قدریں بدل چکی ہیں ، اسی تبدیلی کانتیجہ ہے کہ’’ اچھے ‘‘آدمی پرہمیں اللہ کافضل نظرنہیں آتا، ’’بڑے‘‘میں نظر آتا ہے
** * صادق رضامصباحی۔ممبئی * * *
ایک دولت مندتاجرنے اپنے خزانے کے دروازے پر لکھوایا: ہذامن فضل ربی۔چورآیااورساراخزانہ لوٹ کرلے گیا مگر جاتے جاتے اسی جگہ یہ بھی لکھ گیا:ان اللہ مع الصابرین۔ یہ لطیفہ آپ نے ہزاروں بارسنااورپڑھاہوگامگراس لطیفے میں ایک بہت بڑاسبق پنہاں ہے اورایک بہت بڑی عبرت،بس تیسری آنکھ کھلی رکھنی ضروری ہے۔ہم جھوٹ اورظلم پرکھڑے ہوکردولت کماتے ہیں اورپھراس پراللہ کاشکراداکرتے نہیں تھکتے۔
ہم جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے میں طاق ہیں اور منافقت اورچاپلوسی کرنے میں ماہرمگرپھربھی ہم ’’مذہب ‘‘سے اپنے گہرے لگائوکے دعویدارہیں۔چوری ،فریب کاری اوردھوکہ دہی سے کمائی ہوئی دولت کوہم ’’اللہ کے فضل‘‘سے منسوب کردیتے ہیں اور دوسرے کے سامنے اس کافخریہ طورپراظہاربھی کرتے ہیں۔ایساکرتے ہوئے ہم پرایک لمحے کیلئے بھی خوف الٰہی طاری نہیں ہوتااورنہ ہی یہ احساس کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسی ڈھیلی کردی ہے اوروہ ہم کو آزما رہاہے۔ ترقی اورکامیابی کے حصول کیلئے سرپٹ دوڑنے والے ہم جیسے لوگوں کواس طرح کی باتیں سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہے لیکن یہاں ایک بات بالکل طے ہے کہ مادیت کی کیچڑمیں گلے گلے تک ڈوبے ہونے کے باوجودآج بھی ہمارے معاشرے میں للہیت اور اخلاص کی بوباس باقی ہے۔اس سے اندازہ لگتاہے کہ اللہ کے فضل سے ہماری مذہبی جڑیں ابھی تک صحیح سالم حالت میں ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ وہ انہدام کی شکارہیں اورہم انحطاط کے اسیرمگرآج بھی ہم کہیں نہ کہیں مذہبی ہیں گوکہ یہ مذہبیت شعورسے خالی ہے ،بے جان ہے ،بے روح ہے ،کھوکھلی ہے اور روایت کے دھاگے میں بندھی ہوئی ہمارے ہاتھوں میں آپہنچی ہے۔
روایت اوراقدار کی ایک بڑی اورسامنے کی مثال یہی ہے جس کاتذکرہ اوپرہوچکاہے۔ظاہرہے کہ اللہ کے فضل سے کسے انکارہوسکتاہے مگرکیااللہ کافضل ایسی دولت پر بھی ہو سکتاہے جو دونمبرسے کمائی گئی ہو اور بھائیوں،رشتے داروں اور کمزوروں کاحق مارکرکے حاصل کی گئی ہو؟ہماری بہت زیادہ شہرت ہوجائے اور ہمارے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہوجائیں اگرچہ یہ تعلقات چاپلوسی اورابن الوقتی پرمنحصرہوں مگراس میں بھی ہمیں ’’اللہ کافضل ہے‘‘ نظر آتاہے اوربڑے ’’فخریہ‘‘ طورپرنظرآتاہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جوصحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں،مخلص ہیں،کھرے ہیں،نکھرے ہیں،سچے اورپکے مسلمان ہیں ، عام طورپرایسے حضرات دولت اور شہرت وعظمت کی بلندیوں پرنہیں جاپاتے کیونکہ ان کے پاس وہ ’’ہنر‘‘اور’’صلاحیت ‘‘نہیں ہوتی جودولت مندوں کے پاس ہوتی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ’’ اللہ کافضل ہے‘‘کے مصداق دولت مند،شہرت کے حریص اور عظمت کے لالچی ہیں یا اچھے اورسچے لوگ ہیں؟اس کاجواب بالکل بدیہی ہے مگریہ کیسی اندھیرنگری چوپٹ راج ہے کہ ہم اللہ کے فضل کامستحق دولت مندوں اور مشہور لوگوں کوسمجھتے ہیں اوران کی طرف منہ کرکے ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوجانے میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔لاحول ولاقوۃ۔ ہمارے معاشرے کی مذہبیت چونکہ اس قدر کند ہو چکی ہے کہ اسے اللہ کافضل دولت مندوں اورشہرت وعظمت کے حریصوں میں نظرآتاہے اسی لئے قدریں بدل چکی ہیں اور اسی تبدیلی کانتیجہ ہے کہ’’ اچھے ‘‘آدمی پرہمیں اللہ کافضل نظرنہیں آتا، ’’بڑے‘‘میں نظر آتا ہے۔ دولت اورشہرت بالعموم ہمیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہے۔
اس اعتبارسے دیکھاجائے تواللہ کافضل درحقیقت ایسے سچے اورکھرے لوگوں پر ہے جواللہ کے مخلص بندے ہیں ،جورزقِ حلال کماتے ہیں ، جواپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کاحسبِ بساط خیال رکھتے ہیں اورجوکبھی بھی غیرقانونی ،غیرشرعی اور غیرفطری کام نہیں کرتے مگر ہمارے معاشرے میں الٹی ہی گنگابہہ رہی ہے اورہم اس ’’گنگا‘‘میں ’’ہاتھ دھونے‘‘ کوہی سب سے بڑا کمال ،سب سے بڑی عظمت اور’’اللہ کافضل‘‘سمجھتے ہیں اور جھوٹوں ، مکاروں، دغا بازوں،فریبیوں ، کور باطنوں اورستم گروں کواللہ کے فضل کامستحق گردانتے ہیں۔ معاشرے کے اس ’’مذہبی ‘‘منظرنامے میں اب ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کی فکری اصلاح کریں اور انہیں بتائیں کہ اللہ کے فضل کامطلب کیاہوتاہے اوراس کاحقیقی اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے۔عوام کوہمیں یہ بھی بتاناچاہیے کہ دور ِحاضر الفاظ کی توہین کازمانہ ہے ،الفاظ کی ذلت کازمانہ ہے اورالفاظ کے اغواکازمانہ ہے اس لئے لمبے چوڑے دعوؤں،لحیم وشحیم وعدوں اور بھاری بھرکم لفظوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