ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی مہمان خصوصی تھے، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے علاوہ ہندوستان سے نامور شعراء کی شرکت، بہترین کارکردگی پر ایوارڈ کی تقسیم
* * * رپورٹ : محمد ایوب صابر۔الخبر* * * *
الخبر:گزشتہ دنوں منطقہ شرقیہ کی ایک نمایاں تنظیم ’’بھوپال این آر آئی ویلفیئر فورم ‘‘ نے جشنِ غالب کے سلسلے میں ایک یادگا رعالمی مشاعرے کا جبیل میں انعقاد کیا جس میں ہندو پاک اور خلیجی ممالک سے اردو شعرا ء کرام نے شرکت کرکے اِسے ایک شاندار مشاعرہ بنا دیا۔ مشاعرے کی صدارت بین الاقوامی شہرت کے حامل ارضِ مقدس کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر سید نعیم حامد الحامد نے فرمائی۔ انڈین ایمبیسی ریاض کے فرسٹ سیکریٹری ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی مہمان خصوصی کی نشست پر جلوہ افروز تھے۔مزاح گو شاعر سلیم حسرت نے نظامت کی ذمہ داری انجام دی۔
تقریب2حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں بھوپال این آر آئی ویلفیئر فورم کے اغراض و مقاصد، مرزا غالب کے فن پر روشنی اور ایوارڈز تقسیم کیے گئے جبکہ دوسرے حصے میں یاد گار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔مہمانِ خصوصی نے شمع روشن کی۔4مختلف ہالز میں پروجیکٹر لگا کر خواتین کے لئے علیحدہ بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت نامور شاعر و ایریا گورنر ٹوسٹ ماسٹرز کلب وقار ضیاء نے خوش لحن آواز میں حاصل کی۔ بھوپال این آر آئی کے ڈائریکٹر سید اقبال حسین نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا دوسرا سالانہ مشاعرہ ہے جس میں ہم تمام معزز شعرا ،مہمانان اور سعامعین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
بھوپال این آر آئی کے صدر وعلمی ادبی اور سماجی شخصیت شہریار محمد خان کو خطاب کی دعوت دی گئی جنہوں نے مہمانوں کا استقبال کیا ۔ شہریار نے اپنے خطاب میں کہاکہ نیلسن منڈیلا نے کہا تھاکہ’’ تعلیم کے ذریعے آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں‘‘۔تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردا ر ادا کرتی ہے۔ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ رہنما ہی قوم کو ترقی کی منزل سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
شہریار محمد خان نے بھوپال این آر آئی کے ڈائریکٹرز منصور صدیقی، رشید خان، رفعت اقبال فاروقی، سید اقبال حسین، بابر خان اور امین خان کو شہ نشین پر خوش آمدید کہا۔ مہمانِ خصوصی حفظ الرحمن اعظمی اور تمام ڈائریکٹرز نے تالیوں کی گونج میں سالانہ مجلے ’’بھوپال این آر آئی ورلڈ‘‘ کی رونمائی کی۔اِس موقع پر ارشد رضا کے شعری مجموعہ ’’سٹی آف ہارٹ‘‘ کی بھی رونمائی کی گئی۔
مجلہ اور شعری مجموعہ کی رونمائی کے بعد شہریار محمد خان نے اعلان کیا کہ آج جشنِ غالب میں خود مرزا غالب تشریف لائے ہیں اور نامور شاعر سید باقر علیگ ،مرزاغالب کے حلئے میں سامعین کو سلام کرتے ہوئے اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ سامعین نے پْرجوش انداز میں اْن کا استقبال کیا۔ سید باقر علیگ نے مرزا غالب کے لہجے میں کہا کہ میں بھوپال این آر آئی ویلفیئر فورم کا شکر گزار ہوں۔اِس جشن میں نئی نسل کا مرزا غالب سے تعارف مقصود ہے کیونکہ نئی نسل ہم سے ناآشنا ہوگئی ہے۔
