اہم رشتے، فولاد سے زیادہ مضبوط،شیشے سے زیادہ نازک
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
رشتے ناتے قابل احترام اور بہت نازک ہوتے ہیں۔ خاص کر سسرالی رشتے تو بہت ہی نازک ہوتے ہیں جو بہت ہی سمجھداری کے دھاگوں میںپروئے جائیں تو ان کے تقدس میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ان تمام رشتوں میں ماں باپ بھائی بہن کے رشتے تو بہت ہی محبت والے اور قابل احترام رشتے ہوتے ہیں۔ جب بیٹی سسرال جاتی ہے تو اس کے لئے تمام رشتوں کو اہمیت دینا لازمی ہوتا ہے تا کہ وہاں اس کی بھی عزت ہو سکے۔
بیٹی اور بابل کے تعلق کی مثال تو کچھ یوں ہے کہ یہ سدا بہار پھولوں کی طرح ہوتا ہے جو ہمیشہ تروتازہ ہی رہتاہے ۔ خواہ کتنی ہی عمر کیوں نہ بیت جائے، حالات کتنی ہی کروٹیں کیوں نہ لے لیں، اس رشتے کی تازگی میںکمی نہیں ہوتی بلکہ شادابی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بیٹے کی شادی کے بعد بیوی اور بچے زیادہ اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں لیکن بیٹی کو ہر لمحے اپنے والدین کی فکر ستائے رکھتی ہے۔ اپنے میکے کے لئے وہ ہر لمحہ دعا گو ہی رہتی ہے۔ الغرض بیٹیوں کے لئے میکا ایک ایسی میراث ہوتا ہے جس سے دستبرداری انہیں کسی صورت قبول نہیں ہوتی۔ بیٹی کے لئے میکے کے آنگن سے وابستہ یادیں ان مٹ ہوتی ہیں جو بیٹی کے ذہن میں سیپ کے موتیوں کی طرح دمکتی رہتی ہیں۔ جہاں کھیلتے کودتے اس نے اپنا بچپن گزار ا،جہاں اس نے اپنے بچپن کے بے لوث اور معصوم لمحات گزارے ،جہاں اس نے برستی بارش کے قطروں میں اپنے بابل کے آنگن میں بھیگتے اورخوشی سے چیختے چلاتے ہوئے،ان حَسین یادوں کو اپنی مٹھی میں قید کیا اور انہیں اپنے ساتھ لے کر وہ پیا دیس سدھار گئی ۔
قدرت کا بھی کیسا نظام ہے۔ وہ والدین جو بیٹی کے لئے دل و جان نچھاور کرتے ہیں، ان کا گھر چھوڑ کر بیٹی کو ایک دن پرائے گھر جانا ہوتا ہے۔ ابھی تک والدین اپنی بیٹی کی محبت و شفقت اور اس کی من موہنی صورت تکتے تکتے ان کی آنکھیں سیراب بھی نہیں ہو پاتیں کہ وہ بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیتی ہے ۔ والدین کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے رشتے آنے لگتے ہیں۔ والدین اپنے آپ کو یہ سوچ کر مطمئن کر لیتے ہیں کہ ہر بیٹی کو بالآخر ایک نہ ایک دن ممتا کی چھاوں چھوڑ کر سسرال کی دہلیز تک جانا پڑتا ہے۔ یہی رسم دنیا ہے۔ عورت ہی وہ ذات ہے جو چاہے تو گھر کو جنت ارضی بنا دے اور چاہے تو جہنم بنا کر رکھ دے ۔گھر میں امن و سکون اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب رشتوں کا احترام ہو۔ گھر میں عفو و درگزر کا راج ہو، ورنہ گھر گھر نہیں رہتا بلکہ کسی جنگل کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی تعلقات کی سب سے بڑی حقیقت اس کی نزاکت، ناپائداری اور کمزوری ہے تاہم بعض رشتے فولاد سے زیادہ مضبوط اورشیشے سے زیادہ نازک ہوتے ہیں جوذرا سی بات پر ایک جھماکے سے چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔یہی زندگی کی فطرت ہے۔ ہر رشتہ اپنی جگہ عزت و احترام مانگتا ہے۔ ساس اور سسر کو چاہئے کہ اپنی بہو کو بیٹی جیسی محبت دیں۔ اس کی بھی ویسے ہی خاطر داریاں کریں جیسے اپنی بیٹی کی کیا کرتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجائی جاتی ہے۔
ذرا سوچئے کہ ایک اجنبی لڑکی اپنا گھر، اپنے والدین او ربہن بھائیوں کو چھوڑ کر آپ کے گھر آئی ہے ، اس بہو کو اتنا پیار دیں کہ اس کو والدین کی یاد نہ آئے۔ اس طرح یہ پرائی لڑکی ، آپ کو اپنا بنانے میں ذرا بھی دیر نہیں کرے گی۔ ساس سسر اگر عقل مندی سے کام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ گھرجنت کا نمونہ نہ بنے۔
ب