سعودی خواب کے چند گوشے اور سعودی عرب ...... اپنے دوست خود ہم ہیں، پر سعودی اخبارات میں کالم شائع ہوئے جو نذرقارئین ہیں۔
سعودی خواب کے چند گوشے
ناصر الصرامی ۔ الجزیرہ
سعودی شہری اور صرف سعودی شہری ہی تاریخ ساز رہنما کے ساتھ سعودی عرب کی نئی تاریخ ترتیب دے رہے ہیں۔ سعودی عوام اور قائدین عظیم ریاست کو جدید خطوط پر استوار کررہے ہیں تاکہ آئندہ عشروں اور طویل سے طویل تر مدت تک ہمارا ملک مضبوط اور مستحکم بنا رہے۔
میں اپنے قارئین سے چاہوںگا کہ وہ اب میرے ساتھ عظیم منظر نامے پر توجہ مرکوز کریں:
.... ہم سب لوگ ولی عہد کے ساتھ ہیں.... میں یہ لفظ بار بار دہرانا چاہوں گا کہ ہم سب ولی عہد کے ساتھ ہیں..... ولی عہد کا نمبر اقتدار کے باب میں بادشاہ کے بعد آتا ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلئے کسی تفصیل اور کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ پہلے بھی یہ ایک زندہ حقیقت مانی جاتی تھی آج بھی یہ بات اسی طرح سمجھی جارہی ہے اور آئندہ بھی یہ حقیقت اپنی جگہ پر اسی انداز سے جانی جاتی رہیگی۔
بعض سادہ لوح جس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کئی تجزیہ نگار ، قلمکار، دانشور ، تبصرہ نگار اور فضول بحث چھیڑنے والے عرب ایک بات بڑے تسلسل سے دہرا رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ سعودی ولی عہد جو عمر کے تیسرے عشرے میں ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ آج کی بابت سوچ رہے ہیں اور وہ نہ صرف یہ کہ مستقبل قریب کے حوالے سے غور وفکر کررہے ہیں بلکہ وہ ہمارے اور مملکت سعودی عرب کے بارے میں آئندہ 30برس کے بعد کیا ہوگا اس کی بابت بھی غوروخوض میں لگے ہوئے ہیں۔ انکے سامنے متعدد سوالات ہیں .... آئندہ 30برس بعد سعودی عرب کیسا ہوگا؟ سعودی عرب کو کیسا ہونا چاہئے؟ پوری دنیا میں سعودی عرب کا منظر نامہ کیسا ہو؟ مستقبل کے مملکت کے حوالے سے ہمارے کیا خواب ہوں؟ یہ سب کچھ ولی عہد کی سوچ اور فکر ہے..... سچ یہی ہے کہ یہی ہر سعودی کا خواب ہے اور ہم سب سعودی ولی عہد کے ساتھ ہیں۔ جہاں تک بعض عربوں کی چہ میگوئیوں اور بعض نام نہاد بھائیوں کی غداری اور حاسدوں کی جلن کا تعلق ہے تو انکے حسد ، انکے کینے اور انکی نفرت کا ہمارے حال و مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔
ہمارا حق ہے کہ ہم خواب دیکھیں ...... ہمارا حق ہے کہ ہم ماضی کے کسی بھی مقابلے میں ہم زیادہ خواب دیکھا کریں۔بلکہ سچ یہ ہے کہ خواب ہمارے خوبصورت ترین اور معمولی حقوق میں سے ایک ہے۔
خواب کی شکل بگاڑنے کے کوشاں لوگ کیا کہہ رہے ہیں ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نئے سعودی عرب کے خواب کی بابت قریبی اور خارجی عناصر کس قسم کی باتیں کررہے ہیں ہمیں اس سے لینا دینا نہیں۔ ہمیں تو اپنے مکالموں اور اپنی تحریروں اور مباحثوں میں صرف نئے سعودی عرب کے خواب کے تذکرے کرنے ہیں اور اسکی شکل و ہیئت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ دراصل شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے ساتھ ماضی ، حال او رمستقبل کے خواب مل جل کر دیکھنے کی سادہ سی کوشش ہے۔
سعودی خواب شرمندہ تعبیر ہونے لگا ہے۔ ایک خواب نہیں بہت سارے خواب ہیں جنکا اظہار ولی عہد سعودی عرب کی فضاﺅں میں پوری آن بان کیساتھ کررہے ہیں۔ میں دبئی اور سعودی عرب کے درمیان تقابل کرنے والوں سے کہا کرتا تھا کہ خوبصورت ، شاندار ، تیز رفتارنئی کار چلانے والے اور بہت سارے ٹرکوں کو مربوط شکل میں لیکر چلانے والے کے درمیان فرق کیا جائے۔ وہ ڈرائیور جو بہت سارے ٹرکوں کو ایک ساتھ لیکر چل رہا ہو، اُس کی رفتار یقینا اتنی نہیں ہوسکتی جتنی کہ تیز رفتار نئی خوبصورت کار کی ہوسکتی ہے۔
عظیم سعودی خواب اب ان تمام رکاوٹوں سے بالا ہوکر خلائی سفینے کی طرح مملکت کی خلاﺅں میں تیزی سے اوپر کی جانب پرواز کررہا ہے۔ ہمارے وسائل ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہماری آرزوئیں ہمارے آسمان کے عین مطابق ہیں۔
سعودی عرب میں ہمارے اور آنے والی نسلوں کے حوالے سے یہی آج کا سب سے اہم قصہ اور سب سے بڑا پروگرام ہے۔ ہمارے خواب آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں۔ ہمارا مستقبل روشن ہے جہاں ہم پوری قوت ، امتیاز اور احساس و ادراک کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
سعودی عرب .... اپنے دوست خود ہم ہیں
خالد السلیمان ۔ عکاظ
ایران اپنا کام کررہا ہے اور عرب مذمت اورغم و غصے کے اظہار پر مبنی بیانات کی بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹھیک وہی کام دہرایا جارہا ہے جو عربوں نے اسرائیل کے جارحانہ حملوں اور یہودی آباد کاری کے حوالے سے کئی عشروں تک کیا اور کررہے ہیں۔ سعودی عرب تنہا ملک ہے جس نے ایران کے جارحانہ اقدامات کا جواب ٹھوس کارروائی کے ذریعے دینے کا عزم ظاہر کیا۔
ایران سے ٹکر لینے کا سعودی ہدف ایران کے علاقائی اثر و نفوذکی مزاحمت یا علاقے میں اپنے اقتدار کا قیام نہیں۔ سعودی عرب قومی سلامتی کا دفاع کررہاہے۔ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔ علاقے میں امن و استحکام کو یقینی بنا رہا ہے۔ سعودی عرب نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کیونکہ بڑے ممالک خطے کے بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ایران کے ساتھ مغربی ممالک کے ایٹمی معاہدے نے ایرانی درندے کو اپنے پنجرے سے نکلنے اور مشرقِ عربی پر اپنا تسلط تھوپنے کی راہ ہموار کردی۔
سعودی عرب کے سامنے 2راستے تھے، تیسرا نہیں۔ یا تو وہ ایرانی پروگرام کا تماشائی بن جائے ۔ ایران ہر طرف سے سعودی عرب کی ناکہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ دوسرا راستہ سعودی عرب کے سامنے یہ تھا کہ وہ بحرین اور یمن ہی میں ایرانی پیشقدمی کو روکنے کی کوشش کرے۔
سعودی عرب نے خودکے دفاع کیلئے پیشگی اقدام کیاکیونکہ خطے میں انارکی کا مسئلہ اور عالمی برادری کا تماشائی بننا خطرناک صورتحال کا الارم بجا رہا تھا۔ معاملہ بقاءکا تھا۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں تھا۔
یمن میں سعودی عرب کی مداخلت ضروری تھی،خواہ اسکی قیمت کتنی ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔ ہمارا کہناہے کہ ذرا خیال کیجئے کہ اگر حوثی یمن کے قانونی حکمراں بن جاتے تو یمن ایرانی کالونی میں تبدیل ہوجاتا اوریمن ایرانی میزائلوں کے جنگل میں تبدیل ہوجاتا پھر کیا ہوتا سوچا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