Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کی شفقت

آپ نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں ہوتے اور حضراتِ حسنؓ و حسین  ؓ آپ     کی  پیٹھ پر چڑھ جاتے  تو آپ  سجدہ طویل فرما دیتے
مولانامحمدعابد ندوی

 

بچوں کی تربیت اور ان کے حقوق  کے حوالے سے  والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ ان کی صحت  کا خیال رکھیں، انہیں ان چیزوں  سے دور رکھیں جو تکلیف و اذیت اور بیماری کا باعث ہوں۔ رسول  اللہ  ایک مرتبہ سیدہ فاطمہؓ  کے پاس تشریف لائے تو دریافت فرمایا:
’’ میرے بچے (حضراتِ حسن و حسین رضی اللہ عنہما) کہاں  ہیں؟‘‘
سیدہ فاطمہؓ نے  جواب دیا:
’’انہیں علیؓ لے گئے ہیں۔‘‘
 پھر ایک جگہ آپ  نے انہیں کھیلتے پایا تو سیدنا علیؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
اے علیؓ ! میرے ان بچوں  کو دھوپ میں نہ چھوڑو۔‘‘(مستدرک حاکم)۔
ایک مرتبہ رسول اللہ کے لے پالک سیدنا زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ  گھر  کی چوکھٹ سے ٹکرا گئے جس سے اُنکے چہرہ پر زخم آگیا۔ رسول اللہ نے سیدہ عائشہؓ سے کہا کہ ان کے چہرے  سے گندگی دور کردو، انہیں اس سے گھن محسوس ہوئی تو آپ نے خود اُن کا زخم  صاف کرنے  لگ گئے اور شفقت و محبت  سے یوں فرمایا کہ:
اگر اسامہ لڑکی ہوتی تو ہم اسے زیور پہناتے اور عمدہ کپڑے پہناتے۔‘‘ (ابن ماجہ)۔
ایک مرتبہ رسول اللہ  سیدنا اسامہؓ  کی ناک صاف کرنے لگے تو سیدہ عائشہؓ نے آگے بڑھ کر کہا :
’’ یارسول اللہ!() آپ()  یہ کام  چھوڑیئے، میںکئے دیتی ہوں۔‘‘
آپنے فرمایا’’ اے عائشہؓ ! اس سے محبت رکھو، میں اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (ترمذی)۔
ظاہری و  جسمانی صحت کے خیال کے ساتھ اس حقیقت سے بھی غافل نہ ہونا چاہئے کہ چھوٹے بچے جنات و شیاطین کی طرف سے بھی تکلیف  و اذیت کا  شکار ہوجاتے ہیں، ان سے حفاظت کیلئے بچوں کو اللہ کی پناہ میں دینا چاہئے۔ جب سیدہ مریم  علیہا السلام پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے یوں کہا :
’’ میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان  مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘(آل عمران 36 )۔
رسول اللہ ،  حضراتِ حسن و حسین رضی اللہ عنہما پر یوں دم کیا کرتے تھے:
’’میں  تم دونوں کو اللہ کے تمام کلمات کے ذریعے ہر شیطان ، تکلیف دہ اور زہریلے جانوروں (جیسے سانپ بچھو وغیرہ) کے شر سے  اور ہر بری نظر ( نظر بد کے شر) سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘(بخاری)۔
اور  آپ یہ بھی فرماتے کہ تمہارے والد ابراہیم بھی، اسماعیل و اسحاق پر  یونہی دم کیا کرتے تھے۔ اس حوالے   سے صحیح احادیث میں یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ سر شام (سورج غروب ہونے کے بعد کچھ دیر تک) جنات و شیاطین زمین میں پھیل جاتے اور اچک لیتے ہیں(یعنی بچوں کو تکلیف و گزند پہنچاتے ہیں) اس وقت چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر نہ چھوڑا جائے، ہاں رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے  بعد انہیں چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں(متفق علیہ)۔
بچوں کی تربیت میں شفقت و نرمی  اور پیار و محبت کا پہلو غالب رہنا چاہئے۔ حسب موقع بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق، ان کے ساتھ تفریح اور انہیں کھیل کود کے مواقع فراہم کرنا بچوں کاحق ہے۔ رسول اللہ  کی زندگی میں بچوں کے ساتھ طرز ِمعاشرت، ان کے ساتھ شفقت و محبت اور  ملاطفت  کے حوالے سے بھی بہترین نمونے سیرت میں محفوظ ہیں۔ خادم رسولؐ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے بال بچوں میں کسی شخص کو  رسول اللہ سے زیادہ شفیق نہیں دیکھا(صحیح مسلم)۔
پیار و محبت کے  مظاہر میں بچوں کو گود لینا اور ان کا بوسہ لینا بھی ہے، یہ اللہ کی طرف سے شفقت و رحمت کا باعث ہے۔ ایک مرتبہ  رسول اللہ نے سیدنا حسنؓ  کا بوسہ لیا۔ آپکے پاس  اقرع بن حابس بیٹھے ہوئے تھے، انہیں تعجب ہوا ،کہنے لگے :
’’میرے 10 بیٹے ہیں، میں نے کسی کا بوسہ نہیںلیا۔‘‘
آپ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا:
’’ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (متفق علیہ) ۔
سیدنا اسامہ ؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ کبھی مجھے ایک ران پر بٹھالیتے اور  حسنؓ  کو دوسری ران پر پھر  دونوں کو چمٹا لیتے اور کہتے:
’’ اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرما ،میں بھی ان  دونوں پر رحم کرتا ہوں، اے اللہ! ان دونوں سے محبت فرما، میں بھی  ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
کبھی کبھی آپ سیدنا عباسؓ کے بیٹوں عبداللہ اور عبید اللہ کو صف  میں کھڑا کرکے فرماتے کہ میری طرف دوڑ کر آؤ، جو پہلے آئیگا  اسے یہ انعام ملے گا۔ بچے دوڑ کر آپکی گود میں گر پڑتے، آپ ان کا بوسہ لیتے(مسند احمد)ایکباررسول اللہ    خطبہ دے رہے تھے کہ حضراتِ حسنؓ و حسینؓ چلتے چلتے گر پڑتے ہیں۔ رسول اللہ  منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر اپنے سامنے بٹھاتے اور یوں ارشاد  فرماتے ہیں:
’’اللہ نے سچ کہا کہ بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ (آزمائش کاباعث)  ہیں،میں نے بچوں کو گرتا  دیکھ کر صبر نہ کرسکا یہاں تک کہ اپنی بات روک کر انہیں اٹھالیا۔‘‘ (ترمذی/ ابن ماجہ)  ۔
کبھی ایسا  بھی ہوتا کہ آپ نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میںہوتے اورحضراتِ حسنؓ و حسینؓ آپ کی  پیٹھ پر چڑھ جاتے  تو آپ  سجدہ طویل فرما دیتے اور ان کے اترنے تک سجدہ ہی میںرہتے۔ ایک مرتبہ اسی طرح سجدہ کافی طویل ہوگیا تو بعد میں لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے سجدہ اتنا طویل کردیا کہ ہمیں یہ گمان  ہونے لگا کہ کوئی ناگوار بات پیش نہ آگئی ہو یا پھر آپ پر وحی نازل ہورہی ہو، آپنے فرمایا :
’’ ان دونوں میں سے کوئی بات نہ تھی بلکہ میرا یہ بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تو مجھے یہ ناگوار لگا کہ اس کے اترنے سے پہلے میں جلدی کروں۔‘‘(نسائی/مسند احمد)۔
بچوں کے ساتھ آپ  کی شفقت اور محبت کا یہ معاملہ تھا کہ جب کبھی آپ  سفر پر  جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو جو بچے بڑوں کے ساتھ آپ  کو رخصت کرنے کیلئے یا آپ کے استقبال کیلئے مدینہ منورہ سے باہر تک جاتے تو آپ سواری پر اپنے آگے اور پیچھے بچوں کو بٹھالیتے۔ سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ  روایت کرتے ہیںکہ ایک مرتبہ  آپ جب سفر سے واپس  تشریف لائے تو مجھے آپ کی طرف بڑھایا گیا، آپنے مجھے اپنے آگے بٹھالیا۔ پھر حسن ؓ  یا حسینؓ آئے، آپنے انہیں اپنے پیچھے بٹھالیا ۔ اس طرح ایک سواری  پر ہم 3 لوگ  مدینہ منورہ میں داخل ہوئے(صحیح مسلم) ۔
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو خاندان عبدالمطلب کے بچے استقبال کیلئے آگے  آئے۔ آپنے ایک کو اپنے آگے اور دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھالیا(صحیح بخاری)   رسول  اللہ کا یہ بھی معمول تھا کہ جب کبھی موسم کا پہلا پھل آتا تو آپ  شہر  مدینہ اور  اور اس کے پھلوں کیلئے برکت کی دعا فرماتے پھر بچوں میں جو سب سے چھوٹا بچہ وہاں موجود  ہوتا ، اسے وہ پھل  دیتے(صحیح  مسلم)۔
اگر کبھی نرمی سے کام نہ چلے تو  بچوں کی اصلاح کیلئے ہلکی سرزنش، ڈانٹ  ڈپٹ اور معمولی مار کی بھی گنجائش ہے لیکن یہ اسلوب بہرحال آخری صورت میں اختیار کرنا چاہئے جبکہ شفقت  و نرمی، سمجھانے ، بجھانے اور رغبت دلانے سے کام نہ چلے ۔ رسول اللہ کی بچوں سے بے پناہ محبت اور شفقت کے باوجود  ضرورت پڑنے پر ان کی سرزنش کرنیکی  رہنمائی بھی ملتی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ  میں آپ  کا یہ فرمان ہے کہ’’ بچے جب7 سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم کرو اور جب10سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے  پر انہیں مارو۔‘‘ تربیت و اصلاح کی غرض سے ضرورت  پڑنے پر  یتیم کو مارنے کا قول سیدہ عائشہؓسے بھی مروی ہے۔ امام احمدؒ سے  اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بچہ بالکل ناسمجھ ہے تو اس کو نہ مارا جائے ورنہ بقدر ضرورت  ہلکی مار کی سزا دی جاسکتی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے شہروں میں یہ حکمنامہ جاری فرمایا تھا کہ کوئی استاد بچے کو 3 مار سے زیادہ نہ مارے۔ ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ سے گھر میں کوڑا لٹکائے رکھنے کا حکم بھی ثابت ہے(صحیح الجامع) اس کی وجہ بچوں میں غلطی پر مار پڑنے کا ڈر و خوف قائم رہے۔ الغرض بچوں کی اصلاح و تربیت کا زیادہ مفید طریقہ جو رسول اللہ   اور سلف صالحین کے اسوہ سے معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ حتی الامکان نرمی، شفقت اور پیار و محبت سے کام لیا جائے۔  ترغیب کا اسلوب اختیار کرتے ہوئے کبھی انعام کا لالچ دیا جائے، کبھی ضرورت پڑنے پر ڈانٹ ڈپٹ، ہلکی سرزنش اور معمولی مار کی سزا دی جائے۔ بے تحاشہ مارپیٹ یا پیار ومحبت سے سمجھانے کے بجائے ابتدائی مراحل ہی میں مارنا یا ہر موقع پر اور معمولی لغزش پر مارنا پیٹنا زیادہ فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔ بچوں پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
 
 

شیئر: