* * * * * * *
جس واقعۂ ہجرت نے تاریخ ِاسلام کا دھارا موڑ کر رکھ دیا ،اس موقعہ پر صحابہ کرامؓ نے کیا کیا قربانیاں دیں ؟ان کی تفصیلات بڑی ہی ایمان افروز ہیں مگر کس کس کا کیا کیا واقعہ ذکر کریں،اُن فرشتہ صورت انسانوں نے جب ’’لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ پڑھ لیا تو پھر اپنی دولت وجائداد اور احباب و اولاد تو کیا ،اپنی جانیں بھی نبی کے قدموں پر نچھاور کردیں۔وہ آپ کے اشارئہ ابرو پر اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہو جاتے تھے،وہ اپنی اُنہی قربانیوں ،یادِ الٰہی میں شب بیداریوں اور اتباع و حبِّ رسول کی بدولت ہی بلند درجات پر فائز ہوئے ۔ ہم یہاں مجموعی طور پر ’’مقام ِ صحابیت اور شان ِصحابہؓ ‘‘ کے بارے میں کچھ آیات اور چند احادیث ِرسول پیش کرنے پرہی اکتفا کر رہے ہیں چنانچہ ہر وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم کا دیدار کیا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ بھی ہوا ،ایسے سعادتمند انسان کو ’’صحابی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ شرف ِ صحابیت اتنا بلند مقام ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی بہت ہی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ارشاد ِ الٰہی ہے ’’مہاجرین و انصار(صحابہؓ) میں سے سب سے پہلے (اسلام کی طرف) سبقت حاصل کرنے والے اور وہ لوگ جو خلوص کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے ،اور (اللہ تعالیٰ نے)ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ایک عظیم کامیابی ہے ‘‘ (الفتح5) سورہ الفتح کا کثیر حصہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہے۔ایک اورجگہ ارشادِ الٰہی ہے ’’ہم نے آپ کو فتحِ مبین عطا فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے پہلے اور پچھلے تمام گناہوں کو بخش دے اور آپ پر اپنی نعمت کو مکمل کردے اور صراط ِ مستقیم کی ہدایت سے نوازے ‘‘(الفتح1،2)
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت قتادہ ؓسے اور مسند احمد میں حضرت انسؓسے مروی ہے کہ جب نبی پر اس آیت کا نزول ہوا تو آپ نے فرمایا ’’آج رات مجھ پر وہ آیت نازل ہوئی ہے جو میرے لئے رُوئے زمین کی تمام دولت سے بھی زیادہ محبوب و عزیز ہے ‘‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی تو آپ کو صحابہ کرامؓ نے مبار کبادیں دیںاور ساتھ ہی پو چھا کہ یہ تو آپ کے لئے ہے، ہمارے لئے کیا ہے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح کی آیت5نازل کرکے فرمایا ’’تاکہ اللہ تعالیٰ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،اور اُن کے گناہوں کو ختم کرے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عظیم کامیابی ہے ‘‘ ذو القعدہ 6ھ میں مقامِ حدیبیہ پر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ قریش ِ مکہ نے نبی کے قاصد حضرت عثمان ِغنیؓ کو شہید کردیا ہے تو ان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے نبی نے اپنے ساتھ آنے والے14 سو صحابہؓ سے بیعت رضوان لی ،اُس بیعت میںشرکت کرنے والے صحابہؓ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورہ الفتح کی آیت18میں فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ان ایمان والے (صحابہؓ ) سے راضی ہوگیا جو (ببول کے ) درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے‘‘اور اسی بیعت ِ رضوان میں شرکت کرنے والے صحابہؓ کے بارے میں صحیح مسلم ،ابو داؤد ، ترمذی اور مسند احمد میں ارشاد ِ نبوی ہے’’اُن صحابہ میں سے کوئی ایک شخص بھی نارِ جہنم میں(ہرگز) داخل نہ ہوگا ، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ‘‘(مسلم)
اگر صرف انہی آیات پر غور کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اتنے بلند مرتبہ اور سعادتمند اولیاء اللہ ،صحابۂ رسول کے ساتھ بغض و کینہ رکھنا ،انہیں برا بھلا کہنا اور لعن طعن کرنا کتنا برا فعل ہے جبکہ مزید برآں صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث ِقدسی میں ارشاد ِ الٰہی ہے ’’جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے لئے میری طرف سے اعلان ِ جنگ ہے‘‘ اور صحابہ کرامؓ سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟ صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی یوںہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرامؓ کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے۔
امام ابن ِ تیمیہ ؒ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں نقل کیا ہے’’فقہائے کوفہ نے صحابہؓ کو گالی دینے والے کو قتل کرنے اور رافضہ کو کافر قرار دینے کا قطعی فتویٰ دیا ہے‘‘ محمد بن یوسف فریابی سے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کوگالی دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’وہ کافر ہے ، اسکا جنازہ نہیں پڑھا جا ئے گا ، نہ ہاتھ لگایا جائے گا بلکہ اسے کسی لکڑی کے ذریعے گڑھے میں ڈال کر بند کردیا جائے گا‘‘ قاضی ابو یعلیٰ نے کہا ہے ’’ فقہاء کے نزدیک جو شخص حلال سمجھ کر صحابہ کو گالی دے وہ کافر ہے اور جو حلال تو نہ سمجھے مگر گالی دے ،وہ فاسق ہے‘‘ اور اپنافیصلہ دیتے ہوئے امام ابن ِ تیمیہ ؒ لکھتے ہیں ’’جو شخص حضرت علیؓ کو الٰہ یا نبی سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ حضرت جبرائیل ؑ غلطی سے وحی ورسالت نبی کو دے گئے تھے اور صحابہ کو گالی دے ،وہ کافر ہے اور اسے کافر کہنے میں توقف کرنے والا بھی کافر ہے اور جو شخص قرآن ِکریم کو ناقص قرار دے یا باطنی تاویلات کا زعم رکھے جیسا کہ قرامطہ ، باطنیہ اور تناسخیہ کا خیال ہے تو وہ بھی کافر ہے ، جو شخص صحابہ پر بخل ، بزدلی ، کم علمی اور عدم ِ زہد کا الزام لگائے وہ کافر تو قرار نہیں دیا جائے گا مگر وہ سزا وار ِ تعزیر ہے ۔مطلق لعن طعن کرنے والوں میں سے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی کی وفات کے بعد 10،15 صحابہؓ کے سوا باقی سب مرتد یا فاسق ہوگئے تھے ،وہ بھی کافر ہے اور ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافرہے ۔الغرض گالی دینے والوں میں سے کچھ صاف کافر ہیں اور بعض کے کفر میں تردّد کیا گیا ہے اور بعض پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ‘‘(الصارم المسلول)
صحابہ کرامؓ کے لئے یہی شرف کیا کم ہے کہ انہوں نے حا لت ِ ایمان واسلام میں نبی آخر الزمان کے رُخ ِانور کو دیکھنے کی سعادت حاصل کی۔وہ چہرئہ انور ،رخ ِ زیبا کہ جس کا ایمان کی حالت میں دیکھ لینا فوز و فلاح اور فتح و نصرت کا ضامن ہے ۔ بخاری و مسلم میں ارشاد ِ نبوی ہے’’ لوگوں پر وہ زمانہ بھی آئے گا ،جب مسلمانوں کی ایک جماعت (کسی قوم پر) حملہ آور ہوگی ، وہ کہیں گے:کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے ،جس نے نبی کو دیکھا ہو ؟‘‘ وہ کہیں گے: ہاں ، تو انہیں صرف اتنی سی بات پر فتح حاصل ہوجائے گی ، پھر وہ دَور آئے گا کہ غازی جماعت سے پوچھا جائے گا :کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے کسی صحابی ٔ رسول کو دیکھاہو؟وہ کہیں گے :ہاں ، تو انہیں بھی فتح حاصل ہوجائے گی اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ غازیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے کسی تابعی کو دیکھا ہو ؟ جب وہ کہیں گے :ہاں ،تو انہیں بھی فتح نصیب ہو جائے گی ‘‘(بخاری) مسلم شریف میں تو یہاں تک ہے کہ ’’چوتھی جماعت سے پوچھا جائے گا : تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے تبع تابعین(جنہوں نے تابعین کو دیکھا ) میں سے کسی کو دیکھا ہو ؟‘‘ تو اس جماعت میں ایسا ایک آدمی مل جائے گا اور انہیں بھی فتح حاصل ہوجائے گی‘‘ (مسلم) قدسی نفوس صحابہ کرام ؓکے بارے میں صحیح بخاری و مسلم میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ( صحابہ کرام ؓ)ہیں ،پھر وہ لوگ جو ان کے بعد والے( تابعین) ہیں ،پھر وہ لوگ جو ان کے بعد والے(تبع تابعین) ہیں ۔ (بخاری)
ترمذی، نسائی ،ابن ماجہ ، ابن حبان، مسند احمد اور مستدرک حاکم میں اسی مفہوم کی ایک اور حدیث ہے جس کے ابتدائی کلمات میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’میرے صحابہ کا احترام و اکرام کیا کروکیونکہ وہ تم سب سے بہتر لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد والے(تابعین ) ہیں اور پھر وہ لوگ جو اُن کے بعد والے(تبع تابعین) ہیں، ان کے بعد پھر جھوٹ عام ہوجائیگا ‘‘