Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ لا أدری‘‘ کہنا ، آدھا علم

امام مالکؒ سے 48مسئلے پوچھے گئے جن میں سے 32کے بارے میں آپؒ نے کہا  ’’لاأدری‘‘ ،  اگر عالم نے ’’لاأدری‘‘  کہنا چھوڑدیا تو ہلاکت وبربادی اس کا مقدر ہوگا
عبد الحیٔ ابڑو۔اسلام آباد
صحابہ وتابعین کی طرح ائمہ فقہ کے درمیان کئی اجتہادی مسائل میں اختلاف رونما ہوا مگر ان کے اختلاف کے پیچھے ان کی ذاتی خواہشات یا افتراق وانتشار پید اکرنے کا کوئی دانستہ جذبہ کارفرما نہ تھا جس کی وجہ سے یہ حضرات راہ ہدایت سے کبھی بھی ہٹنے نہ پائے۔ ان کی ساری تگ ودو کا مقصد چونکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور حق تک رسائی ہوتا تھا لہذا ہر دور کے اہل علم کے لئے اجتہادی مسائل میں فتویٰ دینے کی صلاحیت واہلیت کے حامل مفتی حضرت کے فتاویٰ سے صرفِ نظر ممکن نہ تھا البتہ ان کے خیال میں اگر فتویٰ درست ہوتا تو اسے درست قرار دیتے اور اس میں کسی خامی کی صورت میں ان کے لئے استغفار کرتے اور ان کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیتے تھے۔ اسی طرح قاضیوں کا تعلق خواہ کسی بھی مکتب فکر اور مسلک سے ہوتا ، ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے تھے حتیٰ کہ ضرورت پیش آنے پر خود قاضی اپنے خاص مسلک کے خلاف بھی فیصلے کرتے تھے اور ایسا کرنے میں کوئی حرج یا تنگی محسوس نہ کرتے تھے،ایسا اس لئے کہ ان تمام حضرات کے دلائل اگرچہ مختلف ہوتے مگر وہ جس سرچشمہ سے سیراب ہوتے تھے ، اس کا منبع ایک ہی تھا۔ ان کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ رائے یا اجتہاد کا اظہار اس طرح کے الفاظ میں کرتے ، جیسے ’’ہذا احوط‘‘  یعنی میری محتاط رائے یہ ہے کہ یا کہتے ’’ہذا احسن‘‘  یعنی میرے خیال میں یہ بہتر ہے یا ’’ہذا ما ینبغی‘‘ یعنی یہ مناسب معلوم ہوتاہے یا ’’نکرہ ہذا‘‘  یعنی ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ اس طرح نہ تو کسی پر کوئی تنگی ہوتی اور نہ ہی الزام واتہام تراشی۔ اسی طرح ایسی کسی رائے کے اظہار پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی جس کیلئے کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہو بلکہ لوگوں کے معاملات میں آسانی پیدا کرنے کیلئے پوری وسعت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔
اختلافی مسائل کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ اور بعد کے فقہاء میں سے کچھ حضرات بسم اللہ پڑھ کر نماز شروع کرنے کے قائل تھے جبکہ کچھ حضرات ایسا کرنا پسند نہیں کرتے تھے، کچھ اسے بلند آواز میں پڑھتے تھے اور کچھ آہستہ، فجر میں کچھ لوگ دعائے قنوت پڑھتے تھے ، کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ بعض حضرات کی رائے کہ نکسیر پھوٹنے ، قے آنے اور سنگی لگوانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے جبکہ دیگر حضرات اس رائے کے قائل نہ تھے۔ بعض کی رائے کے مطابق عورت کو ہاتھ لگانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے اور بعض کے ہاں نہیں ٹوٹتا۔ اونٹ کا گوشت یا کوئی ایسی چیز جسے براہ راست آگ نے چھوا ہو اس کے کھانے سے کسی کے ہاں وضو کرنا ضروری تھا اور کسی کے ہاں نہیں تھا۔
اس کے باوجود تمام حضرات ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ جیسے مدینہ منورہ کے مالکی اور دیگر ائمہ باوجود یہ کہ بسم اللہ نہ تو جہرا ًپڑھتے تھے اور نہ ہی سرا ً،مگر امام ابوحنیفہؒ  خود اوران کے ساتھی نیز امام شافعیؒاور دیگر ائمہ ان کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ خلیفہ ہارون رشید نے ایک دن سنگی لگوانے کے بعد امامت کی اور امام ابویوسفؒ نے بھی ان کی اقتدا میں نماز ادا کی اور بعد میں نماز کو لوٹا یا نہیں حالانکہ ان کے مذہب میں پچھنے لگوانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے۔
امام احمد بن حنبل  ؒ کا مسلک تھا کہ نکسیر پھونٹے سے اور سنگی لگوانے سے وضوٹوٹ جاتاہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ اگر وضو کرنے کے بعد امام کے بدن سے خون نکلے اور وہ دوبارہ وضو نہ کرے تو کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ آپؒ نے جواب دیا’’امام مالکؒ اور سعید بن مسیبؒ جیسے اماموں کے پیچھے میں نماز پڑھنے سے گریز کرسکتا ہوں؟‘‘ ان دونوں حضرات کے ہاں خون نکلنے سے وضونہیں ٹوٹتا۔
امام شافعی  ؒ صبح کی نماز میں دعائے قنوت کے قائل تھے۔ ایک مرتبہ بغداد میں امام ابوحنیفہ  ؒ کی قبر کے قریب والی مسجد میں ان کو صبح کی نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، جب ان سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا’’کیا ان کی موجودگی میں میں ان کے مسلک کی خلاف ورزی کی جرأت کرسکتا ہوں‘‘ پھر آپ ؒ نے کہا’’کبھی کبھی ہم اہل عراق کے مذہب پر بھی عمل کرلیتے ہیں‘‘(حجۃ اللہ البالغہ، ص235) 
فقہاء میں امام مالکؒ اہل مدینہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں ثقہ اور مستند سمجھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ حضرت عمرؓ کے فیصلوں اور عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عائشہؓ اور فقہائے سبعہ(مراد ہے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر،قاسم بن محمد، خارجہ زید، ابوبکر بن عبد الرحمن، سلیمان بن یسار، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عقبہ بن مسعود رحمہم اللہ اجمعین)کے اقوال کا بھی انہیں زیادہ علم تھا۔ امام مالکؒ اور آپ جیسے دیگر فقہاء کے ذریعہ ہی علم ’’روایت وفتویٰ‘‘ کی بنیاد پڑی۔ آپ نے حدیث وفتویٰ کی گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنی کتاب ’’المو طا ء‘‘  تالیف کی جس میں اہل حجاز کی قومی روایات ، صحابہ کرام ؓ کے ثابت شدہ اقوال اور تابعینؒ کے مستند فتاویٰ جمع کردیئے۔ آپ نے اپنی کتاب کو فقہی ابواب کے مطابق بڑی عمدہ ترتیب دی ہے جو آپ کی 40سالہ کاوشوں کا ثمر ہے۔ تاریخ اسلام میں حدیث وفقہ کی یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔ امام علیہ رحمہ کے 70معاصر علمائے حجاز نے اس کی تائید وتوثیق کی۔ اس کے باوجود خلیفہ منصور نے جب اس کے چند نسخے تیار کرواکر دوسرے شہروں میں بھیجنے کا خیال ظاہر کیا تاکہ تمام لوگ صرف اس کے مطابق عمل کریں اور اختلافات کا خاتمہ ہو تو سب سے پہلے امام مالکؒ ہی نے اس تجویز کو رد کیا اور فرمایا’’امیر المومنین! آپ ایسا نہ کریں، اس لئے کہ لوگوں تک اس سے پہلے سے اقوال اور احادیث اور روایات پہنچ چکی ہیں، ہر ایک نے اپنے تک پہنچنے والی روایت کو اپنالیا ہے جس سے ان کے درمیان خود ہی اختلاف رونما ہوچکے ہیںاس لئے جو چیز انہوں نے اپنے لئے اختیا رکرلی ہے اسی پر آپ انہیں چھوڑدیں‘‘ خلیفہ منصور ان کا جواب سن کر مطمئن ہوگئے اور کہا ’’ابوعبد اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق بخشے‘‘(حجۃ اللہ البالغہ،ص307) یہ کتنے جلیل القدر امام تھے جنہیں یہ بات ناگوار تھی کہ لوگوں کو صرف ان کی تالیف کردہ کتاب پر عمل کا پابند بنایا جائے حالانکہ اس کتاب میں انہو ںنے احادیث اور اقوال کا وہ بہترین ذخیرہ جمع کردیا ہے جو ان کے نزدیک مستند اور قابل اعتماد تھا اور جس کے بارے میں اہل مدینہ اور معاصر علماء کی اتنی بڑی جماعت کو کوئی اختلاف بھی نہ تھا۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں’’علمِ دین ایک ایسا علم ہے جسے 4قسم کے لوگوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، بے وقوف اوراحمق، نفس پرست جو گمراہی پھیلانے پر کمر بستہ ہو، کذاب جو لوگوں کے معاملات میں دروغ گوئی سے کام لیتا ہو خواہ روایت حدیث کے سلسلے میں وہ متہم نہ ہو اور ایسا شخص جو عابد وزاہد اور متقی تو ہو مگر اسے اس چیز کی صحت وضعف کا علم نہ ہو جسے وہ بیان کر رہا ہے‘‘(الانتقاء) نیز آپؒ نے فرمایا ’’علم دراصل دین ہی ہے اس لئے جس شخص سے اسے حاصل کر رہے ہوں اس کے بارے میں غور وفکر سے کام لینا چاہئے، میں نے70علماء کو دیکھا جو مسجد نبوی کے ستونوں کے پاس بیٹھ کر قال رسول اللہ کہہ رہے تھے مگر ان میں سے کسی سے بھی میں کوئی روایت نہیں لی۔ ان میں سے کسی کو بھی اگر بیت المال کا نگران بنایا جاتا تو بلا شبہ وہ اس میں ذرہ برابر خیانت کے مرتکب نہ ہوتے مگر اس عظیم الشان کام کے وہ بہرحال اہل نہیں تھے، دوسری طرف ابن شہاب(مشہور محدث امام زہری) جب ہمارے ہاں تشریف لائے تو ان کے دروازے پر ہر وقت علم کے متلاشی لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی‘‘(الانتقاء)
حقیقت یہ ہے کہ ان صفات کے حامل افراد کے درمیان کوئی بڑا اختلاف رونما ہونا بعید از امکان تھا اور اگر تھوڑا بہت اختلاف واقع ہوا بھی تو وہ صرف حق کیلئے ہوا کرتا تھا۔ ان کے دلوں میں ہوا اور ہوس کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ جن آدابِ اختلاف پر ہمارے علمائے سلف کار بند رہے ان کے چند نمونے ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں تاکہ اپنے لئے ہم انہیں مشعل راہ بناسکیں۔
امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے فقہی مسالک میں جو فرق ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں۔ اسی طرح دونوں حضرات کے ہاں مروج اصول وضوابط اجتہاد کی بنیادیں بھی الگ الگ ہیں اور دونوں میں عمر کا بھی تفاوت تھا۔ اس کے باوجود ایک دوسرے کے احترام میں کوئی چیز مانع نہ ہوسکی اور فقہ میں طریقۂ کار کا اختلاف ان کے دلوں میں باہمی محبت واحترام میں کمی کا سبب نہیں بنا۔
قاضی عیاض اپنی کتاب ’’المدارک‘‘میں لیث بن سعد  ؒ کی زبانی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں امام مالکؒ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ سے کہا’’کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو اپنی پیشانی سے پسینہ پونچتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟‘‘ انہوںنے جواب دیا’’ابوحنیفہؒ سے گفتگو نے مجھے پسینہ پسینہ کردیا ہے، اے مصری ! وہ بلا شبہ فقیہ ہیں‘‘
امام لیث ؒ نے کہاکہ اس کے بعد میں نے امام ابوحنیفہؒ سے ملاقات کرکے کہا’’اس شخص نے (اشارہ امام مالکؒ کی طرف تھا)آپ کے بارے میں کتنی اچھی بات کہی ہے ‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے کہا’’صحیح جواب دینے اور بھرپور تنقید کرنے میں ان سے تیز خاطر آدمی میں نے نہیں دیکھا‘‘(الانتقاء) 
امام شافعیؒ فرماتے ہیں’’ایک روز میرا اور محمد بن الحسن کا مباحثہ ہوا، بات بڑھتے بڑھتے اختلاف کی حد تک پہنچ گئی، حتیٰ کہ یوں محسوس ہونے لگا گویا ان کی رگیں پھٹ پڑیں گی اور بٹن ٹوٹ جائیں گے‘‘(الانتقاء) امام محمد کہتے ہیں’’اگر کبھی اختلافی مسائل میں ہم پر کوئی شخص حاوی ہوا تو وہ شافعی ؒ کے سوا کوئی اور نہیں‘‘ ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا’’ان کے زور ِبیان اور غور سے بات سن کر پورے اعتماد ویقین کے ساتھ سوال وجواب کرنے کی خوبی کی بناپر‘‘(الانتقاء) 
علمائے امت کے آدابِ اختلاف کے ان نمونوں سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ قرون خیر میں،بعد میں آنے والے حضرات نے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اور آدابِ نبوی سے فیض یاب ہوتے رہنے کو اپنا شعار بنالیا تھا۔ سلف صالحین آداب اختلاف میں صرف طنز وتعریض سے اجتناب نہیں کرتے تھے بلکہ اس دور میں حصول علم پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے اور غیر ضروری باتوں سے اجتناب کرنا ان کا شیوہ بن چکا تھا نیز وہ دانستہ غلطی کے ارتکاب کے خوف کی بناپر فتویٰ دینے سے احتراز کرتے تھے۔مولفِ’’ القوت‘‘عبد الرحمن بن ابی لیلی کی ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں انہوں نے بیان کیا کہ’’اس مسجد میں (اشارہ مسجد نبوی کی طرف ہے) میں نے 120صحابہ کرامؓ  کو اس حال میں دیکھا کہ ان میں سے کسی سے اگر کوئی حدیث یا فتویٰ پوچھا جاتا تو ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی اس کے متعلق بتائے‘‘(اتحاف السادہ المتقین)بالفاظ دیگر کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے بھائی کے پاس بھیجتا اور وہ کسی اور کے پاس ، اس طرح مسائلہ گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے ہاں واپس پہنچتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال پوچھا تھا۔اس سلسلے میں وہ سبکی یا شرمندگی کے جذبات واحساسات سے بالاتر ہوچکے تھے۔ یہ غلطی کا خدشہ ہی تھا جو انہیں بعض اوقات کسی مسئلے کے جواب میں توقف پر مجبور کردیتا تھا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص امام مالکؒ سے کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے حاضرہوا اور عرض کیا اس کی قوم نے اسے یہ مسئلہ پوچھنے کیلئے ایسی جگہ سے بھیجا ہے جس کا فاصلہ یہاں سے 6ماہ کا ہے۔ امام مالکؒ نے کہا’’جس نے تمہیں بھیجا ہے اس سے جاکر کہہ دو کہ میں یہ مسئلہ نہیں جانتا‘‘ اس شخص نے کہا’’پھر اسے کون جانتا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’وہی جسے اللہ نے علم دیا ہے، ملائکہ نے کہا تھا’’ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تونے ہمیں سکھایا ہے‘‘
امام مالک ؒ ہی کے متعلق یہ بھی مروی ہے کہ ان سے 48مسئلے پوچھے گئے جن میں سے 32کے بارے میں آپ نے کہا ’’لاادری‘‘ یعنی میں نہیں جانتا۔خالد بن خداش کہتے ہیں’’’ میں عراق سے 40مسئلے معلوم کرنے کیلئے امام مالکؒ کے ہاں حاضر ہوا، آپ نے صرف 5کے جواب دیئے‘‘
ابن عجلان کہتے ہیں ’’اگر عالم نے ’’لاادری‘‘ کہنا چھوڑدیا تو ہلاکت وبربادی اس کا مقدر ہوگا‘‘امام مالکؒ ، عبد اللہ بن یزید بن ہرمز سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا’’عالم کو چاہئے کہ اپنے ہم نشینوں کو ’’لاادری‘‘ کہنا سکھائے تاکہ ان سے جب کسی ایسے مسئلے کے بارے میں سوال کیا جائے جس کا جواب انہیں معلوم نہ ہو تو وہ ’’لاادری‘‘ کہہ کر اپنی جان بچاسکیں‘‘ حافظ ابن عبد البرؒ کہتے ہیں ، حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا’’لاادری کہنا آدھا علم ہے‘‘
 

شیئر: