مبارک لمحات اوربابرکت ایام میں امت مسلمہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے حرم کے آغوش اورکعبۃ اللہ کے جلو میں ہوتے ہیں
***مولانانثار احمد حصیرقاسمی۔حیدرآباد دکن***
خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا اوراسے زمین میں اپنا خلیفہ اورنائب بناکر مامور کیاہے کہ وہ اس زمین میں محنت وکدو کاوش کرے اوراس کی تعمیر کی کوشش کرے، اس کاتقاضاہے کہ انسان وقت کی قدر کرے، اسے قیمتی جانے اوران اوقات سے استفادہ کرے، تاکہ اس کی عمر ضائع نہ ہو۔قرآن کریم میں بہت سی آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے زمانے اوراس کی گردشِ ایام سے جڑی ہوئی چیزوں کی قسم کھائی ہے۔جب بھی صبح کی سفیدی چھاتی اوراس کا اجالا کرۂ ارضی کو منور وروشن کرتاہے، حق تعالیٰ سبحانہ کے حکم سے یہ صبح اوریہ وقت پکارتا اورگویا کہتاہے کہ اے اولاد آدم !میں ایک مخلوق ہوں،میں تیرے عمل اورتیری نقل وحرکت کی گواہ ہوں، تُو اپنے آپ کو عمل صالح کے ذریعہ مجھ سے آراستہ کر، مجھ سے استفادہ کر، کیونکہ میں آج کے بعد قیامت تک پھر کبھی لوٹ کر آنے والی نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے وقت کی اہمیت اورقدر وقیمت کو مختلف اسلوب وانداز میں اجاگر کیا اوران اوقات کے اجزاء کو غنیمت جاننے کی طرف اشارہ کیا اوربتایاہے کہ انسانی زندگی میں یہ نہایت مقدس ومحترم شئی ہے جس پر ہر انسان کو سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہئے تاکہ اس کا ادنیٰ سا جزء بھی ضائع نہ ہوسکے، اوربے مقصد باتوں اوراعمال میں برباد نہ ہو۔ اللہ کی نبی نے فرمایاہے: ’’اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضولیات کو ترک کردے۔‘‘(بخاری)۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے مقامات پر جہاں کائنات اوراس کے اندر کی چیزوں کی حقیقتوں کو واضح کرنے کا ارادہ فرمایا اوران حقائق کو انسانوں کے سامنے آشکارہ کرتے ہوئے اس پر توجہ دینے کی ترغیب دینا چاہا، ان سارے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بات کی شروعات وقت اورزمانے کی قسم کھاکر کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی عمریں متعین ومحدود ہیں اورموت کا وقت مقررہے، اس میں کوئی تخلف نہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: اذا جاء اجلہم فلایستاخرون ساعۃ ولایستعدون۔ ’’جب انکا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں۔‘‘(یونس49)۔
’’ان اجل اللہ اذا جاء یؤخر‘‘ ’’یقینا اللہ کا وعدہ جب آجاتا ہے تو موخر نہیں ہوتا۔‘‘(نوح4)۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت اوراسے غنیمت جاننے پر توجہ دینے کے لئے ارشاد فرمایا: ’’قسم ہے فجرکی اور10 راتوں کی۔‘‘(الفجر2,1)۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر کچھ عبادتیں فرض کی ہیں جس کا مقصد ہمیں پاک کرنا، نکھارنا اورتروتازگی عطا کرنا ہے، تاکہ اس پاکی ونکھار کے ذریعہ ہم دونوں جہاں میں سعادت وخوش بختی حاصل کریں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان چیزوں کی طرف رخ کرنے اورتوجہ دینے کے لئے کہاہے جو کہ زیادہ اہم، پائیدار باقی رہنے والی، زیادہ مفید اورنفع بخش ہو، جس کی ذخیرہ اندوزی ہمیں دائمی زندگی میں فائدہ پہچاسکے اوراسے واقعی ذخیروسرمایہ سے تعبیر کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ہمیں بتادیاہے کہ یہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے، نفع نقصان کا معیار اخروی نفع ونقصان ہے، دینوی نہیںبلکہ اخروی دائمی نفع تو عموماً دنیوی عارضی نقصان کے ساتھ ہی ہوتاہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس نفع ونقصان کو ترجیح دیتے ہیں۔