ربیع الاول کے پیغام اپنے سینے سے لگائیں،اپنا محاسبہ کریں ، جائزہ لیں کہ ہمارے اندر تعلیماتِ رسول اللہ کا عملی حصہ کتنا پایا جاتا ہے
* * * حافظ محمد ہاشم صدیقی ۔ جمشید پور،ہند * * *
ربیع الاول میں تشریف لانے والے محسنِ کائنات نے انسانوں کے لئے جو دستورِ زندگی دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں بلکہ اللہ کے رسول نے ایک ایک حکم پر عملی طور پر عمل فرماکر، دستورِ حیات کو نافذ کرکے دکھادیا حتیٰ کہ یہ اعلان کر دیا گیا کہ جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے وہ مصطفی جانِ رحمت کی سیرت میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : بے شک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسول (کی زندگی) میں بہترین نمونہ (مثال) ہے،یہ نمونہ اس کے لئے ہے جو اللہ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتاہے (الاحزاب21)۔
رسول اللہ کی زندگی تمہارے لئے ہر موڑ پررہنمائی ہے اور ہر مرحلہ پر عمل کرنا اور آپ کی تعلیمات پر کاربند ہونا اور تمہارے لئے رسول کی زندگی ہی نمونۂ عمل ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر صرف قرآن نازل کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کی تبلیغ کرنے کے لئے اپنے محبوب کومنتخب فرمایا تاکہ وہ ارشاد ربانی پر خود عمل کرکے دکھائیں، آپپر ایمان لانے والے بھی آپکی زندگی کو نمونہ مان کر عمل پیرا ہوں۔
اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور انسانی آبادی ساری ترقیوں اور سہولتوں کے باوجود جن خطرات میں گھری ہوئی ہے، ظلم و زیادتی کی جو گرم بازاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے،مصر ،عراق، ایران، پاکستان ، افغانستان ،روہنگیا وغیرہ میں خون کی ارزانی ہے، اس کا علاج اگر کہیں مل سکتا ہے تو اسی پیغامِ محمدی ؐکے دستور ِحیات میں ہے۔
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں حضرت محمد اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے ذاتی نام احمد اور محمد() ہیں۔ صفاتی نام بہت سے ہیں ۔ مشہور نام99 ہیں جن میں سے مصطفی، مجتبیٰ، حامد ، محمود، قاسم، صادق، امین ہیں۔
آپ نے فرمایا:میں سید الاولین والآخرین اور خاتم النبیین ہوں۔اسی لئے آپ کالقب سید المرسلین، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہے۔
571ء، بروز پیر بوقت صبح آپ مکہ میں پیدا ہوئے۔بھولی بھٹکی ہوئی انسانیت کیلئے فلاح کی راہ دکھانے دستورِ زندگی لے کر آپ تشریف لائے جو ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کے لئے نسخۂ اکسیر ہے ۔ اُس دستورِ حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا نہ بادشاہ و فقیر کا۔ کرئہ زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے۔
حضور نے خطبہِ حجتہ الوداع میں واضح الفاظ میں یہ اعلان فرمایا :
’’اے لوگو! خبر دار ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ(حضرت آدم ؑ) ایک ہے،کسی عرب کو غیر عرب پر اورکسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔‘‘
آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ و آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَاب۔
’’تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پید اکئے گئے ہیں۔‘‘(مسند احمد بن حنبل،کنز العمال)۔
اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، رنگ، نسل، جنس ، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی بار تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہر سال مکۃ المکرمہ میں ایک ہی لباس میں ملبوس حج ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دستورِ حیات میں عزت و شرف کا معیار امیر و غریب، قوم و قبیلہ کونہیں بلکہ حسنِ کردار ( اخلاق) کو بتایا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو، بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘(الحُجُرات13)۔
اہم بات یہ ہے کہ پیدائشی لحاظ سے تمام انسان یکساں ہیں۔ انعاماتِ الٰہیہ سے سب انسان نوازے گئے مگر ان کا صحیح اور بر محل استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف، تقویٰ حاصل کرنے والا انجام کار میں سب سے بہتر و افضل ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ شکل و صورت کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں، آدم ؑان سب کے باپ اور حوّا ؑسب کی ماں ہیں۔‘‘
اسی تخلیقی برابری کے باعث آدم و حوّا علیہم السلام کی سب اولاد آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ الگ الگ قومیں اور جداجدا خاندانوں اور قبیلوں کا مصرف یہ ہے کہ انسانوں کو باہمی تعارف میں آسانی ہو اور ملنے جلنے میں سہولت ہو۔ قبیلے اور قوموں کے ذریعہ فخر و مباہات یا کسی کی تحقیر و تذلیل ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام نے بھید بھاؤ کی خاردار جھاڑیوں کو کاٹ کر پھینک دیا ہے لیکن آج ترقی یافتہ کہلانے کے باوجود سار ی دنیا خاص کر مغربی ممالک میں یہ عصبیت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔طاقتور ممالک غریب اور مفلس علاقوں کو آج تک اسی طرح ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی کو لقمۂ تر سمجھ کر ہڑپ کر جاتی ہے۔ جس طرح امریکہ کی سرزمین پر انسانوں کے جسم میں خون ہے اور وہاں کے انسان قابلِ قدر ہیں، بالکل اسی طرح باقی دنیا فلسطین، ویتنام ، افغانستان، مصر ، لیبیا، افریقی ممالک وغیرہ کے انسان بھی قابلِ عزت ہیں۔
بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہونے والے محسنِ کائنات کا پیغام ماننا ہی دنیا کی ساری قوموں کے لئے نسخۂ کیمیا ہے۔ بھٹکے ہوئے انسانوں کے لئے اسی پیغام میں جو سب کے لئے ہے سب جگہ کے لئے ہے، راحت ہے۔ اس میں مرد وعورت، بوڑھے ، جوان ، کنبہ و خاندان، حاکم و محکوم سبھی کے لئے آرام و راحت اور سکون و اطمینان کا سامان ہے اور اس کا عملی نمونہ بھی خلافت راشدہ کے زمانے میں پورے 36سال تک دنیا دیکھ چکی ہے اور اس کا میٹھا پھل بھی کھا چکی ہے۔ آپ کی عطا کردہ تعلیم سے نسلی و قبائلی برتری کے تمام بت پاش پاش ہوگئے یہ مساواتِ اسلامی زندگی کے ہر گوشے میں نظر آتی ہے۔ رسول اللہ نے انسانوں کے لئے جو دستورِ حیات دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں رہا بلکہ اللہ کے رسول نے اس کے ایک ایک حکم پر عمل کرکے ، نافذ کرکے دکھا دیااور حکم دیا کہ اسوئہ رسول پر چل کر زندگی گزارو۔
اخلاق و شمائل رسول اللہ :
آپ کا فرمان ہے :
’’میری بعثت اس لئے ہوئی کہ میں اخلاق کی تعلیم کو مکمل کروں۔‘‘
رسول اللہ کے اخلاق عالیہ ، اوصافِ جمیلہ اور حلیہ مبارک ، اوصافِ کریمہ اور فضائلِ شریفہ کا ذکر صحابیِ رسول ہند ابی ہالہ رضی اللہ عنہ نے ،جو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فرزند اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے ماموں ہیں اور آپؓ کو وصاف النبی(حضور کے اوصاف بتانے والے) بھی کہا جاتا ہے،بہت جامع اور بلیغ انداز میں کیا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’رسول اللہ طبعاً بدکلامی اور بے حیائی و بے شرمی سے دور تھے اور تکلفاً بھی ایسی کوئی بات آپ سے سرزد نہیں ہوتی تھی۔ بازاروں میں آپ کبھی آواز بلند نہ فرماتے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے بلکہ عفو درگزر کا معاملہ فرماتے۔ آپ نے کسی پر کبھی دست درازی نہ فرمائی سوائے اس کے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا موقع ہو، کسی خادم یا عورت پر آپنے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔‘‘
ہند ابی ہالہ آگے فرماتے ہیں :
’’ میں نے آپکو کسی ظلم و زیادتی کا انتقام لیتے ہوئے بھی نہ دیکھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی نہ ہو اور حدود اللہ کی حرمت و ناموس پر آنچ نہ آئے۔ ہاں، اگراللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو پامال کیا جاتااور اس کے ناموس پر حرف آتا تو آپ ہر شخص سے زیادہ غصہ فرماتے تھے۔2 چیزیں سامنے ہوتیںتو آپ ہمیشہ آسان چیز کا انتخاب فرماتے۔ جب اپنے دولت خانہ پر تشریف لاتے تو اپنے کپڑوں کو صاف فرماتے، بکری کا دودھ دوہتے اور اپنی ضرورتیں خود انجام دیتے، اپنی زبان مبارک محفوظ رکھتے، صرف اور صرف اسی چیز کے لئے کھولتے جس سے آپ کو کچھ سروکار ہوتا۔ لوگوں کی دلداری فرماتے اور ان کو متنفر نہ کرتے تھے۔‘‘
سیرت محمدی کا پیغام:
آپ ہر وقت آخرت کی فکر میں اور امورِ آخرت کی سوچ میں رہتے، اس کا ایک تسلسل قائم تھا کہ کسی وقت آپ کو چین نہیں ہوتا تھا۔ غلاموں سے بھی محبت کا سلوک فرماتے تھے ۔
آپ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ۔ وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک غلام یہ کہہ رہا ہے کہ جو مجھے خرید ے وہ مجھے رسول اللہ کے پیچھے پنجگانہ نماز سے نہ روکے۔ اسے ایک شخص نے خریدلیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ غلام سخت بیمار ہوگیا ۔ اللہ کے رسول اس کی تیمار داری کو تشریف لے گئے ،پھر اس کی وفات ہوگئی تو حضور اس کے دفن میں شریک ہوئے ۔ اس پر بہت سے لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ غلام اور اس پر اتنا انعام۔ آپ کے اخلاقِ کریمانہ پر یہ آیت نازل ہوئی : تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں متقی و پرہیزگارہو ، نسب و حسب کی کوئی حقیقت نہیں۔
حضرت ہند بن ابی ہالہ ؓ فرماتے ہیں :
’’آپ اکثر طویل سکوت اختیار فرماتے تھے ، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے۔ آپ کی گفتگو اور بیان بہت صاف ، واضح اور دو ٹوک ہوتاتھا، نہ اس میں غیر ضروری طوالت ہوتی نہ زیادہ اختصار۔ آپ نرم مزاج و نرم گفتار تھے، درشت اور بے مروت نہ تھے۔ آپ کسی کی اہانت نہ کرتے اور نہ اپنے لئے اہانت پسند کرتے تھے۔ نعمت کی بڑی قدر کرتے اور اس کو بہت زیادہ جانتے تھے خواہ کتنی ہی قلیل ہو،نعمت کی برائی نہ فرماتے۔ دنیا اور دنیا سے متعلق جو چیز ہوتی اس پر آپ کوکبھی غصہ نہ آتا لیکن جب رب العالمین کے کسی حق کو پامال کیا جاتا تو اُسوقت آپ کے جلال کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی، یہاں تک کہ آپ اس کا بدلہ لے لیتے۔ آپ کو اپنی ذات کے لئے غصہ نہ آتا، نہ ہی اپنی ذات کیلئے انتقام لیتے تھے۔جب کسی کی طرف اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ غصہ اور ناگواری کی بات ہوتی تو روئے انور اس طرف سے پھیر لیتے اور اعراض فرما لیتے۔ خوش ہوتے تو نظریں جھکا لیتے۔ آپ کا ہنسنا زیادہ تر تبسم تھا جس سے صرف آپ کے دندانِ مبارک ،جو بارش کے اولوں کی طرح پاک شفاف تھے ، ظاہر ہوتے تھے۔‘‘ ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ مزید بیان کرتے ہیں:آپ خود دار اور باوقار اور شان و شوکت کے حامل تھے اور دوسروں کی نگاہ میں بھی نہایت پر شکوہ ، آپ کا روئے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح دمکتا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رسول اللہ ہمہ وقت کشادہ رُو اور انبساط و بشاشت کے ساتھ رہتے تھے۔ بہت نرم اخلاق، نرم پہلو تھے۔ نہ سخت طبیعت کے تھے نہ سخت بات کہنے کے عادی ، نہ چلاکر بولنے والے نہ کسی کو عیب لگانے والے، نہ تنگ دل نہ بخیل۔3 باتوں سے آپ نے اپنے کو بالکل بچا کر رکھا : ایک جھگڑا، دوسرے تکبر اور تیسرے غیر ضروری اور لا یعنی کام۔
لوگوں کو بھی 3 باتوں سے آپ نے بچارکھا تھا: نہ کسی کی برائی کرتے نہ اس کو عیب لگاتے تھے اور نہ اس کی کمزوریوں اور پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔
آپ صرف وہ کلام فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی۔ جب گفتگو فرماتے تو شرکائے مجلس ادب سے اس طرح سر جھکا لیتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان سب کے سروں پر چڑیا ں بیٹھی ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو لباس و جمال و کمال سے آراستہ فرمایا تھااور آپ کو محبت و دلکشی اور رعب و ہیبت کا حسین و جمیل پیکر بنایا تھا۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ میانہ قد تھے۔ میں نے آپ کو ایک مرتبہ سرخ قبا میں دیکھا ،اس سے اچھی کوئی چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی ۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ میانہ قد تھے ،طول کی طرف کسی قدر مائل، رنگ نہایت گورا،ریش مبارک کے بال سیاہ، دہانہ نہایت متناسب اور حسین، آنکھوں کی پلکیں دراز ، چوڑے شانے۔ آخر میں کہتے ہیں کہ میں نے آپ جیسا آپ کے پہلے یا آپ کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے حریر و دیباج کو بھی آپ کے دست مبارک سے زیادہ نرم نہیں پایا۔ نہ آپ کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی خوشبو سونگھی۔ اللہ کے رسول کے اخلاق و شمائل کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے۔ آپ کی سیرت لکھنے کے لئے بڑے سے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے۔