دوسروں کو سکون بانٹنے کا جھوٹا دعویٰ کرنیوالا خودساختہ بھگوان اسوقت سلاخوں کے پیچھے بے چین وبے قرار ہے
* * * معصوم مرادآبادی* * *
ہندوستان میں جب کبھی عدل وانصاف کی تاریخ لکھی جائیگی تو اس میں سی بی آئی عدالت کے جج جگدیپ سنگھ کا نام سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا۔ وہی جگدیپ سنگھ جنہوں نے تمام تردنیاوی تام جھام سے لبریز ایک ڈھونگی بابا کو سلاخوں کے پیچھے پہنچاکر یہ ثابت کیا کہ اگر منصف کا ضمیر زندہ ہو اور وہ مظلوم کو انصاف دلانے کی ٹھان لے تو کوئی خوف اسکے پیروںکی زنجیر نہیں بن سکتا۔ ڈیرہ سچا سودا کے نام سے روحانیت کا جھوٹا کاروبار چلانے والے بابا گرمیت نے عوام کو دھوکہ دینے کیلئے اپنا نام بابا رام رحیم رکھا تھا تاکہ اس کی دسترس میں آنے والے لوگ 2مذاہب کے ان محترم ناموں سے متاثر ہوں لیکن ان ناموں کی آڑ لے کر اس نے لوگوں کا بھلا کرنے کی بجائے اپنے ڈیرے کو ناجائز دولت ، عیاشی ، بدکاری اور استحصال کامرکز بنالیا۔ ایک ہزار کروڑ سے زیادہ کے کاروبار کا دعویٰ کرنے والے اس ڈھونگی بابا کے آشرم میں عیش وعشرت کا ساراسامان موجود تھا۔ اس نے یہ سوچ کر اپنی الگ دنیا آباد کی تھی کہ لوگ اس کو بھگوان مان کر تمام اچھے اور برے کاموں کی تائید کریں گے لیکن اسی آشرم کی 2 لڑکیوں نے جو سادھوی کے طورپر وہاں مقیم تھیں، بابا کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوڑ دیا۔
یہ لڑکیاں عقیدت و احترام کے جذبے سے بابا کے ڈیرے میں داخل ہوئی تھیں لیکن بابا نے ان سے زیادتی کرکے مصیبت مول لے لی۔ عدالت نے انہی 2لڑکیوں کے بیانات کی روشنی میں ڈھونگی بابا کو 20سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے اور 30لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ یہ رقم ان دونوں لڑکیوں میں تقسیم کی جائیگی۔ دکھی انسانیت کی خدمت کا ڈھونگ رچانے والے بابا کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے فاضل جج نے کہاہے کہ ’’بابا نے سادھوی کے ساتھ جنگلی جانوروں جیسا برتاؤ کیا۔ اس شخص کا انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں اور رحم دلی اس کی فطرت میں نہیں۔ سادھوی نے تو مجرم کو بھگوا ن کا درجہ دیا تھا لیکن اس نے بھولے بھالے پیرو کاروں کا جنسی استحصال کرکے ان کا اعتماد چکنا چور کردیا ہے۔ ‘‘ خودساختہ بھگوان بابا گرمیت بدترین جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود اپنے ڈیرے میں اس گمان کے ساتھ بے خوف وخطر رہ رہا تھا کہ قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ حکومت اور سرکاری مشینری اسکے پاؤں دھو کر پیتی ہے۔ سیاست دانوں کا اسکے دربار میں میلہ لگا رہتا ہے اور بڑے بڑے افسران اس کی قدم بوسی کرتے ہیں۔ جب عدالت نے باباکیخلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تو اس نے مختلف طریقوں سے عدالت کو رعب میں لینے کی کوشش کی۔سرکاری مشینری اس معاملے میں اس کا تعاون کرتی رہی۔
جب بابا کو سزا سنانے کیلئے عدالت میں طلب کیاگیا تو وہ 200 کاروں کا قافلہ لے کر وہاں پہنچا ۔ عدالت نے جب اسے مجرم قرار دیا تو اس کے مریدوں نے ریاست ہریانہ کو آگ لگادی۔ بابا کو سزا سے بچانے کیلئے طرح طرح کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہ اس کی ایک چیلی نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر بابا کو کچھ ہوا تو وہ ہندوستان کو دنیا کے نقشے سے مٹادیں گی۔ جب عدالت نے اسے قصوروار قرار دیا تھا تو بابا کے ماننے والوں نے ہریانہ کے علاوہ پنجاب اور دہلی میں بھی ایسی افراتفری مچائی کہ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ بابا کے ماننے والوںکا غم وغصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ وہ اس قدر بپھرے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے سیکیورٹی فورسز کے مسلح جوان الٹے پاؤں بھاگتے ہوئے نظر آئے۔
پولیس فورس نے بادل نخواستہ ہی سہی قانون ہاتھ میں لینے والوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم وبیش 40افراد ہلاک ہوگئے۔ ہریانہ سرکار نے بابا گرمیت کے معاملے میں جو رویہ اختیار کیا ،وہ اس کی نااہلی اور نکمے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دراصل یہ ہریانہ کی بی جے پی سرکار ہی تھی جس نے ڈھونگی بابا کو سیاسی تحفظ فراہم کیا تھا ۔ بابا کی منہ بولی بیٹی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ہریانہ سرکار نے بابا کیخلاف چل رہے زیادتی کے مقدمات کو ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ گزشتہ 3 سال میں یہ تیسرا موقع ہے جب ہریانہ کی کھٹر سرکار نظم ونسق سنبھالنے کے معاملے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی اور اس نے پوری ریاست کو غنڈوں اور بدمعاشوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ پہلے بابا رام پال کے معاملے میں اور اسکے بعد جاٹو ں کی ریزرویشن تحریک کے دوران اور اب بابا گرومیت کے معاملے میں لاقانونیت کا ایسا بازار گرم ہوا کہ حکومت اس کے سامنے پوری طرح ناکام ہوگئی۔ ریاست کو ہزاروں کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ڈیرہ سچا سودا کی ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ ملک میں اسکے پیرو کاروں کی تعداد 6کروڑ سے زائد اور ڈیرے کی آمدنی یومیہ ایک کروڑ ہے۔ ہریانہ کے سرسا علاقہ میں واقع بابا گرمیت کا ڈیرہ، جہاں اب پوری طرح ویرانی چھائی ہے ، کسی وقت ایک مساوی حکومت کی طرح کام کرتا تھا اور وہاں سرکاری مشینری کی ایک نہیں چلتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈھونگی بابا نے نہ صرف سیکڑوں عورتوں کا استحصال کیا بلکہ 400سے زیادہ لوگوں کو ناکارہ بھی بنادیا۔ بابا کا دعویٰ تھا کہ اسکے پیروکاروں کو ایک خاص قسم کا انجکشن اسلئے لگایاجاتا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے دور رہیں۔ اپنے ماننے والوں کے ساتھ یہ سلوک کرنے والا بابا خود مردانہ طاقت بڑھانے کی قیمتی دوائیں استعمال کرتا تھا۔ اس کی خواہش اس حد تک بگڑی ہوئی تھی کہ خود اپنی منہ بولی بیٹی کے ساتھ اسکے تعلقات کا انکشاف ہوا ہے۔
جن 2سادھویوں نے زیادتی کے جرم میں ڈھونگی بابا کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا ہے، انہوں نے سب سے پہلے 2002میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو ایک گمنام خط لکھا تھا۔ یہ خط عدالت عالیہ کے جج کو بھی بھیجا گیا تھا۔ بعد کو اس کی تحقیقات شروع ہوئی تودودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ ایک مقامی اخبار نے اس خط کی بنیاد پر بابا کا اصلی چہرہ بے نقاب کیا لیکن اس جرأت کی پاداش میں اخبار کے ایڈیٹر کو قتل کردیاگیا۔ جب ایک متاثرہ سادھوی کے بھائی نے یہ معاملہ اٹھایا تو اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے سارے ثبوت مٹاکر ڈھونگی بابا مطمئن تھا کہ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا لیکن آخر کار اسے اپنے بدترین گناہوں کی سزا مل ہی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود کو انتہائی طاقتور قرار دینے والے ڈھونگی بابا کو جب عدالت میں 20سال کی سزا سنائی گئی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہاکہ مجھے معاف کردو۔ سزا سنتے ہی وہ زمین پر گرگیا اوراس کی حالت غیر ہوگئی۔ بابا کے اس حال پر ان لوگوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے اصل پروردگارکو فراموش کرکے ڈھونگی بابا کی پناہ میں سکون واطمینان تلاش کیا تھا۔ دوسروں کو سکون بانٹنے کا جھوٹا دعویٰ کرنیوالا خودساختہ بھگوان اسوقت سلاخوں کے پیچھے بے چین وبے قرار ہے۔