سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے حوالے سے منگل 5دسمبر 2017ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” عکاظ“ کے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
اژدھوں کے سر پر رقص کا ماہر....صالح
جمیل الذیابی۔ عکاظ
سیاست نے غداری،خونریزی اورلوٹا پالیسی کا مظاہرہ کرکے سازشی حوثیوں کی گولی سے سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کا المناک انجام رقم کردیا۔ علی صالح صنعاءمیں جھڑپوں کے دوزخ سے نکل کر دارالحکومت سے 40کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع اپنے وطن عزیز سنحان جارہے تھے۔ المیے کا انتہائی درد ناک پہلو یہ ہے کہ انہیں حوثی گروہوں کی ملیشیا اور پیپلز کانگریس کے درمیان شراکت کے خاتمے کے اعلان کے بعد منظر نامے سے ہٹایا گیا۔ بلاشبہ علی صالح کا قتل انکے حامیوں اور انکے مخالفین کے درمیان زبردست خونریزی کا باعث بنے گا۔
بلاشبہ علی صالح کو جس بھیانک انداز سے قتل کیا گیا اورجس طرح انکی لاش کی بیحرمتی کی گئی اور جس طرح حوثیوں نے انتہائی مکاری و عیاری کیساتھ انکی لاش کی تصویر سوشل میڈیا اور ایرانی ملیشیا کے ماتحت سیٹلائٹ چینل پر دکھائی، وہ ہر لحاظ سے سب کیلئے حیرت انگیز ہے۔ یہ واقعہ یمن کے عرب تشخص کے حوالے سے علی صالح کے ضمیر کی بیداری کے ٹھیک3دن بعد پیش آیا۔ علی صالح کو 3 دن قبل یہ احساس ہوگیا تھا کہ انہیں ایرانی سازش نافذ کرنے والوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہیں یقین ہوگیاتھا کہ ایرانی تسلط کا دائرہ صنعاءکے دروازوں تک محدود نہیں رہیگا بلکہ تمام عرب دارالحکومتوں کے باشندوں اور عرب تشخص کے علمبردار قلعوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے آگے بڑھے گا۔
علی صالح کی بعداز خرابی بسیار بیداری تو انکی سابقہ پالیسیوں سے پیدا ہونے والے نقصانات کی اصلاح نہ کرسکی تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ انکی آخری وقت کی بیداری زمینی حقائق تبدیل کریگی اور یمنی بحران کے مستقبل پر اثر انداز ہوگی۔
علی صالح کی ریاست کے مرد ِاول کی حیثیت سے اقتدارکی کرسی پر جمے رہنے کی صلاحیت بہت سارے لوگوں کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کئے ہوئے تھی۔ وہ یمنی انقلاب میں شریک ہوئے تھے ۔ انہوں نے ہی جمہوریہ یمن کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یمن کے جنوبی عوام کیخلاف بے شمار جنگیں لڑی تھیں۔ انہوں نے حوثیوں کے خلاف صعدہ میں 6جنگیں کی تھیں۔ صالح ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ یمن کا حکمراں وہی بن سکتا ہے جو اژدھوں کے سروں پر رقص کا ماہر ہو۔ وہ خود کو اقتدار سے ہٹانے والوں کو چیلنج دیا کرتے تھے کہ میرے خلاف صنعاءمیں مظاہرین جمع کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ٹرین آگے بڑھ چکی ہے۔
صنعاءمیں حوثیوں کیخلاف مزاحمت کا آتش فشاں بھڑک چکا ہے۔ مزاحمت کرنے والوں کو نہ تو بندوقوں کی نالوں سے دھمکایا جاسکتا ہے نہ گولہ بارود سے انہیں خوفزدہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی خامنہ ای کے دھن سے انہیں راغب کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی امیر قطر کی بخششوں سے انہیں چپ کیا جاسکتا ہے۔ علی صالح کا بیٹا احمداور انکا بھتیجا بریگیڈیئر طارق محمد دونوں فوجی ہیں۔ جلد ہی علی صالح کے انتقام کا اعلان عام کرینگے اور عبدالملک الحوثی کیخلاف نئے اتحاد بنائیں گے۔ حوثی کو اژدھوں کے سر پر رقص سیکھنے سے قبل اپنے سرکی حفاظت کرنا ہوگی کیونکہ مشترکہ یمنی مزاحمت کا اژدھا بالآخر اسے نگل جائیگا اور ایران اس سے دستبردار ہوجائیگا۔