مہمانِ خصوصی حفظ الرحمن اعظمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اردو ادب کے حوالے سے منعقد ہ جشنِ غالب کا حصہ بن سکا ہوں۔اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے بھوپال این آر آئی کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔
اب ایوارڈز دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔’’کاروانِ بھوپال ایوارڈ2017‘‘ مہمان خصوصی ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی کو تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات پر دیا گیا۔’’ کیف بھوپالی ادبی ایوارڈ 2017‘‘ ادب میں نمایاں خدمات پر اقبال احمد قمر کو دیا گیا۔’’ بھوپال این آر آئی بیسٹ ایجوکیشن ایوارڈ 2017‘‘ ڈاکٹر صدیق احمد کو دیا گیا۔’’ لائف اچیومنٹ ا یوارڈ 2017‘‘ فٹ بال میں نمایاں خدمات پر ڈاکٹر عبدالسلام کنعان کو دیا گیا۔
اب سامعین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ سامعین شعرا ء کو سننے کیلئے بے تاب تھے۔ جب پاپولر میرٹھی ، ماجد دیوبندی اور منظر بھوپالی شہ نشین پر موجو د ہوں تو سامعین کی بے قراری سمجھ میں آتی ہے۔ پُرجوش تالیوں کی گونج میں شعر ی نشست کا آغاز ہوا۔ شعرا ء بھی سامعین سے ہمکلام ہونے کیلئے بے تاب تھے۔ شعرا ئے کرام نے کلام کا آغاز کیا تو سامعین کے بے قرار چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔
شعرا ء نے اپنی اپنی شعر ی زنبیل سے اشعار کے موتی نکال کر سامعین پر نچھاور کرنے شروع کیے۔ الفاظ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ پہلے مقامی شعراء نے اپنا کلام سنایا… اور مشاعرے کا ماحول بن گیا۔اْس کے بعد خلیجی ممالک سے آئے ہوئے شعرا ء نے اپنے فن کا جادو جگانا شروع کیا۔ اب مشاعر ہ عروج پر پہنچ چکا تھا لیکن سامعین کی بے قراری ابھی تک باقی تھی۔ جب پاپولر میرٹھی ، منظر بھوپالی اور ماجد دیوبند ی نے اپنا کلام سنایا تو سامعین نے دل کھول کر دا د دی۔ جبیل کی فضا میں ایک کامیاب اور یادگار مشاعرے کی کارروائی جاری تھی۔کاروانِ بھوپال نے ایک اور سنگِ میل عبور کر لیا تھا۔ سامعین نے آخر تک شامل ہو کر مشاعرے کو کامیاب کیا تھا۔
اب رات کا تیسرا پہر شروع ہو چکا تھا۔مشاعرہ اپنی آب و تاب سے جاری تھا۔ رمیض مرزا، سید باقر علیگ، سلیم حسرت، سید شیراز مہدی ضیا،راقم الحرو ف، سہیل ثاقب، اقبال احمد قمر، اشعرحسن، اقبال طارق، سید اعجاز پاپولر میرٹھی، منظر بھوپالی، ڈاکٹر ماجد دیوبندی اور سیدنعیم حامد الحامد نے اپنا کلام پیش کیا۔
رفعت اقبال فاروقی نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے ہند،پاکستان، خلیجی ممالک اور مملکت سعودی عرب کے طول و عرض سے آئے ہوئے شعراء مہمانان اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کاروانِ بھوپال کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے اور اگر کوئی کمی رہی تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ا س طرح یہ یاد گار مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔
عامر اقبال، ارشد محسن بھوپالی، انجم خان، محمد شاداب خان، شاہد اعظمی، فیصل ظہیر خان، طاہر خان،انتخاب عالم، سید اطہر حسین، سید اشفاق حسین، فیضان ارشد، ایاز عرفان جعفری ، سید فیض علی، فیصل محمد اسلم، عرفان جعفری ، نغمہ صدیقی، طاہرہ رشید، حمیرا صدیقی، شبیہ بابر، صوفیہ ظہیر خان، شہلا اقبال، عفت عرفانہ، مسرت فرید، دیبہ شاہد، عرشیہ عامر، عروج فاطمہ صدیقی ارفع بابر خان اور دوسرے مہمانان کی شرکت نے مشاعرے کو رونق افروز کیا۔