برلن .... انسان کو کرہ ارض پر قدم رکھے کروڑوں سال ہوچکے ہیں مگر آج کے انسان کیلئے یہ علم اب بھی محمل اور ناپختہ ہے کہ سب سے پہلے انسان نے کرہ ارض کے کس حصے اور کہاں پر قدم رکھا۔ اس حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ ایک نئی اور عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہورہے ہیں اور یہ صورتحال اس دانت کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے جو جرمنی میں ملا ہے اور اسی بنیاد پر یورپ کو انسانیت کا گہوارہ قرار دینے کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ اب تک کی مسلمہ تاریخ کچھ ایسی ہے کہ انسان او رانسانیت کی ابتداءکیلئے افریقہ کو مرکز قراردیا جاتا رہا ہے کیونکہ وہاں بہت ہی قدیم انسانوں کے محجر ڈھانچے ملے ہیں مگر اب جرمن ماہرین آثار قدیمہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے یہاں جو دانت دریافت ہوا ہے وہ افریقہ میں پائے جانے والے دونوں انسانی محجر ڈھانچوں سے دگنا پرانا ہے۔ سردست یہ دعویٰ محض دعویٰ ہے۔ اسکی تصدیق کیلئے اچھا خاصا وقت چاہئے تاہم ماہرین کا کہناہے کہ اگر اس دعوے کو تسلیم کرلیا گیا تو بنی نو انسان کی تاریخ ازسر نو مرتب کرنا پڑیگی اور آج کا انسان خود کو، دنیا اور اپنے وجود کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے پر مجبور ہوجائیگا۔ سردست سائنسدانوں کی ایک ٹیم اس دانت کا جائزہ لے رہی ہے اور اسکے بارے میں پہلی تحقیقی رپورٹ آئندہ ہفتے تک شائع ہوسکتی ہے۔ جرمنوں کا نیا دعویٰ اب تک کلیے کی حیثیت رکھنے والے اس بیانیے پر سوالات کھڑے کرسکتا ہے کہ انسانیت کا اصل مرکز یا گہوارہ افریقہ تھا اور افریقہ سے ہی انسان نے دنیا کے طول و عرض کی جانب قدم بڑھایا۔ زیر بحث دانت دریائے رائن کے دامن میں کھدائی کے دوران ملا ہے۔ واضح ہو کہ یہ دریاایک عرصہ ہوا خشک ہوچکا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس دانت کی دریافت سے اتنے حیران ہوئے کہ انہوں نے اسکا اعلان کرنے میں بھی ایک سال کا عرصہ لگادیا۔