Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شعری تخلیق، مسحور کن آواز، دلکش موسیقی یکجا ہو ں تو نغمہ بنتا ہے ، عبدالرافع

 عزیز محی الدین کے کاشانے سعودی عرب کی یوم الوطنی کی مناسبت سے شام موسیقی 
امین انصاری۔جدہ
کسی شاعر کی تخئی سے تخلیق پانے والے جمالی،خیالی اور تصوراتی اشعار کو کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل میں جگہ کرلینے والی مسحورکن افسانوی آواز جب دلکش موسیقی کے ساتھ مل جائے تو یہ نغمہ یا گانا بن جاتا ہے اور پھر یہ دنیائے موسیقی میں اپنا مقام آپ بنالیتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار جدہ کے معروف گلوکار سید عبدالرافع نے سید عزیز محی الدین کے کاشانے سعودی عرب کی یوم الوطنی کی مناسبت سے منعقدہ " شام موسیقی " کے موقع پر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اچھی شاعری،اچھی آواز اور اچھی موسیقی لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام چھوڑ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی دہائی پرانے گانے آج بھی دور جدید کے گانو ں پر فوقیت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر سیدعبدالرافع نے جگجیت سنگھ اور پنکج ادھاس کی غزلیں اور محمد رفیع، مکیش اور کشور کمار کے نغمے سنا کر محفل کو گرما دیا۔
میزبان سید عزیز محی الدین نے کہا کہ ہم اپنے ملک عزیز سے ہزاروں میل دور مملکت سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ اس عظیم ملک میں ہم نے اپنی زندگی کی 3 سے زائد دہائیاں گزار دیں۔ہم اسے اپنا وطنِ ثانی تصور کرتے ہیں اور یہاں کی ترقی اور خوشحالی میں خود کو برابر کا شریک سمجھتے ہیں ۔آج ہم جشن یوم الوطنی منانے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو حاسدوں کے حسد اور شرپسندوں کے شر سے محفوظ و سلامت رکھے۔ انہوں نے اس موقع پر تمام سنگرز اور شرکاءکا فردا فردا شکریہ ادا کیا جنہوں نے جشن یوم الوطنی میں شریک ہوکر اس مملکت سے اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیا ۔ 
مہمان خصوصی محمد ادریس نے سب سے پہلے خادم حرمین شریفین ،ولیعہد ، سعودی عوام اور تارکین وطن کو دل کی گہرائیوں سے یوم الوطنی کی مبارکباد پیش کی اور محفل موسیقی کے انعقاد پر میزبان اور شرکاءکو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یقینا نغمہ سرائی ہر ایک کے بس کی بات نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک نغمہ سرا موجود ہوتاہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر شخص زندگی میں بیسیوںبار لاشعوری طور پر کچھ نہ کچھ گنگناتا ہے ۔انسان کی زندگی دھنک رنگ ہے اور اگر یہ رنگ نکال لئے جائیں تو زندگی بے مزہ ہوجاتی ہے ۔ نغمہ سرائی ضروری نہیں کہ ہم موسیقی کے ساتھ ہی کریں یہ بغیر موسیقی کے بھی دلوں کو چھولیتی ہے۔ موسیقی نغمہ سرائی کا وہ حسن ہے جو اشعار اور آواز کو سنوار دیتی ہے اور جب یہ تینوں یکجا ہوجاتے ہیں تو غزل ، گانا ، قوالی ، لوک گیت وغیرہ سے معنون ہو کر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ 
جدہ کے منجھے ہوئے گلوکار وسیم مقدم نے اپنے منفرد انداز میں بے شمار نغمے اور گیت پیش کئے۔ انہوں نے ڈویٹ یعنی دوگانے بھی سنائے اور سامعین سے خوب داد حاصل کی ۔ وسیم مقدم نے کہا کہ آوازتو قدرت کی عطا ہے ۔اگرہم محنت سے ذرا ریاض کر کے اپنی آوازکو نغمے کا روپ دیتے ہیں تو بلا شبہ یہ سننے والوں کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یقینا پرانی شاعری ، پرانے سنگرز اور موسیقی ناقابل فراموش ہے لیکن ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ دور حاضر کی گائیکی ، شاعری اور سنگیت بھی بے معنی نہیں ۔ آج بھی ایسے ایسے گانے ہمیں سننے کو ملتے ہیں جو ہرخاص وعام کی زبان پر ہوتے ہیں اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ دل میں جگہ بناپاتے ہیں ۔ 
” شام موسیقی “کے ایک اور خوبصورت گلوکار محمدکلیم نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں موسیقی کے بادشاہ محمد رفیع اور دیگر گلوکار وں کے مشہور زمانہ نغمے سناکر داد سمیٹی ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان موسیقی اور گائیکی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ آج ہندوستان کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ٹیلنٹ موجود ہے۔مارکیٹ بہترین گلوکاروں کے البمز سے بھری پڑ ی ہے ۔ہمیں ان گانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ دنیا ئے موسیقی نئی نئی آوازوں سے آشنا ہوسکے ۔ 
مرزا یونس بیگ خوبصورت آواز کے مالک ہیں انہوں نے مکیش،محمد رفیع اور دیگر افسانوی شہرت کے حامل گلوکاروںکے گائے ہوئے نغموں کو اپنی آواز میں سناکر سماںباندھ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی موسیقی اور گائیکی دنیا کے کونے کونے میں سنی جاتی ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں بننے والی فلموں کو پوری دنیا اپنی اپنی ملکی زبان میں ترجمہ کرکے دکھا رہی ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ کوئی مترجم گانوں یعنی شاعری کا ترجمہ نہیں کرسکا لہٰذا فلم میں جتنے بھی گانے ہوتے ہیں وہ سب جوں کے تو ںاردو میں ہی سنائے جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاںباصلاحیت گلوکاروں کی کمی نہیں ۔
فیملی سنگر آشانے اپنی پرسوز اور مسحور کن آواز میں کئی ڈویٹ گائے اور سننے والوں کو عش عش کرنے پر مجبور کیا ۔ آشا نے متواتر کئی گانے گائے جس میں لتا منگیشکر ، آشا بھوسلے جیسی افسانوی شہرت پر متمکن گلوکاراﺅںکے نغمے شامل تھے۔ آشا جو ہندوستان کی ریاست کیرالا کی رہنے والی ہیں اردو یا ہندی سے ناواقف ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اردو گانوں کی ادائیگی اور تلفظ کسی عظیم اردو داں سے کم نہیں تھا ۔ آشا نے کہا کہ میری مادری زبان ملیالم ہے لیکن ہندی گانوں کو گاتے ہوئے مجھے ایک سرور آتا ہے اور مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں حقیقی نغمہ سرائی کررہی ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ اردو شاعری میں معنی کا ذخیرہ ہے۔ سننے والا الفاظ کی بندشوں میں کھوجاتا ہے ۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صیح تلفظ ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نئے سے زیادہ پرانے گیت سنانے میں لطف آتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ میں دور قدیم اور جدید کے تمام گانوں پر عبور رکھتی ہوں محفل کی مناسبت سے اپنی گائیکی پیش کرتی ہوں ۔
 مسز سید عزیز محی الدین نے بھی یوم الوطنی کی مناسبت سے گیت پیش کئے اور تمام گلوکاروں ، شرکاءحضرات و خواتین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مملکت میں رہنے والے ایک ایک فرد کو یوم الوطنی کی دلی مبارکباد پیش کی ۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: