سعودی اخبار میں شائع ہونے والا کالم
سعودی خواتین کی اولاد کی شہریت
سمر الحیسونی۔ المدینہ
سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو شہریت دینے کامسئلہ انتہائی اہم ہے۔ عرصہ دراز سے اس پر کافی بحث و مباحثہ چل رہا ہے، اب بھی جاری ہے۔
بعض لوگوں نے سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت دینے کی تائید کرتے ہوئے اسے بنیادی حق قرار دیا۔دیگر کا کہناہے کہ یہ کوئی حق نہیں۔ اسکا کوئی جواز بھی نہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اولاد ماں کے وجود کا اٹوٹ حصہ ہوتی ہے۔ ہر ماں کا حق ہے کہ وہ اپنی اولاد کو محفوظ محسوس کرے۔ اگر سعودی مائیں اپنی اولاد کو اپنے ملک کی شہریت دلانے کی آرزو کررہی ہیں تو اس میں کیا غلط بات ہے؟
سعودی قانون نے معاشرے میں خواتین کے حقوق مقرر کئے ہیں اور ہمیشہ خواتین کو انکے حقوق دلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ متعدد قراردادیں اور ہدایات ماﺅںکی خاطر جاری ہوچکی ہیں۔
جو شخص بھی سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت دینے کے مطالبے کی مخالفت کررہا ہے اس نے ابھی تک اپنے اس مطالبے کا کوئی تسلی بحش جواز پیش نہیں کیا۔ عام طور پر اس قسم کے لوگ یہ جملہ دہرانے پر اکتفا کرتے ہیں کہ سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو جو حقوق دیئے جارہے ہیں انکے زیادہ حقدار سعودی شہریوں کے بچے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد سعودی خواتین کے وجود کا حصہ نہیں۔ کیا سعودی شہریوںکی غیر ملکی اولاد کو وہ حقوق نہیںدیئے جارہے ہیں جو سعودیوں کی سعودی اولاد کو حاصل ہوتے ہیں پھر سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو وہ حقوق کیوں نہیں دیئے جاسکتے۔
بعض لوگ یہ کہہ کرسعودی ماﺅںکی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت دینے کی مخالفت کررہے ہیں کہ اس سے سعودی شہریوں کی اولاد کو روزگار کے سلسلے میں نقصان ہوگا۔ یہ دلیل اس لئے بے معنی ہوجاتی ہے کہ نئے قانون میںسعودی ماﺅںکی غیر ملکی اولاد کو روزگا رکے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔
قوانین کی اصلاحات کے ماحول اور سعودی وژن 2030 کی ہمرکابی کے تحت ہماری آرزو ہے کہ سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت دینے کی ضرورت او راہمیت کو بھی اجاگر کیا جائے اور مخصوص قواعد و ضوابط کے مطابق سعودی ماﺅں کے وسیع تر مفاد کا فیصلہ کیا جائے۔
******