلطی سے” محبوب“ کا ”م“ غائب ہو جانے سے ”حبوب“شائع ہو گیا۔جملہ یوں تھا کہ” وہ تو صبح و شام محبوب کے انتظار میں رہتا ہے“ مگر ”م“ غائب ہو کر جملہ یوں ہو گیا”وہ تو صبح و شام حبوب کے انتظار میں رہتا ہے۔“ اب سوچئے کہ کہاں محبوب کہ جس سے محبت کی جائے اور کہاں ”حبوب“ یعنی دوا کی گولیاں؟

شیئر: