Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بند قبا

سوشل میڈیا بڑا ستمگر ہے، آج کے گوئبلز کوایک قدم زندہ رہنے نہیں دیتا
* * * جاوید اقبال* * *
1933ء سے 1945ء تک ایڈولف ہٹلر کا انتہائی قابل اعتماد پروپیگنڈہ منسٹر رہنے والا پال جوزف گوئبلز اگر آج زندہ ہوتا اور اپنی انہی عاداتِ زشت کے ساتھ کسی نازی نما حکومت کی تعریف میں رطب اللسان ہونے کی کوشش کرتا تو عالمی ذرائع ابلاغ پلک جھپکنے میں اس کا چھلکااتارتے اور اسکی چرب زبانی اور دروغ گوئی کا بھانڈا پھوڑ دیتے، کرہ ارض کے ہر کونے کھدرے سے حقائق انبار کئے نکلتے اور گوئبلز کی افواہ ساز مشین کو ناکارہ کرتے چلے جاتے ۔
کچھ ایسا ہی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہوتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پرسکون خنک ماحول میں ہندوستان کی وزیرخارجہ شریمتی سشما سوراج نے بڑے نپے تلے انداز میں اپنے خطاب کی گونج اٹھائی ۔ موصوفہ اپنے کالج کے زمانے میں ہندی کی بہترین مقررہ رہی تھیں۔ ان کی آواز کا زیر وبم سحرانگیز تھا۔ الفاظ کا چناؤ قابل ستائش تھا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک قرار دیکر واضح کیا کہ چونکہ ہندوستان دہشتگردوں کی پرورش نہیں کرتا اور پر امن رہ کر سائنسی علوم میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اسلئے اسکا معاشرہ روز بروز ترقی کر رہا ہے، تو پھر میں نے گزشتہ ہفتے کا کالم درجوابِ آں غزل لکھا تھا۔ پھر آج کے بیدار سوشل میڈیانے مزید حقائق اگلنا شروع کئے ۔ جنرل اسمبلی کے ایوان میں چلنے والی پروپیگنڈہ مشین جو کچھ اگل گئی تھی انٹرنیٹ اور دیگر مختلف مقامات سے آئی معلومات نے اس مبینہ تاریخی خطابت کی تکذیب کر دی۔ ہندوستان کے "خوشحال"اور " مسرور"معاشرے پر پڑھنے کو بہت کچھ ملا۔ جگہ کی کمیابی کے باعث چند ایک حقائق کا انتخاب ہی کر سکا ہوں۔
کہا گیا کہ ہندوستان نے طب کے میدن میں حیرت انگیز پیشرفت کر لی ہے۔ نئے تحقیقی منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ملاوٹی ادویہ کی برآمدات میں ہندوستان پہلے نمبر پر ہے۔ غیر خالص ادویات کی 75فیصد مقدار ہندوستان سے بن کر نکلتی ہے۔ نئی دہلی کی حکومت انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر اپنے آپ کو عالمی برادری میں متعارف کراتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال 30لاکھ بچیوں کو پیدائش کے فوراً بعد ہی مار دیا جاتا ہے۔ 1961ء میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 976بچیاں تھیں جبکہ منظم دختر کشی سے یہ تعداد گھٹ کر 914رہ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایک بچی کی پیدا ئش کیلئے کرہ ٔارض پر خطرناک ترین جگہ ہندوستان ہے۔ وہاں 5برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بچی کے زندگی کی بازی ہارنے کے خطرات 2گنا زیادہ ہیں۔
یہ بھی بڑے اچھنبے کی بات ہے۔ جنرل اسمبلی کے خطابت میں بڑا واضح اعلان کیا کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تحقیق نے ہندوستان کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ حقیقت وحشت ناک ہے۔ کرہ ارض پر خودکشیوں کی شرح سب سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔ سالانہ 7ہزار 600کے لگ بھگ کسان ناداری اور عسرت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی جانیں خود لے لیتے ہیں۔ پھر ایک اور دلخراش حقیقت ! دنیا بھر کے عصمت دری کے ایک تہائی جرائم ہندوستان میں ہوتے ہیں جبکہ کرہ ارض پر ہونے والے انسان کشی کے جرائم کا نصف بھی ہندوستان میں ہی کئے جاتے ہیں۔ 24.7فیصد ہندوستانی آبادی روزانہ سوا ڈالر کی اجرت وصول کرتی ہے جبکہ 60.6فیصد روزانہ 2ڈالر تک کما پاتی ہے۔ افلاس نے آبادی کا لہو یوں نچوڑ لیا ہے کہ آج دنیا کے 80کروڑ ناکافی خوارک ملنے کے باعث نحیف انسانوں کا 40فیصد ہندوستان میں آباد ہے۔ اس ملک کا 17فیصد قلت ِخوراک کا شکار ہے۔ عظمت انسان اور حریتِ فکر کا راگ الاپنے والے شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے ملک ہندوستان میں آج غلاموں کی سب سے بڑی تعداد زندگی کی تہمت لئے جی رہی ہے۔
ایک کروڑ 40لاکھ ہندوستانی آج کرہ ارض پر آباد اس مجبور اور مقہور آبادی کا 40فیصد ہیں۔ ہندوستانی صحت پر جاری تحقیق اور حفظان صحت میں ہوئی پیشرفت کا ڈھول پیٹنے والوں کو یہ تلخ حقیقت بھی معلوم ہونی چاہئے کہ بیت الخلاء کی سہولیات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے 59کروڑ 70لاکھ لوگ کھلی ہوا میں نالیوں میں رفعِ حاجت کرتے ہیںجو کہ قومی آبادی کا 45فیصد سے بھی زیادہ ہے… اور ہاں ایک اور نشتر ! ہندوستان دنیا کا دوسرے نمبر پر نسل پرست ملک ہے۔ اس کی آبادی کا 43.5فیصد کسی دوسری نسل کے پڑوس میں رہائش اختیار کرنا پسند نہیں کرتا۔ اسکے برعکس پاکستان ایک قابل ستائش طور پر روادار ملک ہے جہاں صرف 6.5فیصد لوگ اپنے پڑوس پر اعتراض کرتے ہیں۔ اور اب سائنسی اور تحقیقی میدانوں میں فعال ہندوستان کے شہروںکا ذکر ہو جائے۔
عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق آج ہندوستان کرہ ارض پر آلودہ ترین ملک ہے۔ دہلی کی فضائی آلودگی بیجنگ سے 3گناہ بڑھ چکی ہے اور یہ روز افزوں آبادی صورتحال پر کسی طور قابو نہیں پانے دے رہی۔ یہاں میں نے کشمیر کے زعفران زاروں میں آئے روز ابھرتی حریت پسندوں کی قبروں کا ذکر نہیں کیا۔ خالصتان کی بات نہیں چلی۔ دیگر درجنوں علیحدگی پسند تحریکوں کی طرف بھی اشارہ نہیں ہوا۔ یہ تو اُن عناصر کی بات ہے جو معاشرتی ، اقتصادی اور ثقافتی سرطان بنے ہندوستانی معاشرے کی رگوں کو توڑ رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی کے خطاب میں ان کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟ وہ ذکر کیوں ہوا جو تھا ہی نہیں؟ آج کا سوشل میڈیا بڑا ستمگر ہے۔ آج کے گوئبلز کوایک قدم زندہ رہنے نہیں دیتا۔ اگر مجھے اس سارے تماشے پر ایک شعر پڑھنے کااختیار دیا جاتا تو میں پاکیٔ داماں کی حکایت گوشریمتی سشما سوراج کی خدمت میں صرف یہ ایک مصرعہ ہی عرض کرتا:
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ

شیئر: