Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رجب ارد وگان کے د یس میں چند روز

  
 مسلمانوں نے ہر دور میں قسطنطنیہ فتح کرنے کی کوشش کی، سیدنا امیر معاویہؓ کے دور میں پہلی کوشش ہوئی مگرکامیاب نہ ہو سکی
* * * *عبدالمالک مجاہد۔ ریاض* * * *
ترکی اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہے۔ اس کی تاریخ بڑی دلچسپ اور عجیب و غریب ہے۔ یہاں کے لوگ بڑے خوبصورت اور خوش اخلاق ہیں۔ ترکی پر صدیوں آل عثمان نے حکومت کی ہے۔ اس دور کو’’عثمانی دور‘‘ کہا جاتا ہے مگرچونکہ ہر عروج کو کبھی نہ کبھی زوال آہی جاتا ہے، لہٰذا عثمانی خلافت بھی ایک دن مصطفی کمال پاشا کی چالوں کے سامنے ٹھہر نہ سکی۔ شاہی خاندان کے بے شمار شہزادے اور شہزادیاں یا تو قتل کر دیے گئے یا انہیں جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
     مصطفی کمال اتاترک نے 1938میں وفات پائی۔ مرنے سے پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ جس ترکی کو اس نے دن رات ایک کرکے سیکولر حکومت میں تبدیل کیا، خلافت کو ختم کیا، اذان پر پابندی لگائی،تحریرمیں عربی حروف کی بجائے لاطینی حروف کو نافذ کیا، عربی لباس کو ختم کر کے فرنگی لباس کو رائج کیا، عورت کو گھروں سے نکال کر محافل ومجالس کی رونق بنایا،پردے کو زبردستی ختم کیا ، نکاح وطلاق کے مسائل کو پرسنل معاملات بنا دیا ، نکاح پڑھانے کی رسم کو ختم کر دیا، اُس کی بجائے بلدیہ کا آفیسر دولہا دلہن سے کاغذ پر دستخط لیتا اور نکاح ہو جاتا۔ جس ملک کے قوانین میں تبدیلی کر کے دین کو دنیا سے جدا کر دیا گیا۔ ترکی جو اسلامی خلافت کا علمبردار تھا، اسے یورپ کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے کرتے کمال پاشا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
    آج سبحان اللہ ! اس ملک کی فضاؤں میں پوری قوت اور طاقت کے ساتھ مساجد میں5 وقت اذانوں کی صدائیں گونجتی ہیں۔ خوبصورت بلند آواز میں مؤذن جب اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدا بلند کرتا ہے تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔
    راقم الحروف نے الحمدللہ ترکی کے متعدد سفر کیے ہیں۔ کم و بیش 30 سال پہلے سیرو سیاحت کی غرض سے پہلا سفر کیا تھا۔اُس سفر میں دن کا سفر بڑے مزے کا تھا۔ اس دوران ہم نے خوب کباب کھائے۔ مختلف مقامات کی سیر کی۔ پرنسایز لینڈ بھی گئے۔ مساجد میں بھی گئے، وہاں نمازیں بھی ادا کیں۔ اُس زمانے میںلاؤڈ اسپیکر پر اذانیں ممنوع تھیں۔ ترکی پر سیکولر ازم کے واضح آثار موجود تھے۔ بے حجابی واضح تھی۔ میں نے وہاں زندگی میں پہلی مرتبہ ایک یہودی جوڑے کو دیکھا۔ ایک مرتبہ لندن سے واپسی پر ایک پرنٹنگ پریس کے مالک سے ملاقات کیلئے گیا۔ کوئی14,12 سال پہلے بچوں کے ہمراہ ترکی کی سیر اور بعض ضروری کاموں کیلئے گیا۔
    قارئین کرام! جب میں نے قلم پکڑ ہی لیا ہے تو میرے دل و دماغ کے دریچے کھل گئے ہیں۔ کوئی 16,15 سال پہلے کی بات ہے۔ترکی سے ایک خاتون کا فون آیا۔ اس نے کہا: میرا نام ایبرو ہے۔ میں ہارون یحییٰ کے دفتر میں کام کرتی ہوں۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ ہماری کتابیں شائع کریں۔ اُس دور میں دارالسلام بے حد ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ نئی نئی کتابیں چھپ کر آ رہی تھیں۔ ہر وقت سو کتابیں کیو میں لگی رہتی تھیں۔ ہم خاصے معروف تھے، میں نے سنی اَن سنی کر دی۔ اگلے دن پھر اس کا فون آ گیا۔ چند دن گزرے، اس کا پھر سے فون آ گیا۔ اس کا اصرار تھا کہ آپ ہارون یحییٰ کی کتابیں ضرور شائع کریں۔ کوئی کاپی رائٹس نہیںہیں۔ ہم آپ کو فلمیں تک مہیا کر دیں گے، آپ نے انہیں بس پرنٹ کرنا ہے۔ ہارون یحییٰ کی کتابیں اس زمانے میں خاصی معروف تھیں، میں نے بھی جستہ جستہ ان کو دیکھا تھا۔ کچھ کتابوں کا انگلش کے علاوہ بعض دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا تھا۔
    ایک دن اُن کی طرف سے ایک بنڈل وصول ہوا جس میں ہارون یحییٰ کی کتابیں موجود تھیں۔ بڑا ہی خوبصورت ڈیزائن ‘ بہترین کاغذ‘ بائنڈنگ‘کتابیں ہر لحاظ سے دیدہ زیب تھیں۔ کسی بھی ناشر کے لئے ان کی طباعت کرنا تحفہ سے کم نہ تھا۔ ایبرو کا اصرار تھا کہ آپ سعودی حکومت سے اجازت لے کر انہیں شائع کریں۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔
    قارئین کرام! انسان کی فطرت میں جلب منفعت ہے۔ہر انسان پیسے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھے پیسے کی ضرورت نہیں، مگر انسان کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک ایمان ایسی بڑی قوت ہے کہ اس کے سامنے دنیا جہاں کی نعمتیں ہیچ ہیں۔ پھر روپیہ پیسہ ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ سسٹر ایبروکے مسلسل فون آتے رہے، میرے پاس کوئی واضح جواب نہ تھا۔ ایک دن میں نے جان چھڑانے کے لئے کہہ دیا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں سو ہمارے لئے آپ کی کتب چھاپنا مشکل ہے۔
    اسی دوران میں نے استنبول میں دارالسلام کے نمائندہ سے رابطہ کیا۔ اس نے بھی کوئی واضح جواب نہ دیا، کہنے لگا: ہم غیر مسلموں کے لئے ہارون یحییٰ کی کتب کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کا اسلوب اچھا ہے۔ دل کو لبھانے والا ہے۔ دلائل ٹھیک ہیں… بس کچھ سوالات ضرور ہیں۔ میں جواب سے مطمئن نہ ہوا۔
    انہی دنوں میرا ارجنٹائن کا ایک دوست عیسیٰ گارسیا ملاقات کے لئے ریاض آیا۔ میں نے اس سے دوران گفتگو ہارون یحییٰ کے عقیدہ اور منہج کے بارے میں سوال کیا، تو اس کے پاس بھی کوئی واضح جواب نہ تھا۔ میں نے کہا : میں تمہیں استنبول کی ٹکٹ کے پیسے ادا کروں گا، تم ایسا کرو کہ ترکی جاؤ اور وہاں سے مجھے اس شخص کے بارے میں معلومات لے کر بتاؤ۔ مجھے اس شخص کے عقیدہ کے بارے میں رپورٹ چاہیے۔ کئی ماہ گزر گئے۔ دفتر میں کام ہی اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ میں نے اس مسئلہ کوکوئی خاص اہمیت نہ دی۔ اسی دوران ایبرو کا پھر فون آ گیا۔ کہنے لگی: آپ کو جتنی رقم چاہیے،ہم دینے کو تیار ہیں۔ آپ اس پیسے سے کتب شائع کریں۔ منافع کمائیں۔ جب کتب فروخت ہو جائیں تو ہمیں پیسے واپس کر دیجیے گا۔ ہارون یحییٰ کی خواہش ہے کہ ہماری کتب مکہ اور مدینہ کے مکتبات پر میسر ہوں۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا ۔چند ہفتے گزرے ایک صاحب کا فون آ گیا۔ میں اس کی انگلش کے تلفظ سے ہی سمجھ گیا کہ وہ ترک ہے۔ وہ بولا: میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔
    میں نے پوچھا تم کون ہو؟ کہنے لگا :میں ہارون یحییٰ کا نمائندہ ہوں۔ میں نے اگلے دن کا وقت دیدیا اور وہ وقت مقررہ پر ہمارے آفس آگیا۔ میں نے دارالسلام کے سینیئراسٹاف کو بھی میٹنگ میں بلوا لیا۔ اس نے ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کی کہ آپ ہماری کتب شائع کریں ۔میرا ایک ہی سوال تھا کہ تم ایک پبلشر ہو، بتاؤ کہ تمہارے پاس اتنی رقم کہاں سے آ گئی جو تم ہارون یحییٰ کی کتب شائع کروانے کے لئے خرچ کر رہے ہو۔ عام طور سے دار نشر اتنا منافع نہیں کما سکتے جتنا تم خرچ کر رہے ہو۔ دستاویزی فلموں پر خرچ کرتے ہو۔ واضح رہے کہ میں اس دوران ہارون یحییٰ کی چند ڈاکومنٹری فلمیں دیکھ چکا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان فلموں کے بنانے میں لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
    قارئین کرام! واضح رہے کہ یہ آج سے16,15 سال پہلے کی بات ہے جبکہ ابھی ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ادھر میری حالت یہ ہے کہ میں اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جنہیں آج بھی ٹی وی لگانا نہیں آتاتاہم اللہ نے اتنی صلاحیت ضرور دی ہے کہ مجھے اندازہ ضرور ہے کہ اس کام پر اخراجات کیا ہوتے ہیں۔ ہمارا ترکی مہمان بڑی عمدہ انگلش بول رہا تھا۔ دورانِ گفتگو میری زبان سے نکل گیا، آپ اسے میری غلطی کہہ لیں: اچھا ! یہ بتاؤ کیا تمہیں یہودی اتنی رقم دیتے ہیں جو تم بے دریغ اپنی کتب پر خرچ کرتے ہو؟ اس نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا: اگر ہمیں یہودی اسلام کی خدمت کے لئے رقم دیتے ہیں تو یہ بڑی اچھی بات ہے! میں لاجواب ہو گیا۔ اس نے ہمیں تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ وہ کس طریقے سے نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور کتنی سیل کرتے ہیں۔ ہماری میٹنگ کسی نتیجہ پر پہنچے بغیرختم ہو گئی۔ ہم نے ہاتھ ملائے تو پھر رابطہ کرنے کے وعدہ پر ایک دوسرے کو الوداع کیا۔
    ایبرو کے مسلسل فون آتے رہے۔ لگتا تھا کہ اس کی ڈیوٹی تھی کہ دارالسلام کو ہارون یحییٰ کی کتب شائع کرنے پر رضا مند کرے۔
    میرے بچوں نے کئی مرتبہ ترکی جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے کئی مرتبہ انہیں ترکی کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ کتنا خوبصورت ملک ہے۔ اب انہوں نے بار بارباصرار مجھ سے مطالبہ کیا۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے وقت نہ ہونے کا بہانہ بناتا چلا آ رہا تھا کہ پھر کبھی کسی وقت چلیں گے‘ ذرا صبر کریں۔ پھر قارئین کرام !میں نے ایک فیصلہ کیا کہ مجھے بذات خود استنبول جا کر ہارون یحییٰ کے دفاتر کا معائنہ کرنا چاہیے۔ آدمی کچھ نہ کچھ تو ضرور سیکھتا ہے۔ مجھے اس کے منہج اور عقیدہ کا بھی علم ہو جائے گا۔ ایبرو کا فون آیا تو میں نے کہا کہ میں استنبول آنا چاہتا ہوں اور وہاں آپ لوگوں کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں۔ اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ ہر قسم کی سہولت کی پیشکش کی۔ میں نے کہا کہ صرف مجھے آپ لوگوں کے دفاتر دیکھنے ہیں اور آپ کے اعلیٰ عہدے داران سے ملاقات کرنا ہے۔ کہنے لگی: ہارون یحییٰ تو آپ سے ملاقات نہیں کر سکیں گے البتہ ان کے نائب آپ کے ساتھ ضرور ملاقات کریں گے۔
    میں نے اہلیہ اور بچوں سے کہا: دیکھو! ہم 7 دنوں کے لئے ان شاء اللہ ترکی جائیں گے۔ ان میں 4 دن آپ کے لئے اور 3 دن میرے اپنے کاموں کے لئے ہوں گے۔ میں جہاں چاہوں میٹنگز رکھوں‘ کسی سے ملاقات کروں۔ آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بچوں نے نعرہ بلند کیا کہ ابو کے ساتھ خاصا وقت گزاریں گے۔ الحمدللہ! میں نے ایبرو سے کسی قسم کا تعاون نہیں لیا۔میں ریاض میں ترکی کے سفیر سے ملا،انہیں کچھ کتابیں گفٹ کیں،انہوں نے خوشی سے ویزے لگا دیے۔ استنبول میں میرے اپنے نمائندے نے ہمارے لئے سمندر کنارے ایک اپارٹمنٹ بک کروا دیا۔ ہم شارجہ سے ہوتے ہوئے استنبول پہنچ گئے۔
    حسب وعدہ بچوں نے مجھے 3 دن کے بعد فری کر دیا۔ اسی دوران مجھے ہارون یحییٰ کے دفاتر دیکھنے‘ ان کے ذمہ داران اور بعض کارکنان سے تفصیلی ملاقات کا موقع مل گیا۔ بلاشبہ ان لوگوں نے لاکھوں ڈالرہارون یحییٰ کی کتب اور سی ڈیز پر خرچ کر رکھا تھا۔ میں ان کے 3 دفاتر میں گیا۔ بڑے خوبصورت اور منظم دفاتر تھے۔ میں نے گھنٹوںان کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقات کی۔ سوال و جواب ہوتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ میں ان کی درخواست تسلیم کر لوں گا۔ آخری روز ہماری فیصلہ کن میٹنگ تھی۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بس ہماری کتب مکہ اور مدینہ کے مکتبات پر ملنی چاہئیں۔ یہ وہ دور تھا جب مکہ مکرمہ میں حرم شریف کے ارد گرد کوئی 40کے قریب مکتبات تھے۔ الحمدللہ! ہر مکتبہ پر ہماری کتب دستیاب تھیں۔ اسی طرح مدینہ شریف میں بھی مسجد نبوی شریف کے اطراف میں کوئی30 مکتبات تو ضرور ہوں گے‘ ان پربھی دارالسلام کی کتب میسر تھیں۔
    میں اس ترک باشندے کا نام بھول چکا ہوں جس نے مجھے اپنا تعارف کروایا تھا کہ وہ ہارون یحییٰ کے کاروباری معاملات کو سنبھالتا ہے اور وہ خود کپڑے کے بڑے کارخانے کا مالک ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے ہاں تاجروں کا ایک بڑا گروپ ہے جو ان دفاتر کے مکمل اخراجات ادا کرتا ہے۔ ہم آخری اور فیصلہ کن میٹنگ میں بیٹھے۔
    ہمارا ترکی دوست متعجب تھا کہ یہ شخص پیسے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔ میں نے الحمدللہ! اس روز اسے ایمان کی حقیقت سے آگاہ کیا۔ راقم کو اپنی انگلش پر عبور کا دعویٰ نہیں‘مگر ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ میرا سینہ کھول دیتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس سے کہا:
    کعبے کا رب گواہ ہے کہ ہم نے مال و دولت حلال طریقے سے کمایا ہے۔ تم اگر مجھے کل استنبول کی چابی پیش کرو اور کہو کہ عبدالمالک !تم آج سے استنبول کے میئر ہو، شرط یہ ہے کہ تم انجیل شائع کرو گے تو اللہ کے فضل سے میںاس منصب کی طرف دیکھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوں۔ہارون یحییٰ کی کتب میں حدیث کی کوئی بات نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کا فلسفہ قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہے۔ بلاشبہ عام آدمی کو تو ان کتب میں کوئی نا مناسب بات نظر نہیں آئے گی‘ مگر ہم توحدیث کے ماننے والے ہیں۔ رہی تمہاری دولت تو مجھے الحمدللہ! اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔
    میں بولتا چلا گیا‘ وہ میرا منہ تکتا رہ گیا۔ اسے سخت مایوسی ہوئی۔اسے خیال تھا کہ ایک شلوار قمیص والے پاکستانی کو دولت کا لالچ دے کر پھنسایا جا سکتا ہے۔ میرے اللہ نے میرے ایمان کو مضبوط رکھا۔ میں نے ٹیکسی لی اور اپنی قیام گاہ پر آ گیا۔
    اپنے الفاظ اب صحیح یاد تو نہیں رہے لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے اہلیہ کو یہی کہا ہو گا کہ تمہارا خاوند اپنا ایمان اور دین بچا کر واپس آ گیا ہے۔
    الحمدللہ! میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ اس شخص کا تعلق اسلام مخالف گروپ سے ہے۔
    قارئین کرام! ترکی میں ہزاروں اسلام مخالف تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘مگر میرے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ چلئے ایک واقعہ پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں:
    اللہ کے رسول اپنے صحابہ کرام کے ساتھ خندق کی کھدائی کر رہے ہیں۔ کھدائی کے دوران راستے میں ایک چٹان آ گئی۔ صحابہ کرام ؓنے کوشش کی‘ مگر چٹان بڑی مضبوط تھی ،اپنی جگہ سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔ اللہ کے رسول کوخبر دی گئی۔ آپ تشریف لائے‘ خندق میں اترے‘کدال کو پکڑا ۔ بسم اللہ کہا اور زور سے اسے چٹان پر مارا۔ چنگاری اڑی‘ آپ نے ارشاد فرمایا :
    أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الشَّامِ۔
     ’’ مجھے ملک شام کی چابیاں عطاء کر دی گئی ہیں،میں اس کے سرخ محلات کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘
    اللہ کے رسولنے رومیوں کے خلاف مسلمانوں کو فتح کی بشارت عطا فرما دی تھی چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں شام فتح ہو جاتا ہے۔ وہ روم جس کے خلاف عرب فتح کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے…آئیے حدیث پڑھتے ہیں۔
    مسند احمد میں ہے کہ اللہ کے رسولنے پیش گوئی فرمائی:
    لَتَفْتَحُنَّ الْقُسْطَنْطِینَۃَ فَلَنِعْمَ الأَمِیرُ أَمِیرُ ھَا وَلَنِعْمَ الْجَیْشُ ذٰلِکَ الْجَیْش ۔
    ’’تم قسطنطینہ کو ضرور فتح کرو گے‘ اس کا امیر بہترین امیر اور یہ فوج بہترین فوج ہو گی۔‘‘
    یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر دور میں قسطنطنیہ جس کا موجودہ نام استنبول ہے، اسے فتح کرنے کی پوری کوشش کی۔ سیدنا امیر معاویہؓ کے دور میں پہلی کوشش ہوئی، مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
    یہ وہی معرکہ تھا جس میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ بھی شریک تھے۔ انہوں نے ترکی میں ہی وفات پائی۔ وصیت کے مطابق انہیں استنبول کی حدود میں دفن کیا گیا۔
    راقم الحروف کو بھی ان کی قبر دیکھنے اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے 11 حملے کیے، مگر اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کہ یہ سعادت جن کے حصے میں آئی‘ ان کے لئے کہوں گا: ذاَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَّشَائُ۔
    راقم الحروف ایک مدت سے قرآن کریم کے جرمن زبان میں مترجم کی تلاش میں تھا۔ بلاشبہ جرمن زبان کے متعدد تراجم دستیاب ہیں مگر نوبل قرآن میں ڈاکٹر محمد محسن خان‘ ڈاکٹر تقی الدین الھلالی اور دارالسلام کے ریسرچ سیکشن نے قرآن پاک کی شرح احادیث سے کی ہے۔ زیادہ تر احادیث بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث سے لی گئی ہیں۔ ان شاء اللہ اس میں تمام احادیث صحیح ہیں۔ سبحان اللہ! اگر قرآن پاک کی شرح اللہ کے رسول کے ا رشادات سے ہو جائے تو اس کی اپنی لذت ہے۔
     ایک ترکی دوست کی معرفت ابو انس سیف الاسلام تک رسائی ہوئی۔ والدین ترکی سے ہیں بلکہ ان کے والد ترکی کے ایک بڑے شہر کی بلدیہ کے میئر رہے ہیں۔ ابو انس جرمنی میں پیدا ہوئے، وہیں تعلیم حاصل کی، پھر قسمت نے یاوری کی تو مدینہ یونیورسٹی کے حدیث کالج میں داخلہ مل گیا ۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے تو جرمنی میں دعوہ سینٹر بنالیا۔ انہوں نے جرمنی میں دعوت کے کام کو آگے بڑھایا۔ کوئی 40 کے لگ بھگ کتابیں ترجمہ یا تالیف کیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو عجیب صلاحیتیوں سے نوازا ہے۔ 5,4 زبانیں بولتے ہیں۔ والد کی طرف سے سیادت‘ لیڈری ورثہ میں ملی ہے۔ ان کے والد ترکی کے وزیر اعظم رجب اردوگان کے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔

شیئر: