Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیانیہ

امریکہ اپنے مفادات کی خاطر آئے روز پاکستان سے ڈو مور کے مطالبے کرتا رہتا ہے
* * *محمد مبشر انوار* * *
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ واقع ہے جو اسے دنیا میں انتہائی اہم بنا دیتی ہے مگر بدقسمتی سے لمحہ موجود میں ہمارے سیاستدان اور ماضی میں مقتدرہ قوتیں اس حقیقت کا صحیح معنوں میں ادراک کر سکے او ر نہ ہی اس حیثیت میں ریاستی مفادات کو کشید کرپائے۔ نتیجتاً اس وقت پاکستان کی حالت ’’غریب کی جورو ،سب کی بھابھی‘‘ والی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ریاست کے سیاستدان برائی کی جڑ ،فوج کو سمجھتے ہیں تو فوج اس حالت کی ذمہ داری کرپٹ سیاستدانوں کو گردانتی ہے۔ درحقیقت ماضی میں غلطیاں دونوں اطراف سے ہوئی ہیں،کسی ایک کو بھی صد فیصد قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن آج کی صورتحال میں دیکھا جائے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اور مقتدرہ حلقے باہم مل کر درپیش مسائل کا حل تلاش کرتے تا کہ ملک کی سمت ،حفاظت بہتر طریقے سے ہو سکتی لیکن بدقسمتی سے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاستدان اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔حکمران خاندان نہ صرف ’’سیاسی شہادت ‘‘کا متمنی ہے بلکہ کسی بھی صورت پانامہ و اقامہ سے گلو خلاصی چاہتا ہے اور اس ضمن میں اپنے پیروکاروں کے ذریعے (گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت جیسے مؤقف کے ذریعے )گمراہ کن مہم چلا رہا ہے،جس کی بنیاد غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی ہے۔
پاکستان کے مقتدرہ حلقوں نے ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھا ہے یا نہیں مگر موجودہ عالمی دباؤ کے تحت انہوں نے ان غیر ریاستی عناصر کی سرکوبی جانوں کا نذرانہ دے کر کی ہے لیکن یہاں ایک سوال ضرور ہے کہ کیا عالمی طاقتوں یا ان کے زیر سایہ اسرائیل و ہندوستان کے غیر ریاستی عناصر ریاستی مفادات کے حصول میں سرگرم نہیں ہیں؟پاکستان کا وہ لبرل طبقہ جو اس ہرزہ سرائی سے شدید متاثر نظر آتا ہے،کیا انہیں بلیک واٹر،زی واٹراور راشٹریہ سیوک سنگھ یا ہند توا کے غیر ریاستی عناصر نظر نہیں آتے؟ کیا انہیں اسرائیل و ہندوستان کی غاصب فوج کی ظالمانہ کارروائیاں نظر نہیں آتی؟کیا وہ روہنگیا میں ہونے والے ظلم و ستم و بربریت کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟یہ سب کیا ریاستی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے غیر ریاستی عناصر نہیں ہیں؟ نئے وزیر خارجہ پاکستان نے موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے نہ صرف وزارت خارجہ کے افسران سے ملاقات کرکے بریفنگ حاصل کی اور اس کی بنیاد پر عالمی دنیا کے سامنے ایک ایسا مؤقف پیش کیاجو بظاہر پاکستانی لبرلز، موم بتی مافیا اور فوج مخالفوں کے لئے ہی باعث مسرت نہیں بلکہ عالمی طاقتوں،روایتی دشمنوں کے لئے بھی باعث اطمینان ہے کہ یہ وہی مؤقف ہے جس کا اظہار وہ اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیںاور عین اندھا کیا چاہے ،دو آنکھیں یا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی بات ہے۔ بحیثیت انسان اور پاکستانی میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ کسی دوسرے پر حاوی ہونے سے پہلے خود کو ٹھیک کرنا چاہئے لیکن اس کی نیت اور سمت اگر درست نہ ہو تو اس کا فائدہ دشمن اٹھاتے ہیں اور وزیر خارجہ کے اس مؤقف میںیہی قباحت ہے۔
وزیر خارجہ نے وہ تمام کاوشیں جو پاکستان نے کی جو بھاری بھرکم نقصانات اٹھائے جو سماجی و تہذیبی تخریب کاری برداشت کی جو جانی قربانیاں دی،انہیں کلی طور پر صرف نظر کردیا،ایسا کیوں ہوا؟ایک طرف سپہ سالار عالمی طاقتوں سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں، پاکستان کے دوست ’’چین اور روس‘‘ نے عالمی سطح پر پاکستان کی قربانیوں کا برملا اور ٹھوک کر اظہار کیا ہے،ایسے میں آبیل مجھے مار والے اس مؤقف کی کیا تک ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس وقت لٹیرے حکمرانوں کو خود ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے،ان کی بے لگام خواہشیں،مادر پدر آزادی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا عملی اظہار آپریشن ضرب عضب کے مابعد اثرات پر کارروائی کا نہ ہوناہے جو صد فیصد حکمرانوںکی ذمہ داری تھی کہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانے تباہ ہونے کے بعد فوری سیاسی عمل شروع کیا جاتا،عوام کو اعتماد میں لیا جاتا جبکہ حکمران شروع میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے میں بھی متامل رہے مگر کامیابی کے بعد اس کا سہرا اپنے سر سجانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔
ہندوستان نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا اور اس کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کی آزادی و خودمختاری پرکاری ضرب لگائی جائے (جیسا وہ مشرقی پاکستان میں کر چکا ہے،جس کا ببانگ دہل اعتراف انتہا پسند مودی بنگلہ دیش میں کر چکے ہیں)اس مقصد کی خاطر چاروں طرف سے پاکستان کے خلاف گھیرا ڈالا جا رہا ہے،افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے تو ایران کو پاکستان سے متنفر کیا جا چکا ہے(جس کا سد باب کرنا سول حکومت کے دائرہ کار میں آتاہے مگر سول حکومت اس میں ناکام رہی ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اپنی سالمیت برقرا رکھنے کی خاطر فوج نا گزیر ہے اور پاکستانی فوج کا مزاج اور تربیت بنیادی طور پرروایتی حریف ہندوستان کو مد نظر رکھ کر ہوئی ہے اور بالخصوص دو ممالک کے درمیان موجود تنازع کشمیر وہ اہم ترین قضیہ ہے ،جس نے اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کا مستقبل داؤ پر لگا رکھا ہے جبکہ یہ بیانیہ درپردہ ہندوستان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کی خاطر آئے روز پاکستان سے ڈو مور کے مطالبے کرتا رہتا ہے،پاکستانی معیشت کو بری طرح برباد کرکے،اس کی اشرافیہ کو اقتدار اور دوام اقتدار کا لالچ دے کر، جانتے بوجھتے کہ دی جانے والی امداد یا قرض کا اصل مصرف عوام یا پاکستان نہیں بلکہ اشرافیہ ،افسر شاہی اور ان ٹھیکیداروں کی تجوریاں رہیں جبکہ ریاست پاکستان اور اس کے غریب عوام مقروض تر ہوتے گئے۔ وزیر خارجہ کے اس نئے مؤقف کے بعد،ریاست پاکستان کے دو مؤقف سامنے آ چکے ہیں ،ریاست پاکستان کے دوست اور عوام شش وپنج میں ہیں کہ کس مؤقف کی حمایت کی جائے ،کس مؤقف کو ریاست کا مؤقف تسلیم کیا جائے؟ میرے نزدیک (سول حکومتوں کی سابقہ کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے)یہ حکومت کا لائحہ عمل ہے کہ ہمیشہ کی طرح معاملے کو الجھا دیاجائے،غبارپیدا کیاجائے،عوام کو اشرافیہ کے ذاتی اثاثوں کے معاملات سے ہٹا دیا جائے اور اتنا الجھاؤ پیدا کر دیا جائے کہ نہ کسی کو سمجھ آئے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟وزیر خارجہ ،ان کے رفقاء اور پیروکار اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں مگر ذرا سوچئے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت جب ایسے شخص سے ملاقاتیں کرے جو ببانگ دہل ہندوستان اور اسرائیل سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کر چکا ہو،پاکستان کے خلاف ہذیان بک چکا ہو،کیا ایسے سیاستدانوں یا حکمرانوں کا مؤقف ملکی مفادات کا تحفظ ہو سکتا ہے؟کیا ایسے حکمران پاکستان کے ہمدرد ہو سکتے ہیں؟کیا ایسے سیاست دان جو اس ملک میں صرف اس وقت آتے ہیں،جب انہیں اس ملک پر حکومت کرنی ہو اور باقی وقت دبئی،لندن یا امریکہ گزارتے ہیں،وہ ریاست پاکستان کے مفادات کا کماحقہ ادراک اور فہم رکھتے ہوں گے؟ریاست پاکستان کو درپیش خطرات میں کون سا بیانیہ ریاست کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے؟ بحیثیت پاکستانی ہمارا فیصلہ ہے ریاست پاکستان کا بیانیہ وہی ہے جو اس ملک کی حفاظت میں جانوں کے نذرانے دے کر اس کی بقا ء و سالمیت کو قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں،کا بیانیہ ہے،اپنا گھر وہ ٹھیک کریں جنہیں اس کی ضرورت ہے۔

شیئر: