شہزاد اعظم
شارق حسب معمول رات گئے گھر میں داخل ہوا اور لاپروائی سے سیدھا کمرے میں روشنیاں بجھا کر لیٹ گیا۔سیما برآمدے میں کھانے کی میز پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔وہ بوجھل قدموں سے کمرے تک گئی اور نہایت دھیمے انداز میں پوچھنے لگی،”شاری ! کھانا نہیں کھاو گے۔ آج میں نے آپ کی پسند کے کوفتے پکائے ہیں۔“ شاری نے جھنجھلا کر کہا، مجھے بھوک نہیں، تم کھا لو اور سو جاو۔
سیما اور شارق کی شادی کو دو برس گزر چکے تھے۔ چند ماہ قبل ہی شارق کو ایک کمپنی میں مینجرکی ملازمت ملی تھی۔کوٹھی، گاڑی، سب کچھ کمپنی والوں نے ہی دیا تھا۔شادی کے ابتدائی14ماہ انتہائی کسمپرسی میں گزرے تھے۔ شارق بیروزگار تھا۔ وہ سیما سے کہتا کہ لوگ شادی کے بعد دلہن کو لے کر ہنی مون منانے جاتے ہیں مگر میں تمہیں فاقوں کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکا۔
چاندنی رات میں سیما اور شارق برآمدے میں بیٹھ کر آسمان کی وسعتوں کے تنہا مسافر، چاند کو محو سفر دیکھتے تو سیما کہتی،”آپ کی محبت نے میری زندگی میں مٹھاس گھول دیا ہے۔یہ میرے لئے ”شہد سے میٹھی“ ہے۔جب چاندنی رات میں آپ مجھ سے محبت کی باتیں کرتے ہیں تو میں اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش قسمت عورت تصور کرتی ہوں۔میرا ” ہنی مون “تو یہی ہے ۔آپ کوئی فکر نہ کیا کریں۔ جو رزق ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں مل کر رہے گا۔ میں آپ کو پریشان دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کہ میرے قدموں تلے سے زمین سرک رہی ہے اور آپ کو خوش دیکھوں تو میرے دل کی دنیا پر چاندنی چٹکی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
شادی کی پہلی سالگرہ کے دو ماہ بعد شارق کو جب نوکری ملی تو سیما نے رب کریم کا شکر ادا کیا۔ اسے یقین تھا کہ صبر کا پھل ضرور ملے گا۔ وہ روزانہ شارق کو بنا سنوار کر دفتر بھیجتی۔خاندان بھر میں شارق اور سیما کی جوڑی کو مثالی قرار دیا جانے لگا۔
چند ماہ تو یونہی گزر گئے پھر نجانے کیاہوا، شارق کے مزاج میں جھنجھلاہٹ در آئی۔وہ رات بھیگنے کے بعد گھر لوٹتا۔ سیما سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔اس نے اپنے دل کو ٹٹولا کہ آخر ایسی کون سی بات ہوگئی جس نے شارق کے التفات کو جھنجھلاہٹ سے بدل دیا۔وہ جب بھی پوچھتی کہ” شاری!آپ کو کیا ہوا؟“ تو جواب ملتا کہ ”پلیز! دماغ نہ کھاو،مجھے آرام کرنے دو“
شارق کو آلو کوفتے کا سالن بہت پسند تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ”سیما!تم روپہلے کام والی ساڑھی پرجب بیلے کی کلیوں والا زیور پہنتی ہو تو میرے خوابوں کی شہزادی لگتی ہو۔“
آج سیما نے آلو کوفتے بنائے، سفید ساڑھی پہنی اور بوا سے بیلے کا زیور منگوایا۔رات کو سج دھج کر کھانے کی میز پر شارق کا انتظار کرنے لگی۔ وہ تیوری پر بل ڈالے رات کے ایک بجے آیا۔اس نے نہ سیما پر نظر ڈالی اور نہ اس کے سنگھار کی مہک ہی اسے متاثر کر سکی۔سیما کو ایسا لگا کہ یہ سفید ساڑھی نہیں بلکہ ریشمی کفن ہے جو شارق کی محبت پر ڈالا گیاہے“۔
سیما نے جب شوہر سے اس بے اعتنائی کی وجہ جاننے کی ضد کی تو وہ کہنے لگا کہ میں نازیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ تم جب چاہو، مجھ سے طلاق لے سکتی ہو۔
سیما کو زندگی میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ سرد ترین موسم میں رات کے وقت کسی چٹیل صحرا میں تنِ تنہا منزل کی تلاش کرنے والے کو جب یخ بستہ ریت پر برہنہ پا چلنا پڑتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔”مجھے، شاری طلاق دینے کے لئے تیار۔۔۔۔مگر میرا جرم؟“ سیما اپنے آپ سے سوال کرتی ہوئی برآمدے میں پڑے صوفے پر جا لیٹی اور روپہلے چاند کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہی کہ ”آج مجھ سے ” ہنی“ چھن گیا، صرف ”مون“ رہ گیا ہے۔وہ چاند کو ہی تکتی رہی پھر نجانے کب وہ چاند” سنہرا“ ہو گیا،بوا نے آ کر کہا، بیٹی دن چڑھ آیا، کب تک سوتی رہو گی؟
شارق دفتر جا چکا تھا۔ سیما نے آج بھی اسی طرح بن سنور کر شاری کا انتظار کیا۔ رات گئے وہ گھر آیا تو اس نے شوہر سے کہا کہ ”آپ نے جو کچھ کرنا ہے، کیجئے۔ اگر میری وفا میں کوئی سقم رہ گیا ہے تو یہ میری قسمت ۔بس ایک آخری التجاہے کہ مجھے جو چاہے اذیت دے لیں بس طلاق نہ دیجئے“۔شارق نے نہایت درشت لہجے میں جواب دیا کہ ” میں فیصلہ کر چکا ہوں، مجھے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے“ یہ کہہ کر شارق تکیے میں سر دے کر سونے کے لئے لیٹ گیا۔
اگلے روز شارق دفتر جا رہا تھا کہ راستے میں اس کی کار ٹرالر سے ٹکرا گئی۔دائیں ٹانگ کی ہڈی چکنا چور ہو گئی اورڈاکٹروں نے جان بچانے کے لئے اس کی ٹانگ کاٹ دی۔
شارق کی سیکریٹری اور ہونے والی بیوی نازیہ اور اس کے گھر والے شارق کی عیادت اور خیریت دریافت کرنے کے لئے اسپتال پہنچے۔ نازیہ کو جب پتہ چلا کہ شارق کی ٹانگ کاٹ دی گئی ہے تو اسے بہت ”افسوس“ ہوا۔ وہ اپنے گھر والوں سے کھسر پھسر کر رہی تھی۔ شارق نے کہا کہ ”پریشان نہ ہو، میں چھ ماہ تک بالکل ٹھیک ہو جاوں گا“۔ نازیہ ، شارق کے منہ سے دلاسہ سن کر بولی ”مگر شاری! میں آپ سے کیسے کہوں کہ ”آئی کانٹ مینج ودھ آ ہینڈی کیپڈ، میں سہیلیوں سے کیا کہوں گی کہ میں نے ایک” معذور دہجو “سے شادی کی ہے۔ آئی ایم سوری، شاری، ٹیک کیئر“۔
نازیہ کی باتیں سن کر شارق کے چہرے پر جیسے پریشانیوں کے سائے منڈلانے لگے۔ اس نے پشیمانی میں ڈوبی سوالیہ نظروں سے سیماکی جانب دیکھا، اس کی یہ حالت سیما سے نہ دیکھی گئی۔وہ بیڈ کے قریب گئی توشارق نے کہا، پہلے میں نے تمہیں طلاق دینے کی دھمکی دی تھی، اب خلع لینے کی اجازت دیتا ہوں۔گھرجاو، آرام کرو، شام کو اسپتال آنا اور مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دینا۔
سیما ، شام کے سات بجے اسپتال پہنچ گئی۔شارق نے اشکوں سے ڈبڈبائی آنکھوں سے سیما کو دیکھا۔ وہ روپہلے کام والی سفید ریشمی ساڑھی میں ملبوس بیلے کی کلیوں کا زیور پہنے اور ہاتھ میں ناشتے دان لئے کھڑی تھی۔شارق نے پوچھا، اس لنچ باکس میں کیا ہے؟ سیما نے کہا”آلو اور کوفتے کا سالن، میں نے گھر جا کر یہی پکایا اور آپ کے لئے لے کر چلی آئی۔“ اس نے اپنے ہاتھوں سے شارق کو کھانا کھلایا۔
آج سیما اور شارق کی شادی کی 14ویں سالگرہ تھی۔ ”چاندنی ہاوس“ کو سیما نے اس طرح سجا رکھا تھا کہ محل بھی اس کے سامنے ہیچ لگ رہے تھے۔ سیما کی بیٹی ” ہنی“ اور بیٹا ”مون“دونوں ہی اپنی ماما کے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ یہ اسکول ایک ٹیوشن سینٹر تھا جو شارق کے معذور ہونے کے بعد اس نے کھولا تھا۔ یہ ٹیوشن سینٹر چار منزلہ اسکول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔"چاندنی ہاوس "بھی سیما نے اسکول کی آمدنی سے ہی تعمیر کرایا ۔شارق اگر کبھی اپنی ماضی کی بدسلوکی کو یاد کرنے لگے تو سیما اس کو "دھمکی" دیتی ہے کہ اگر ایسی بات سوچی تو میں تمہیں"طلاق" دے دوں گی۔شاری ہنس دیتا ہے۔