چونکہ انسان کا سب سے بڑا مقصود تقویٰ وپرہیز گاری ہے اس لئے اس بلندمقصد تک رسائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر طریقے بتائے ہیں جس کے ذریعہ اس مقصد تک پہنچاجاسکتاہے۔ حجاج کرام مناسک حج کی ادائیگی کے ساتھ بہت سی عبادتوں سے مستفید ہوسکتے اوراپنے اوقات کو کام میں لاسکتے ہیں۔ان مبارک لمحات اوربابرکت ایام میں امت مسلمہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے حرم مقدس کے آغوش اورکعبۃ اللہ کے جلو میں ہوتے ہیں۔ وہ رحمتوں کے دروازوں کو کھٹکھٹاتے اوربڑے خلوص وتڑپ کے ساتھ اللہ سے ملتجی ہوتے ہیں۔ انہیں توبہ واستغفار اورگناہوں سے معافی کی طلب میں ان لمحات کو غنیمت جانناچاہئے۔اس مبارک سفر پر آنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے وقت کو کام میںلینے کی تیاری کریں، اپنی قوت وطاقت کو یکجا کریںاوربیت اللہ کے سائے میں اپنے اندرعزم راسخ پیدا کریں کہ وہ اس مقدس سرزمین کو چھوڑنے سے پہلے اپنے رب کو راضی وخوش کرلیں گے، اپنے گناہ بخشوالیں گے اورتوبہ واستغفار، طواف وزیارت اورصدقہ وخیرات جیسی طاعتوں وعبادتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلیں گے۔ ذی الحجہ کے ابتدائی10 ایام ولیالی بڑے عظمت والے ہیں۔ اس کے اندر نیکیوں کا ثواب بڑھادیاجاتاہے، عاملین کو اجرتیں بھرپور وبے حدوحساب دیئے جاتے ہیں، رب سماء وارض کی بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ہر مسلمان خاص طور پر حاجیوں کو اسے پانے وحاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان پہلے سے اس کی تیاری کرے، جیساکہ ہم دنیوی امور میں بہت پہلے سے تیاری کرتے ہیں۔ خود سفر حج پر آنے سے پہلے کافی عرصہ قبل سے سامانِ سفر کا انتظام کرتے اوراس کے ضرورت کی ساری چیزیں مہیاکرتے ہیں تاکہ دوران سفر ہمیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس طرح ہمیںان ایام اور ان مبارک گھڑیوں سے استفادہ کی تیاری کرنی چاہئے تاکہ ناقدری وطاعت کے بغیر اس کے گزر جانے کے بعد ہمیں کف افسوس نہ ملناپڑے اورہم رحمتوں برکتوں اورعنایتوں سے محروم نہ رہ جائیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی نیت درست کرلینی چاہئے، کہ عمل کا دارومدار نیت پرہے۔ اگر ہمارا یہ سفر خالص اللہ اوراس کی رضا کے لئے ہے تو مبارک ومسعودہے، ورنہ یہ سفر بے فیض اورہوسکتاہے کہ نعمت کی بجائے نقمت(لعنت) کا سبب بن جائے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخروہ کیا چیز ہے جس نے ہمارے اندر سفر کی مشقتوں کو برداشت کرنے اورایک عظیم عبادت کے لئے رخت سفر باندھنے کی تحریک پیدا کی اورہم نے خوشی خوشی اس پر لاکھوں روپے خرچ کئے،طویل مسافت طے کئے، مشقتوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اورمزید مشقتوں کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔
یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہوا، اس کی طاعت وبندگی کے پیش نظر ہواہے۔اگر ہمارے دل میں تعلق مع اللہ نہ ہوتا، اس کی رضا جوئی مقصود نہ ہوتی اوراس کی رحمتوں کی لالچ نہ ہوتی تو کیا ہم اس جان جوکھم والے سفر اورمشقت بھرے اعمال کے لئے اتنی خطیر رقم صرف کرکے یہ سفرکرتے؟ نہیں، اس سب کے باوجود اگر ہماری نیت خالص لوجہ اللہ نہ رہی، اورہم نے اس کے اوقات کو کھانے پینے، سونے گھومنے اوربازاروں کی سیرو سیاحت کرنے اورخرید وفروخت اوردینوی لذات کو پانے اوراس کے اسباب جمع کرنے میں ضائع کردیا تو اس کے سوا ہمیں کچھ نہ ملے گا کہ ہم نے اپنے آپ کو تھکایا، اپنا مال برباد کیا، اوراجر وثواب کو ضائع کیا اورہوسکتاہے کہ ہماری واپسی اجر وثواب لیکر نہیں بلکہ گناہ ومعصیت کے ساتھ ہو، ہم رضائے الٰہی پانے کے بجائے اس کی ناراضگی مول لیں، قلبی میلان کو درست کرنے، خواہشاتِ نفسانی سے اسے پاک وصاف کرنے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والے اجر وثواب کی تڑپ پیدا کرنے، اپنے اعمال کو عنداللہ مقبول بنانے اورقیامت کے دن جبکہ اسے نہ مال ودولت کام آئیگا اورنہ بال بچے، بھرپور بدلہ حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ یقین رکھے کہ اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہے، اس لئے ان ایام میں مسلمانوں بالخصوص حاجیوں کو چاہئے کہ وہ اسے غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادتوں اورطاعتوں میں صرف کریں، جتنا زیادہ ہوسکے نیکی اورخیرکا کام کریں۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ عمل صالح اچھے اوربا رآور درخت کی طرح ہے جسے سینچائی، دیکھ بھال اورپوری طرح اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے،تاکہ وہ بہتر انداز میں بڑھے، برگ وبار آئیں، پھر تناور درخت بنکر ہمیں اپنے پھل سے مستفید کرے۔
نیکیوں اوراعمال صالحہ کی قبولیت کی علامت اہل علم نے یہ بتائی ہے کہ اس کے بعداسے مزید اعمال صالحہ اورنیک کام کرنے کی توفیق ہو۔یہ اللہ کا اپنے بندوں پر بڑا فضل وکرم ہے کہ بندہ جب پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ کوئی نیک کام کرتاہے تو اس کے بعد اسے دوسرے نیک کام کرنے کی توفیق دیتا اور اس کے لئے اعمال صالحہ کے دروازے کھول دیتاہے تاکہ بندہ اوربھی زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتاجائے، حاجیوں کو چاہئے کہ وہ اس سفر پر آنے سے پہلے جو اعمال صالحہ کررہے تھے، اس کی پابندی کریںاوراس میں تھوڑا تھوڑا اوربھی اضافہ کرتے جائیں، اس میں استقامت ودوام پیدا کریں، اللہ نبی نے ارشاد فرمایاہے: ’’ اللہ اوراللہ کے رسول کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جس کی پابندی ومداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔‘‘ اللہ کے فرمانبردار بندوں کو چاہئے کہ وہ ان ایام میں عبادات وطاعات اوراعمال صالحہ کے لئے کمر کس لیں۔ ان مبارک ومسعود دنوں کو غنیمت جانیں اوراتنی عبادت وبندگی کریں کہ یہ اُس دن خوشی ومسرت اورشادمانی کا سبب بن جائے جس دن دل اورنگاہیں پتھرا جائیں گی۔ہمیں چاہئے کہ ہم اِسی وقت یہ عہد کرلیں کہ ہم اس موقع کو بندگی کا موسم، طاعت وعبادت کاموسم اورگناہوں کے کفارہ کا موسم بنائیں گے۔ اپنے اوقات کو فضولیات سے بچاکر اپنے مقصداصلی میں صرف کریں گے۔ ہماری زبان کو ان لمحات میں ذکر واذکار، دعاواستغفار اورتلاوت قرآن سے ترہونا چاہئے۔
ہمارا دل خشیت الٰہی سے لبریز رہنا چاہئے، ہماری نگاہوں میں روز محشر کی ہولناکی رہنی چاہئے جبکہ لوگ رب العالمین کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے کھڑے ہوں گے۔اگرہمارے اندر خلوص نیت اوراخلاص وللہیت ہوگا، ہمارا عمل خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے ہوگا تو ہمارا دنیوی عمل بھی عبادت کا درجہ حاصل کرلے گااوراگر ہماری نیت بری اوردنیوی اغراض سے آلودہ رہی تو ہماری خالص عبادت بھی معصیت میں تبدیل ہوجائے گی، اس کے بعد ہزار تھکنے اورمشقت برداشت کرنے کے باوجود ہمیں ناکامی ہی ہاتھ آئے گی، ہم گھاٹے کا ہی سودا کرنے والے ہوںگے۔بسااوقات خالص لذت کی چیزیں جس کی خواہشاتِ نفسانی طالب ہوتی ہیں اس میں نیت درست اورنیک ہو اورپیش نظر ایک عظیم مقصد ہوتو یہی خواہشات قربتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اسی کی کوشش کرنی چاہئے، اور عبادتوں کو معصیت میں تبدیل کرنے والی سرگرمیوں سے بچنے کی سعی کرنی چاہئے، اوراپنے ساتھ نیکیوں اورقرب الٰہی کا تحفہ ساتھ لیکر لوٹناچاہئے۔