Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مدیر مرد ہو یا خاتون؟

ابھا۔۔۔سعودی معاشرے میں ایک نئی بحث یہ چھڑ گئی کہ آیا خاتون افسر اچھی یا مرد مدیر بہتر ۔مردو خواتین دونوں اس سلسلے میں اپنے اپنے خیالات ، تاثرات اور احساسات کا کھل کا اظہار کر رہے ہیں ۔ بعض جائزوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خواتین مردوں پر 5حوالوں سے غلبہ رکھتی ہیں ۔ آگے بڑھ کر کام کرنے کا جذبہ ، دوٹوک انداز میں ربط و ضبط ، جدت طرازی ، کھلا پن اور مقاصد کا تعین۔ ایسے شعبے ہیں جن میں خواتین کو مردوں پر غلبہ حاصل ہے جبکہ کام کے دبائو میں بہتر انداز سے معاملات کو سلجھانا مردوں کا خاصّہ ہے ۔ سماجی بحث کے دوران اکثر مردوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ وہ خاتون افسر کسی قیمت پر قبول نہیں کرینگے ۔ سلطان عسیری نے بتایا کہ ہم مشرقی لوگ حکم دینے کے عادی ہیں سننے کے نہیں ۔ دیگر لوگوں نے بھی عسیری سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بینکوں ، تجارتی سرگرمیوں اور مواصلاتی شعبوں میں تجربہ یہی ہے کہ مرد حضرات خواتین افسران کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔عجیب بات یہ ہے کہ خود خواتین نے صنف نازک کو مدیرہ بنانے پر اعتراض کر دیا ۔ بسمہ القحطانی نے جو ایک بینک میں ملازمہ ہیں، کہا کہ خواتین کا معاشرہ تھکا دینے والا ہے۔ اس میں مسائل بہت پیدا ہوتے ہیں ۔ ہم خواتین خود پر عورت کا تسلط پسند نہیں کرتیں ۔ مرد حکم جاری کرتا ہے تو فطری نظر آتا ہے ۔ خاتون اپنی ہم صنف کا حکم سن کر غیرت میں آجاتی ہے۔انتقام کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے ۔ بہت زیادہ باریکیاں نظر آنے لگتی ہیں ۔ بسمہ نے کہا کہ مرد حضرات کے یہاں حکمت ، فراصت اور معاملات کو معقول شکل میں دیکھنے اور کرنے کا عنصر غالب ہوتا ہے ۔ 
 
 
 

شیئر: