Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سچ بولو

پاکستانی کھابوں کا دنیا میں کوئی بدل نہیں اور فوڈ اسٹریٹ کا کلچر صرف پاکستان میں ہی افزائش پار ہا ہے
* * * جاوید اقبال* * *
اگر ہندوستان کی وزیرخارجہ شریمتی سشما سوراج کبھی اپنے والدین شری ہردیو شرما اور شریمتی لکشمی دیوی کی جنم بھومی دھرمپورہ لاہور دورے پر آنے کا فیصلہ کرلیں او راپنے آبائی مکان میں چند لمحات بسر کرنے کی خواہش کا اظہار کریں تو انہیں اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان نہ صرف انہیں ویزے کا اجراء کریگی بلکہ انکی راہوں میں پلکیں بچھا کر انہیں لاہور کا ہر گوشہ بھی دکھائیگی۔ گو سشما سوراج کا جنم 14فروری 1952ء کو ہندوستانی پنجاب میں ہوا تھا لیکن گمان غالب ہے کہ ابھی تک انکے بدن میں والدین کی طرف سے ودیعت کردہ وہ لاہوری نمک ضرور موجود ہوگا جس کی تڑپ انہیں دھرمپورہ کے صدیوں پرانے کوچوں میں کھینچ لائیگی۔
تب میں ان سے ایک درخواست کروں گا۔ دھرمپورہ سے نکل کر وہ نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کرتی مال روڈ پر آجائیں اور پھر دائیں ہاتھ مڑ کر اس تاریخی سڑک پر واقع گورنر ہاؤس ، اسمبلی ہال، عدالت عالیہ اورڈاکخانے کے سامنے سے گزرتی آگے انارکلی کے پرانے بازار میں بائیں ہاتھ مڑ جائیں۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہ وہی اسمبلی ہال ہے جس کی سیڑھیوں پر سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے مارچ 1947ء میں اپنی نیام میں سے کرپان نکال کر ہوا میں لہراتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کبھی بننے نہیں دے گا اور پنجاب کے اوپر سے خون کی نہر گزرنا شروع ہوئی تھی۔ 50لاکھ لاشوں نے واہگہ کی مستقل سرحد کھینچی تھی۔ آج بھی غروب آفتاب پر جب وہاں رینجرز کے جوان پرچم اتارتے ہیں تو انہی شہداء کا خون شفق میں جھلکتا وطن کیلئے دعا گو ہوتا ہے اور وہاں اسی مال روڈ پر کھڑی عدالت عالیہ میں کبھی سشما سوراج کے والد ہردیو شرما ایک اعلیٰ پائے کے وکیل تھے۔ تو پھر بائیں ہاتھ مڑ کر ہماری معزز مہمان شہر کی معروف فوڈ اسٹریٹ میں داخل ہوں اور کھانوں کی اشتہا انگیز مہک میں سے راستہ بناتی بالآخر کسی ایک جگہ کا انتخاب کر کے نشست سنبھال لیں۔
ان کے دائیں بائیں دیسی گھی او رمکھن کے تڑکے میں سلگتے ، پھُنتے درجنوں اقسام کے کھانے ان پر واضح کر دیں گے کہ پاکستانی کھابوں کا دنیا میں کوئی بدل نہیں اور فوڈ اسٹریٹ کا کلچر صرف پاکستان میں ہی افزائش پار ہا ہے۔ 23ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سشما سوراج کے خطاب نے ہر حقیقت شناس کو ششدر کر دیا۔ ا ن کی تقریباً 20منٹ کی تقریر میں 15منٹ پاکستان پر حملہ کرنے میں بسر ہوئے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور حفظان صحت کے ادارے قائم کر کے اپنے عوام کو زندگی کے اعلیٰ معیار سے روشناس کرا دیا ہے جبکہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن کر افلاس کی گہرائیوں میں گرتا جا رہا ہے۔ کل شام میں نے کچھ حقائق جمع کئے۔
مسلمانوں کی مساجد کو نذآتش کرنے اور گائے کے ذبیحہ پر انہیں سرعام موت کے منہ میں سلادینے والی دنیا کی اس مبینہ سب سے بڑی جمہوریت کے بارے میں سچ لکھنا بھی ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ عالمی بینک کے دئیے گئے حقائق کے مطابق ایک ارب 20کروڑ آبادی کے ساتھ ہندوستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس میں 67فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار نے کا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر ممبئی ہے جس کی 2کروڑ 20لاکھ آبادی کا 77فیصد شکستگی کی شکار جھونپڑیوں میں شب بسری کرتا ہے۔ ان لوگو ں کو صاف پانی ، بجلی اور حمام کی سہولتیں بھی میسر نہیں ۔ 20فیصد بچے مدارس نہیں جا سکتے جبکہ جنسی تعصب کی انتہا ہے کہ بچیوں کو تعلیم کی سہولیات ہی نہیں مہیا کی جاتیں۔ ان آبادیوں میں 90فیصد عورتیں غیر تعلیم یافتہ ہیں۔
مناسب نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے یتیم اور لاوارث بچے گلیوں میں جرم کا ہدف بنتے ہیں اور پھر مجرم بن جاتے ہیں۔ ایسے 2کروڑ نوخیز ملک کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ صدیوں سے ایک بلا کی طرح معاشرے پر تباہ کن اثرات ڈالتا ذات پات کا نظام ہے جو غیر برہمنوں ، مسلمانوں او ردلتوں کو انسانیت کا درجہ تک نہیں دیتا۔ کرہ ارض پر ہندوستان واحد ملک ہے جہاں جنس کا تعین ہو جانے پر بچیوں کو رحم مادر میں ہی مار دیا جاتا ہے۔ برٹش میڈیکل جنرل کے مطابق گزشتہ 3دہائیوں میں ایک کروڑ 20لاکھ بچیوں کے حمل ہندوستان میں گرائے گئے ۔
نومولود بچوں کی اموات بھی ہندوستان میں سب سے زیادہ ہیں۔ ہر سال 20لاکھ نومولود بیمار ہو کر مرتے ہیں جنہیں مناسب علاج سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہر ایک ہزار میں 63بچے ناکافی علاج کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں خط غربت ایک ڈالر 90سینٹ ہے جو کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق انتہائی بدحالی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان نادار لوگوںکا 60فیصد بہار، جھاڑ کھنڈ، اوڈیشہ، مدھیہ پردیش ، اترپردیش اور اترکھنڈ میں رہائش پذیر ہے۔ سشما سوراج نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہندوستان میں طب کا معیار انتہائی اعلیٰ ہے۔ کاش وہ یہ ذکر بھی کر دیتیں کہ ایڈز کا مرض ان کے ملک میں ایک وباء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آج ہندوستان میں 57 لاکھ ایڈز کے مریض ہیں جن میں 37فیصد خواتین ہیں۔ 60ہزار بچے اس مرض کے مثبت اثرات رکھتے ہیں جبکہ 20کروڑ لوگ اس میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
میں سشما سوراج سے یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستانی مسائل ہندوستان کے پیدا کردہ ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اگر ہندوستان انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پہلے نمبر پر ہے تو پھر عرفہ کریم پاکستان میں کیوں پیدا ہوتی ہے؟اگر ہندوستان میں تعلیم کا معیار اعلیٰ ہے تو پھر یورپی اور امریکی امتحانات میں پاکستانی بچے اور بچیاں کیوں عالمی سطح پر نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہندوستان نے صحت کے میدان میں خاصی تحقیق کر لی ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ دنیا بھر میں پاکستانی ا طباء کی ہی دھوم ہے؟ سشما سوراج جانتی ہیں کہ ان کا ملک پاکستان دشمنی میں اخلاقیات کی ہر حد پھلانگ رہا ہے۔ راجگال وادی میں پھولوں جیسے حسین مہکتے خواب آنکھوں میں سجائے 22سالہ پاکستانی لیفٹیننٹ ارسلان عالم کے سینے پر چلنے والی گولی ہندوستان ساختہ ہی تھی۔ یقین نہ آئے تو امریکی وزیرخارجہ کا حالیہ بیان سن لیں۔ زبانِ خلق کو نقارہ ٔخدا سمجھو تو …یوں ہے کہ جب سبزی خور شریمتی سشما سوراج انارکلی کی فوڈ اسٹریٹ میں فیصل آباد کی نیلی بار بھینس کے مکھن کے تڑکے والاسرسوں کا ساگ یا باجرے یا مکئی سے دیسی گھی سے بنائے پراٹھے کے ساتھ کھا رہی ہوں گی تو ہم ان سے صرف ایک التماس ہی کریں گے ،صرف یہ ایک درخواست کریں گے کہ وہ سچ پولیں اور اپنے کہے پر عمل کریں۔ پاک و ہند کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

شیئر: