قافلہ ’’صلہ رحمی‘‘ ہر طرح کی سیاست سے پاک قافلہ تھا، دلوں کو فتح کرنے والا، ایسے قافلوں کو فروغ دیں تاکہ اپنائیت بڑھے
* * * *عبد المالک مجاہد۔ریاض* * *
قارئین کرام کی خدمت میں22ستمبر کا تسلسل پیش ہے ۔ میرے تایا زاد بھائی مسعود احمد سپرا کی بیٹی کوثر کی شادی اپنے ماموں زاد عبدالکریم اثری صاحب کے بیٹے حکیم عبدالعظیم کے ساتھ ہوئی ہے۔ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ابھی تک اس کے گھر نہیں جا سکا تھا۔ کوئی 2سال قبل ایک دن میری بھتیجی کوثر کا فون آ گیا۔ کہنے لگی: چچا جان! میری شادی کو 18سال گزر چکے ہیں اور آپ ابھی تک میرے گھر نہیں آئے۔ میں نے اپنے سر کو جھکا لیا۔ ہاں بیٹی! واقعی میں نے آج تک تمہارا گھر نہیں دیکھا۔ تو پھر آپ کب میرے گھر آئینگے؟ اس کا سوال تھا۔ ان شاء اللہ بہت جلد میں آؤنگا اور پھر میں اولین فرصت میں کوثر کے گھر گیا۔ قارئین کرام! آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسے کتنی خوشی ہوئی ہو گی اور اس نے میرے لئے کیا کچھ نہیں بنا کر رکھا ہو گا۔ آج کل وہ اپنا گھر تعمیر کر رہی ہے۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ میں دن کی روشنی میں اس کا گھر دیکھوں، مگر اب رات کے 11 بج رہے تھے۔
آج وہ اپنے جیٹھ کے گھر اپنے چچا کا استقبال کر رہی تھی۔ بیٹیوں کو کتنا مان ہوتا ہے!! اس روز وہ فخر کر رہی تھی، وہ بڑی خوش تھی کہ آج میرے رشتہ دار میرے پیارے چچا میرے گھر آئے ہیں۔ محبتوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ میں نے جو کچھ سیکھا اور سمجھا ہے کہ رشتہ داریاں ملنے سے ہی جڑتی اور پروان چڑ ھتی ہیں۔ آج ہر شخص اپنے گھر میں بادشاہ ہے۔ ہر کوئی امیر ہے مگر ہر کوئی محبتوں اور چاہتوں کا محتاج ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے مخلص رشتہ دار ملیں جو اس کا دکھ سنیں اس کو بانٹیں، اسے مخلصانہ مشورہ دیں۔ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ پوری امانت داری سے مشورہ دے۔ آج امت کو محبت کرنے والے‘ اچھے مشورے دینے والے رشتہ داروں کی ضرورت ہے۔ یہاں میں اشارہ کر دوں کہ اللہ کے رسول پرآپ کے بعض قریبی رشتہ دار ایمان نہ لائے تھے، مگر جب مشکل وقت آیا تو سوائے ابو لہب کے آل ھاشم اور بنو مطلب کے تمام مردوں نے شعب ابی طالب میں آپ کا ساتھ دیا۔ وہاں 3 سال تک مشکل ترین وقت گزارا۔
میں اپنے قارئین کو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے گھروں میں ضرور جایا کریں، خواہ زندگی میں ایک بار ہی سہی۔ان کیلئے گفٹ لے کر جائیں۔ وہ آسودہ حالت میں ہوں، آپ کے گفٹ کی محتاج نہ ہوں تو بھی انہیں کوئی چیز ضرور گفٹ کریں۔ آپنے ارشاد فرمایا: ’’آپس میں تحائف کا تبادلہ کیا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے۔‘‘ بیٹیاں خوش ہوتی ہیں، عورت کو میکے کا بڑا مان ہوتا ہے اور فخر ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے خاندان کے بھائی اور بیٹیاں مدتوں اس قافلہ صلہ رحمی کو یاد رکھیں گے۔ وہ فخر کریں گے کہ ہمارے گھر میں فلاں فلاںاحباب آئے تھے۔ گجرات میں ہم نے رات کا کھانا کھایا، کچھ تحفے دیے، کچھ تحفے لئے۔ اس دوران بیٹیاں ‘ بیٹے ‘ پوتے پوتیاں نواسے ‘ نواسیاں سلام کرنے آ گئے۔ ان کے والدین بچوں کا تعارف کروا رہے ہیں۔ یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری بیٹی ہے۔ یہ فلاں کلاس میں پڑھتا ہے۔ اس نے اتنے نمبر لئے ہیں، یہ پوزیشن ہولڈر ہے۔ گھڑی رات کے 12بجا رہی تھی کہ ہم عبدالعلیم کے خوبصورت گھر سے الوداع ہو رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھر میں برکتیں نازل فرمائے،آمین۔
ان کی ساس صاحبہ اور محترم چچا ظہور الحسن کی اہلیہ پیرانہ سالی کے باوجود قافلہ کا سن کر لاہور سے خصوصی طور پر تشریف لائی تھیں۔ ایک دن میں چچا ظہور الحسن کے گھر گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرا بچپن کیلیانوالہ میں گزرا ہے۔ میری والدہ اور خالہ جان کے حوالے سے انہوںنے کتنی ہی باتیں سنائیں تو میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔ ہمارا رخ اب لاہور کی طرف تھا۔ قافلہ کے کتنے ہی شرکاء اب دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ بس اب تھک گئے ہیں، اب سیدھا لاہور چلنا ہے، مگر گکھڑ منڈی میں ہماری چچا زاد بہن اسماء بنت چچا عبدالستار ہمارے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ فون پر رابطہ تو تھا، اس سے معذرت کی گئی تو اس نے شدید احتجاج کیا: میں صبح سے آپ لوگوں کا انتظار کر رہی ہوں۔ ہمیں گکھڑ پہنچتے پہنچتے رات کا ایک بج جائے گا۔ تو پھر کیا ہے آپ نے ضرور آنا ہے، اس کا حکم تھا۔ ادھر میں نے بھی اپنا فیصلہ سنایا کہ بھئی جو صبح سے ہمارا انتظار کر رہی ہے جس نے ہمارے لئے اپنے گھر کو سنوارا اور سجایا ہے ،اس کا احتجاج برحق ہے۔
میں تو ضرور جاؤں گا۔ سارے نہ جائیں کوئی ضروری نہیں۔ رات کے ایک بجے اسماء کا جواں سال بیٹا جی ٹی روڑ پر قافلہ کا منتظر تھا۔ اس کی رہنمائی میں ہم اسماء بہن کے گھر داخل ہوئے تو اس کی چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھالیوں میں پھول لئے کھڑی تھیں۔ میں نے کہا: عبدالمالک! اگر تم نہ آتے تو ان بچیوں کے دل ٹوٹ جاتے۔ کتنی پیاری لگ رہی تھیں جب وہ ہم پر پھول نچھاور کر رہی تھیں۔ اسماء کا خاوند بسلسلہ روزگار جدہ میں مقیم ہے۔ ماشاء اللہ! ذاتی خوبصورت گھر‘ جواں سال بیٹا‘ میں پہلی مرتبہ اس کے گھر آیا تھا ۔ بتانے لگی: میں نے اپنے سسرال والوں اور محلہ داروں کو بتا رکھا ہے کہ میرے رشتہ دار میرے گھر آ رہے ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا: اب تو تمہارے ہمسائے سو رہے ہیں، ان کو کیسے معلوم ہو گا کہ ہم تمہارے گھر آئے ہیں؟ قارئین کرام! جب محبت ‘ پیار اور صلہ رحمی کی خوشبو پھیلتی ہے تو اس سے سبھی معطر ہوتے ہیں۔ رات کے ڈیڑھ بجے اسماء بہن ہمارے لئے آئس کریم پیالیوں میں ڈال رہی تھی۔ گکھڑ میں ہمارا یہ آج کا آخری اسٹیشن تھا۔ ہم نے 12مقامات پر رشتہ داروں کا وزٹ کیا۔
اس دوران سیکڑوں رشتہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ گلے ملے۔ اپنے نبی کے احکامات پر عمل کیا۔ صبح کے ساڑھے 3 بجا چاہتے تھے، جب میں اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ لاہور سکھ چین گارڈن میں داخل ہوا۔ فجر کی اذان میں آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے وضو کیا، اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور اپنے خاندان کیلئے ڈھیروں دعائیں کر ڈالیں۔ میرے ایک عزیز اور بھانجے مطیع اللہ بن نعمت اللہ نوائے وقت میں کام کرتے ہیں۔ 13اگست کی صبح ان کا فون آیا کہ آج کے نوائے وقت میں بیدار سرمدی صاحب نے قافلہ صلہ رحمی کے حوالے سے کالم لکھا ہے۔ میری بیدار سرمدی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی ہے تو مجھے یاد نہیں۔ میں نے کالم پڑھا اور بارگاہ الٰہی میں ہاتھوں کو اٹھا دیا۔ کہاں کا عبدالمالک، ایک چھوٹے سے گاؤں کیلیانوالہ میں پیدا ہونے والے ایک متوسط درجے کے خوشنویس کا بیٹا، سبحان اللہ! آج پاکستان کے ایک بڑے اخبار میں اس کے قافلہ صلہ رحمی پر کالم چھپتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے یہ کالم من و عن لکھے دیتا ہوں۔ شکریہ مطیع اللہ، شکریہ بیدار سرمدی صاحب! اگر میرے اس مضمون کو پڑھ کر کسی اور برادری کا ذمہ دار‘ انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر قافلہ صلہ رحمی کو لے کر چلتا ہے تو یہ کام اس کیلئے تو باعث اجرو ثواب ہو گاہی،مگر مجھے بھی اللہ سے قوی امید ہے کہ اس کا یہ عمل میرے نیک اعمال میں بھی اضافے کا سبب بنے گا۔ بیدار سرمدی صاحب لکھتے ہیں : پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف اسلام آباد سے جاتی عمرہ لاہور کے اپنے گھر میں جس شان و شوکت سے آئے ہیں، اس کا تذکرہ کئی حوالوں سے میڈیا میں ہوتا رہے گا۔ یہ قافلہ سیاسی رشتوں کو مضبوط بنانے کیلئے تھا۔ ایک اور قافلہ گزشتہ ہفتہ عبدالمالک مجاہد نے ترتیب دیا۔
عبدالمالک مجاہد! جی ہاں، دارالسلام انٹرنیشنل والے عبدالمالک مجاہد جنہوں نے 1986ء میں ریاض سعودی عرب میں قرآن پاک،احادیث مبارکہ اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے کتب کی اشاعت کا ایسا انداز متعارف کروایا کہ سعودی عرب کے خادم حرمین شریفین کو بھی بہت اچھا لگا۔ عوام سے بھی سند قبولیت ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ادارہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات،امریکہ ،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا، فرانس، ملائشیا،سری لنکا،ہند، جنوبی افریقہ،پاکستان اور دوسرے ممالک تک پھیل گیا۔ مجاہد صاحب ایک مختلف پاکستانی ہیں۔ عالمی سطح کی شناسائی اور ایک وسیع عالمی برادری رکھنے کے باوجود اپنے آبائی گھر کیلیانوالہ شریف (ضلع گوجرانوالہ) حافظ آباد اور لاہور کے درمیان پھیلے اپنے سپرا خاندان اور ’’صلہ رحمی‘‘ کے دائرے میں آنے والے اپنے بھائیوں کو نہیں بھولے۔ حضور اکرمکے فرمان کے مطابق انہوں نے ’’صلہ رحمی‘‘ کے جذبے کو فروغ دینے کی عملی روایت کو بھی زندہ کیا،قافلہ ’’صلہ رحمی‘‘ ترتیب دیا۔ وہ خاندان کے اہم ارکان کے قافلے کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں پہنچے ۔ پھولوں کے سایے میں ہر جگہ ان کا استقبال ہوا تو ان کی طرف سے بھی اپنائیت میں کوئی کمی نہ تھی۔ میاں نواز شریف صاحب کا قافلہ ایک بڑا قافلہ تھا۔ اس کا پیغام بھی سیاست کے رشتے میں جُڑے پاکستان بھر کے لوگوں کیلئے تھا۔ عبدالمالک مجاہد کا چھوٹا قافلہ ’’صلہ رحمی‘‘ اپنے رشتہ داروں تک محدود تھا لیکن اس کا پیغام بہت بڑا تھا۔ شاید پاکستان اور پاکستان سے باہر کی دنیا کیلئے بھی ’’صلہ رحمی‘‘ کا پیغام ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا پیغام۔ اس دور میں جب جدید دور کے جبر نے رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے دور کرنا شروع کر دیا ہے، جب ایک ہی خاندان میں امیر لوگوں نے اپنے ہی خاندان کے مالی طور پر دباؤ کا شکار لوگوں سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا ہے’’صلہ رحمی‘‘ کی تحریک ایک بڑا انقلاب برپا کر سکتی ہے۔
دم توڑتی انسانیت کے ماحول میں اپنے پیغمبر کے پیغام کی پیروی کرتے ہوئے’’صلہ رحمی‘‘ کے قافلے اگر تمام خاندانوں میں ابھرنے لگیں تو گرم لُو اور حبس کے موسم میں بھی حبس کا احساس ختم ہو جائے،شاید بہت سارے دکھوں کا مداوا بھی ہو جائے۔ نوجوان صحافتی کارکن اور قلم کار مطیع اللہ سپرا اگرچہ بیماری کے سبب اس قافلے کے ساتھ نہ جا سکے، لیکن ان کا مابعد کا مشاہدہ یہ ہے کہ عبدالمالک مجاہد کی منفرد سوچ سے خاندان کے چہروں پر رونق لوٹ آئی اور ناقابل بیان خوشی کا اظہار جگہ جگہ ہوا۔ پاکستان جیسے ملک میں خاندان اب بھی بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان خاندانوں اور برادریوں کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان کے اپنے اپنے دکھ درد ہیں۔ اگر ’’صلہ رحمی‘‘ کے قافلوں کی روایت کو عام کیا جائے اور ہر برادری کا کوئی نہ کوئی عبدالمالک ٹھان لے کہ آپس میں فاصلوں کو کم کرنا ہے تو ہمارے معاشرے میں سچ مچ کی تبدیلی نظر آ سکتی ہے۔ قافلہ ’’صلہ رحمی‘‘ ہر طرح کی سیاست سے پاک قافلہ تھا، دلوں کو فتح کرنے والا۔یقینا قارئین ایسے قافلوں کو فروغ دیں گے تاکہ اپنائیت بڑھے۔ اپنائیت جس کو پاکستانی ترس گئے ہیں۔ ’’صلہ رحمی‘‘ کی دینی برکات تو ہیں ہی، اس کی دنیاوی برکات بھی بے شمار ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر رحمت نے فرمایا کہ جو کوئی یہ چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو‘ کشادگی ہو اور دنیا میں اس کے آثارِ قدم تا دیر رہیں (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو وہ اہل قرابت کے ساتھ ’’صلہ رحمی‘‘ کرے۔ اسی طرح بتایا گیا ہے کہ ’’صلہ رحمی‘‘ کی 2صورتیں ہیں: ایک یہ کہ آدمی اپنی کمائی سے اہل قرابت کی مدد کرے اور دوسری یہ کہ اپنے وقت اور اپنی زندگی کا کچھ حصہ ان کے کاموں میں لگائے۔اس کے صلہ میں رزق ومال میں وسعت اور زندگی کی مدت میں اضافہ یقینی ہے۔ سو ہمارے سیاسی رہنماؤں کے قافلوں کی اہمیت اپنی جگہ، مگر جو اہمیت ’’صلہ رحمی‘‘ کے حوالے سے چھوٹے قافلوں کی ہے اس کا کوئی توڑ نہیں۔ کیا مجاہد صاحب نے ایک منفرد قافلے کی روایت کا آغاز کر کے ایک بڑا کام نہیں کیا؟ قارئین کا جواب یقینا ’’ہاں ‘‘ میں ہو گا۔