Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ممنوعات احرام ، نفس پر قابو پانے کی تربیت

حاجی حالت ِاحرام ميں نہ بال کاٹ سکتا ہے نہ ناخن ، نہ سر ڈھک سکتا ہے اور نہ جسم يا احرام کی چادروں پر خوشبو لگا سکتا ہے ، نہ بيوی سے صحبت و تعلق قائم کرسکتا ہے اور نہ ہی شہوانی باتيں کرنے کی اجازت ہے ۔ اس طرح حالت ِاحرام ميں خشکی کا شکار کرنے سے بھی محرم کو روکا گيا ۔ يہ سارے ہی کام عام حالت ميں جائز ومباح ہيں ، حالت احرام ميں ان چیزوں سے کيوں روکا گيا ؟ اور اس ميں کيا حکمت و راز ہے ؟ اس سلسلے ميں خود قرآن پاک سے واضح رہنمائی ملتی ہے ۔ شکار کی ممانعت بيان کرنے سے پہلے اس کی حکمت و مصلحت کی طرف يوں اشارہ کيا گيا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اے ايمان والو ! اﷲ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکيں گے تاکہ اﷲ تعالیٰ معلوم کرلے کہ کون شخص اُس سے بن ديکھے ڈرتا ہے ؟ سو جو شخص اس کے بعد حد سے نکلے گا اس کے واسطے دردناک سزا ہے، اے ايمان والو ! شکار کو قتل مت کرو ( وحشی جانوروں کا شکار نہ کرو ) جب کہ تم حالت ِاحرام ميں ہو۔ “(المائدہ94،95)۔
 
اس سے صاف معلوم ہوا کہ حالت ِاحرام ميں شکار کی ممانعت کا ايک اہم مقصد امتحان و آزمائش ہے۔ شکاری جانور اتنے قريب اور قابو ميں ہوں کہ ہاتھ سے پکڑے جاسکيں يا نيزوں سے با آسانی شکار کئے جاسکيں تب بھی ديکھنا يہ ہے کہ کون بن ديکھے اﷲ سے ڈر کر ، اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے شکار سے باز رہتا ہے اور کون حد سے آگے بڑھ کر نفس کی بندگی و پيروی کرتا ہے ؟ شکار کی ممانعت پھر اس کا کفارہ بیان کرنے کے بعد پروردگار کے انتقام سے ڈرايا گيا اور اﷲ سے ڈرتے رہنے کی تاکيد کی گئی ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اﷲ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف کرديا اور جو شخص پھر ايسی ہی حرکت کرے گا تو اﷲ انتقام لے گا اور اﷲ زبردست ہے انتقام لينے والا ہے ، تمہارے لئے دريا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کيا گيا ، تمہارے فائدہ کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لئے حرام کيا گيا ہے جب تک تم حالت احرام ميں رہو اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے۔ “ (المائدہ96,95) ۔ 
 
يہی امتحان و زآمائش دوسرے احکام اور دیگر ممنوعاتِ احرام ميں بھی ہے۔ اس ميں نفس کی تربيت ، ﷲ سے ڈرنے اور تقویٰ پرہيزگاری اختيار کرنے کی مشق بھی ہے۔ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر ، اس کے عذاب و انتقام سے بچنے کے لئے قابو ميں آنے والے شکار سے بھی بچا رہے ، وہ حج کے بعد باقی زندگی ميں کيونکر اﷲ تعالیٰ سے نہيں ڈرے گا ؟ اور کس طرح دنیا کی چمک دمک ، زيب و زينت اسے اﷲ تعالیٰ سے غافل کرسکے گی ؟ اس کے علاوہ شکار کی کثرت آدمی کو غفلت کا شکار بناديتی ہے۔ دينی فرائض اور ذمہ داريوں سے غافل کرديتی ہے ، نيز شکار کی مشغوليت لہو و لعب کے قبيل سے ہے جيسا کہ بعض احاديث ميں اس کی صراحت آئی ہے۔ جب یہ غفلت اور لہو و لعب کے قبیل سے ہے تو اس کا جواز عبادت ِحج کے مناسب ِحال نہیں اور حاجی کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اﷲتعالیٰ کا مہمان بن کر اس مقدس حرم میں غفلت اور لہو و لعب کے ساتھ حاضر ہو ۔
 
اس کے علاوہ دیگر ممنوعاتِ احرام میں یہ راز بھی پنہاں ہے کہ وہ تمام ہی ممنوعات دنیاوی آرائش ، زیب و زینت ، ناز و نعم اور خواہشات و لذاتِ نفسانی کے قبیل سے ہیں جبکہ حج کی روح خواہشات و لذات اور دنیاوی تعلق سب کچھ چھوڑ کر عجز و انکساری کے ساتھ پراگندہ حال و پراگندہ بال پروردگار کے حضور حاضر ہونا ہے اس لئے ان تمام چیزوں سے حاجی کو روک دیا گیا۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ:”ان اشیاء کی ممانعت محرم یعنی احرام باندھنے والے کے لئے اس لئے ہے کہ تذلل ، ترکِ تجمل ، پراگندہ بال اور غبار آلود ہونے کی کیفیت حاصل ہو اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور خوف کا غلبہ اورمواخذہ کا ڈر اس پر غالب رہے اور وہ اپنی خواہشات اوردلچسپیوں میں پھنس کر نہ رہ جائے۔ ان ممنوعات میں شکار اس لئے شامل ہے کہ وہ بھی ایک قسم کے توسع میں داخل ہے اوردلچسپی اور تفریح خاطر کی چیز ہے ۔
 
 

شیئر: