گزشتہ 70 سال سے ہند، افغانستان میں کر دار ادا کر رہا ہے اور کردار ادا کرنے کے جتن بھی کرتا ہے مگر اس کو نتیجہ ہمیشہ صفر ہی ملتا ہے
* * * سید شکیل احمد* * *
امریکہ کی نئی افغان پالیسی بتا رہی ہے کہ پاکستان کو گھیر نے کی کو شش کی جارہی ہے۔ یہ کو شش نئی نہیں بلکہ نائن الیون سے بڑی شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ نئی پالیسی کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو اسی طر ح کی دھمکی دی گئی ہے جس طرح پاکستان میںفوجی آمر پر ویز مشرف کو دی گئی تھی جو ایک ٹیلی فون کا ل پر ہی چاروں شانے چت ہو کر رہ گیا تھا۔ امریکہ نے نئی پالیسی موقع ومناسبت کے لحاظ صحیح وقت پر پیش کی ہے جب پاکستان میں سویلین حکومت کوسیا سی بحر ا ن کا شکار کر دیاگیاہے مگر امریکی انتظامیہ سے یہ بھول ہوگئی کہ کمزور سہی مگر پاکستان میں ایک جمہو ری حکومت قائم ہے ۔ ان کے پسندیدہ افراد کے قبضہ میں حکومت نہیں ۔ایسے میں بڑا ہی چر چاتھا کہ ٹرمپ نئی افغان پا لیسی لا ر ہے ہیں مگر کیا معلوم تھا کہ وہ ٹرپ کر جائیں گے۔ ا ن کو مبارک ہو کہ وہ6 ما ہ میں ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن گئے۔ ان کے پیشرو باراک اوبامہ بھی جنگ نہیں امن قائم کرنے آئے تھے مگر ان کی بھی امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے آگے ایک بھی نہ چلی۔ وہ بھی جنگ کو بڑھوتی دے کر چلتے بنے ۔
اگر کسی کا یہ خیا ل تھا کہ وہ افغانستان میں امن کی خاطرفوجوں میں کمی یا انخلا کی پالیسی دیں گے تو یہ ان سب کی خام خیالی تھی کیو نکہ(ر) حمید گل نے برسو ں پہلے کہہ دیا تھا کہ نائن الیون بہانہ ، افغانستان ٹھکا نہ اور پاکستان نشانہ ہے ، تب سے ہی امریکہ اس پر عمل پیر ا ہے ، چنانچہ امریکہ کو یہ مشکل آن پڑی ہے کہ پاکستان میں جنرل (ر) مشرف جیسا آمر مسلط نہیں جو اپنے اقتدار کے بچاؤ کی غر ض سے سب کچھ امریکہ پر نچھا ور کردے۔ امریکہ کوہمیشہ سے پاکستان میں منتخب حکومت سے چڑ رہی ہے چنا نچہ کئی ما ہ سے نئی افغان پالیسی کی جو شنید تھی ،اس کا اعلان امر یکہ نے بر وقت کیا ہے کیو نکہ پاکستان اس وقت سیا سی بحران سے دوچار ہے اور انتظامیہ اس کے نتیجے میں ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ کمزور سیا سی حکومت کے باوجو د اس وقت پاکستان میں ایک سیاسی ڈھانچہ موجو د ہے جو کا م کررہا ہے اور8،10 ما ہ میں انتخابات بھی منعقد ہو نے والے ہیں چنا نچہ مو قع تاک کر امریکہ نے نئی افغانستان پا لیسی کا اعلان کردیاہے۔ نئی افغان پا لیسی کیا ہے؟ ٹرمپ کی تقریر سے یہی اندازہ ہو تا کہ انھو ں نے پرانی باتوں کو دہر ایا ہے، ماسوائے 2نکا ت کے جو امریکہ کے مستقبل کے عزائم کو آشکا رہ کر تے ہیں۔
ایک تو ان کا لہجہ پاکستان کے بارے میں کرخت تھا ، دوسرے انھو ں نے دھمکی میں نئی پالیسی یہ دی ہے کہ امریکہ اب اپنی مرضی سے آپریشن کر ے گا ، کب کر ے گا ، کہا ں کر ے گا اور کیسے کر ے گا، اس بارے میں کوئی اطلا ع نہیں دی جائیگی ۔ دوسرے یہ کہ ہند کو جو پہلے سے افغانستان میں گھس بیٹھا ہے ،اس کو مزید شہ دی گئی ہے۔ یہی2 نکا ت ہیں جو پاکستان لئے توجہ کا مرکز ہو سکتے ہیں ۔ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا پاکستان میںکیا ردعمل ہو ا، وہ بھی غیر سنجید گی کا حامل ہے۔ سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی کا بیا ن ایسا لگا کہ جس طرح ان کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط مشرقی پاکستان کے وقت پولینڈ کی قرار داد کے ٹکڑے کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلا س کو شاہ عالمی گیٹ کا جلسہ سمجھ لیا تھا۔ عمر ان خان نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے مگر ان کے بیان میںسیا سی پختگی کی کمی محسو س کی گئی ہے ۔ وہ ابھی تک ملک کی اندورنی سیا ست کے ذہن سے باہر نہیں نکل سکے البتہ وزارت خارجہ کے سابق اعلیٰ افسر وں نے جو تجزیہ پیش کی ہے، وہ غور طلب ہے اور حکومت کو اس پالیسی پر اپنا ردعمل دینے سے پہلے سابق اور موجودہ وزارت خارجہ کے افسر وں سے بریفنگ لینے کے بعد قدم اٹھانا چاہیے ۔
بہر حال ٹرمپ کی افغان پا لیسی کا سرسری جا ئزہ لینے سے یہ بات کھل جا تی ہے کہ ان کا بھی اپنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے پا ؤں پھسل رہا ہے اور وہ جم کر نہیں رکھ رہے چنانچہ اسی بنا پر پاکستان میں امریکہ کے سفیر نے پا لیسی کے اعلا ن ہونے کے بعد پاکستان کے آرمی چیف سے ملا قات کی اور تعاون کی خواہش کی ۔ حیرت ہے کہ جو ملا قات امریکی سفیر کو وزارت خارجہ کے حکام سے کرنا چاہیے تھی کہ وہ اس قدر حواس باختہ تھے کہ سیدھے پاکستان کے کما نڈر انچیف کے پا س چلے گئے جس کا ان کو دو ٹو ک جو اب بھی مل گیا کہ امریکہ جو ہر مر تبہ پا کستان کی مد د سے سکو ن پا تا ہے لیکن ہر مرتبہ پا کستان ہی کو ڈس جا تا ہے، پاک فوج کے کما نڈر چیف نے بے کھٹکے کہہ دیا کہ پاکستان کو امریکہ کے اسلحہ اور امدا د کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں قربانیو ں کو تسلیم کیا جا ئے ۔ بات بہت درست کہی ہے ۔پاکستان نے 70ہزار سے زیا دہ قیمتی جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔
کیا امریکہ کے پا س اپنی شروع کر دہ اس جنگ میں اتنی عظیم قربانی کی کوئی مثال ہے؟ امریکہ ،پاکستان کے بغیر یہ جنگ جیتنے کے قابل ہے ہی نہیں۔ امریکہ کے صدر کے پہلے نکتے کی طرف آتے ہیں کہ آپریشن کس طر ح کیا جا ئیگا۔ اس سے ایک دھمکی کا اندازہ ہوتا کہ امریکہ یا تو دوبارہ بلا اجازت ڈرون حملے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ان حملو ں کا مقصد پاکستان کو بدنا م کرنا ہی ہو سکتا ہے لیکن بعض مبصرین کی رائے ہے کہ امریکہ تو افغانستان میں جانے کیلئے آیا ہی نہیں جیسا کہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ ،افغانستان کی تعمیر نو کی غرض سے نہیں بلکہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آیا ہے۔ ماضی میں امریکہ کا کر دار واضح رہا ہے کہ اس نے امن کے قیا م کیلئے ہر سنجید ہ کو شش کو سبوتاژکیا ہے۔ جہا ں تک ہندوستان کو افغان امور میں حصہ دینے کا اعلا ن ہے تو یہ پالیسی بھی کامیاب نہیں ہو نے والی کہ گزشتہ 70 سال سے ہند، افغانستان میں کر دار ادا کر رہا ہے اور کردار ادا کرنے کے جتن بھی کرتا ہے مگر اس کو نتیجہ ہمیشہ صفر ہی ملتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہند اور افغانستان کا اتحاد ہمیشہ مصنوعی یکجہتی پر مبنی رہا ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان کے عوام نہ صر ف اسلامی ، اقتصادی ، معاشی ، خونی وخاندانی اور ثقافتی رشتے میں ایک دوسرے سے صدیو ں سے وابستہ چلے آرہے ۔