Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زن و شو ، حقوق اور فرائض پر مبنی رشتہ

والدین   اپنے گھر ،  بچوں کے ا سکول وکالج اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں ، اگر یہ تینوں جگہیں ٹھیک ہیں تو ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کریں
* * * محمد منیر قمر۔الخبر* * *
    اولاد میں راہِ راست سے انحراف کیسے پیدا ہوتا ہے ؟ ان میں بری عادات اور جرائم کیسے جنم لیتے ہیں؟ اسکے متعدد اسباب ہیں جن میں سے بعض کا ذکر گزشتہ قسط میں کرتے ہوئے والدین کی لڑائی اور جھگڑا پر بات ختم کی گئی تھی، اِ س پرمزید اسبا ق پیش ہیں  ۔
    اسلام نے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار رکھنے کی ذمہ داری میاں اور بیوی دونوں پر عائد کی ہے۔ عورت کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے اور رب کی جنت کی مستحق ہوجائے ، ترمذی و  صحیح الجامع میں رسول اللہ  کا فرمان ہے: 
    ’’ عورت جب پنج وقتہ نماز پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے، اپنے شوہر کی اطاعت کرے   اور اپنی عصمت کی حفاظت کرے  تو اس سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ وہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ ‘‘ 
    ایک حدیث میں شوہر کی خواہشِ نفس کا احترام و تسکین نہ کرنے کو فرشتوں کی لعنت کا موجب قرار دیا گیا ہے۔یہ اسلئے کہا کیونکہ اکثر مسائل اسی انکار کے سبب پیش آتے ہیں۔ ،  رسول اللہ  کا ارشاد ہے :
    ’’ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ہم بستری کیلئے بلائے  اور وہ آنے سے انکار کردے اور اس نے ناراضگی کی حالت میں رات گزاری   تو صبح ہونے تک ﷲ کے فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداؤدو صحیح الجامع)۔
    مرد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، فرمانِ نبوی  ہے :
    ’’ عورتوں کے متعلق ﷲ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں ﷲ کی امانت سمجھتے ہوئے اپنی زوجیت میں لیا ہے اور ان کی عصمتوں کو ﷲ کے کلمہ سے اپنے لئے حلال کیا ہے ، تم پر انکا حق یہ ہے کہ تم انہیں بھلے طریقے پر خوراک اور لباس و پوشاک مہیا کرو۔‘‘(مسلم)۔
    نبی  نے بیوی کی کسی ناپسندیدہ عادت پر شوہر کو یہ کہتے ہوئے صبر کرنے کی تلقین کی کہ وہ اپنی بیوی کی خوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کرے ، اس کی طرف صرف ناراضگی اور کراہت کی نظر سے ہی نہ دیکھے :
    ’’کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت ( اپنی بیوی ) سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگراسے اس کی کوئی عادت نا پسند ہے تو کوئی دوسری پسند بھی آئے گی۔‘‘(مسلم ومسنداحمد)۔
    نبی   نے بہترین مرد انہیں قرار دیا ہے جو اپنی بیویوں کیلئے سب سے اچھے ہوں :
    ’’ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کیلئے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہوں۔‘‘(ترمذی ) ۔
    ایک حدیث میں شوہر کو تاکید کی گئی ہے کہ بیوی سے جو کچھ میسر آئے لے لے کیونکہ اس میں ٹیڑھا پن ہونا لازمی ہے اور آدمی اسی طبیعت پر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس پر وہ پیدا کی گئی ہے۔ بخاری و مسلم میں فرمانِ نبوی  ہے :
      ’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو اسکا بلند حصہ ہے ،اگر تم اسے بالکل سیدھا کرنا چاہوگے  تو اسے توڑ (طلاق دے ) دوگے اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہیگی   لہٰذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔‘‘ 
    عورتوں میں شوہر کو کچھ نہ کچھ کہتے رہنے کی فطری عادت ہوتی رہتی ہے۔اس سے تنگ آکر ایک مرتبہ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ اپنی بیوی کی شکایت لے کر حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کی خدمت میں پہنچے۔جاکر دیکھا تو ان کے گھر کا معاملہ بھی اپنے گھر سے کچھ الگ نہیں تھا ۔ امیر المؤمنین کی بیوی بھی انہیں کچھ کڑوی کسیلی سنارہی تھیں۔ ابن مسعودؓ  الٹے قدم واپس آئے۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ  کو  طلب کیا اور آکر واپس چلے جانے کی وجہ پوچھی  تو انہوں نے  فرمایا:
     ’’ جس اُفتاد کی شکایت لے کر آپ کی خدمت میں پہنچا تھا اسی مصیبت سے آپ بھی دوچار تھے تو واپس چلا گیا۔ ‘‘
    حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ نے فرمایا:
      ’’اے  ابن مسعود ! میں آپ کو قریش کا عقلمند آدمی سمجھ رہا تھا ، آج پتہ چلا کہ تم ایسے نہیں ہو ، دیکھو!ﷲ تعالیٰ نے بیوی ہونے کے ناتے عورت پر جو فریضہ عائد کیا ہے وہ یہ کہ جب شوہر اسے اپنے بستر کی طرف بلائے تو وہ چلی آئے   لیکن اس سے بڑھ کر وہ ہمارے گھر کی حفاظت کرتی ہے ، بچوں کی پرورش کرتی ہے، ہمارے جانوروں کی خدمت کرتی ہے ، ہمارے گھر کی صفائی کرتی ہے ، ہمارے لئے کھانا پکاتی ہے وغیرہ ۔جب بیوی کے اتنے سارے احسانات ہم پر ہیں ،اگر وہ کبھی ہم پر گرجتی برستی ہے تو برسنے دو ، اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے ؟۔‘‘
    نبی    اپنی بزرگی اور عظمت کے باوجود بیویوں کے ساتھ نہایت ہی خوشگوار طور پر زندگی بسر فرماتے تھے ،ہنسی مذاق اور کھیل کود میں بیویوں کو شریک فرماتے ۔  ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں سفر میں آپ کے ہمراہ تھی، آپ نے قافلہ والوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا ، جب قافلہ آگے بڑھ گیا تو فرمایا  : 
    ’’چلو ہم اور تم دوڑ لگاتے ہیں ۔‘‘
    میں ہلکی پُھلکی تھی ، دوڑ میں آپ کو پیچھے چھوڑ دیا، پھر چند سالوں بعد جب میرا وزن کچھ بڑھ گیا ، توایک سفر کے  دوران آپ  نے کارواں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا ، پھر مجھ سے فرمایا :
    ’’ چلو دوڑ لگاتے ہیں۔ ‘‘
    اب کی بار آپ مجھ سے آگے بڑھ گئے اور فرمایا :
      ’’ میں نے پچھلا حساب چکا دیاہے۔ ‘‘ ( ابو داؤدو نسائی)۔
     حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ جیسے قانون اور انصاف کے معاملے میں سخت طبع حکمران بھی گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہوجاتے تھے، خود فرماتے ہیں:
     ’’آدمی کو اپنے گھر میں محبت اور نرمی میں بچے کی طرح ہونا چاہیئے  اورجب لوگوں میں ہو تو مرد بن کر رہے۔ ‘‘( تربیۃ الأولاد فی الإسلام )۔
     ہمارے پیارے نبی  اپنے گھر میں ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں :
    ’’ آپ  گھر میں وہ تمام کام کرتے تھے جو تم میں سے ایک عام آدمی کرتا ہے ، کوئی چیز ایک جگہ سے اٹھاتے اور دوسری جگہ پر رکھتے تھے ، گھر کے امور میں اپنی بیویوں کی مدد فرماتے ، کپڑے سی لیتے ، جوتا گانٹھ لیتے ، گوشت کاٹ کر دیتے ، گھر میں جھاڑو دیتے   اور خادم کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتے تھے۔‘‘ (ترمذی وطبرانی  ) ۔
    یہ وہ  مبنی بر انصاف حقوق و فرائض ہیں جو اسلام نے میاں بیوی دونوں پر عائد کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرے میں ان حقوق پر کما حقہٗ عمل ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ معاشرہ انسانیت کا سب سے زیادہ سعادت مند ، خوشگوار ٗ محبت بھرا اور ہنستا کھیلتا معاشرہ ہوگا  ۔ اس معاشرے میں دشمنی ، نفرت ، حقارت ،بیوی پر ظلم و زیادتی ،گالی گلوچ ، الزامات و تہمتوں، طلاق اور خلع جیسی مکروہ چیزوں کو ہرگز ہرگز کوئی جگہ نہیں ملے گی ۔
     ٭باپ کی بد سلوکی  :بچوں کے انحراف میں باپ کی بد سلوکی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ اگر باپ بری عادتوں مثلاًشراب خوری ، قمار بازی کا عادی ، جھگڑالو، بد زبان اور بات بات پر بچوں کو بری طرح پیٹنے والا ، انہیں مختلف ذریعوں سے ذلیل کرنے والا ، ان کا مذاق اڑانے والا ، ان کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے والا اور ان کی عزتِ نفس کو خاک میں ملانے والا ہو  تو بچے بچپن میں تو باپ سے ڈرے سہمے رہتے ہیں لیکن جوان ہونے کے ساتھ ہی وہ باپ کے باغی بن کر اس کی ناقدری پر اتر آتے ہیں ۔ باپ کیلئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ پیار ومحبت اور شفقت ومہربانی کا سلوک کرے ۔ اگر کبھی کچھ ڈانٹ ڈپٹ اور ہلکی سی مار کی ضرورت بھی پیش آجائے تو تھوڑی دیر بعد اس سے محبت کا سلوک کرے  تاکہ بچے کے قلب وذہن میں یہ بات نہ بیٹھ جائے کہ میرا باپ ہمیشہ مجھے   مارتا ہی رہتا ہے۔ والد کے لئے ضروری ہے کہ بچے اگر کبھی کچھ غلطی کرجائیں   یا شرارت کربیٹھیں تو بجائے مارنے کے انہیں پیار ومحبت سے سمجھائے اور ان کے عمل سے ہونیوالے نقصان کی انہیں تفصیل بتائے۔ جب شرارتیں حد سے گزر جائیں تو نفسیاتی طور پر ان پر اثر ڈالے اورتھوڑی دیر کیلئے ایسا انداز اپنائے کہ انہیں احساس ہو کہ ہمارا والد ہم سے ناراض ہے  اور ان کی تربیت میں رحم دلی اور محبت کے تمام تقاضوں کو پورا کرے۔ اگر پیار ومحبت کے اسلامی خطوط پر بچوں کی تربیت ہو تو ان سے ہم بجا طور پر یہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں والدین کیساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئینگے۔ 
    اس بات سے ہر خاص وعام واقف ہے کہ بچے قوم و ملت اورملک کے مستقبل ہیں ۔ یہ وہ بیج ہیں جنہیں اگر زرخیز زمین میں بویا جائے ، پھر اس کو تقویٰ اور ایمان کے پانی سے سیراب کیا جائے تو ہمیشہ اچھے پھل دیں گے ۔ اگر بچوں کی تربیت کا ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ 3 ماحول ایسے ہیں جو انہیں اچھا یا بُرا بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور وہ ہیں :  ۰ گھر وخاندان۰ مدرسہ۰ معاشرہ ۔
    تربیتی ماحول کے ان تینوں اہم مقامات کا اچھا اور نیک ہونا فرد کے اخلاق وکردار کی بھلائی کا ضامن ہوتا ہے اور ان تینوں کا بُرا اور بگڑا ہوا ہونا فرد کے بگاڑ اور فساد کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ﷲ تعالیٰ نے شریعت ِ اسلامیہ کو انسانیت کی فلاح و کامیابی کیلئے نازل فرمایا ہے اسی لئے تربیت کے ان تینوں اہم مصادر کو ٹھیک رکھنے کیلئے ضروری ہدایات دی ہیں :
    گھر کے متعلق   ارشاداتِ نبویؐ ہے  :
    *’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ، پھراس کے ماں باپ یا تو اسے یہودی بنادیتے ہیں  یا عیسائی  یامجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘ 
    *’’بچوں کو جب وہ 7 سال کے ہوجائیں تو نماز پڑھنے کی تاکید کرو  اور جب10سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستروں کو جدا کردو۔‘‘(ابوداؤدومسند احمد)۔
    گھر کا ماحول اسلامی ہے اور والدین پابندِ شریعت ہیں تو ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی ماحول میں پرداخت کریں گے ۔ اگر معاملہ بر عکس ہے تو گھر کا غیر دینی اور فیشن زدہ  ماحول اولاد کو راہِ حق سے بھٹکانے کیلئے کافی ہے۔
     ٭ مدرسہ : گھر کے بعد بچے اپنا زیادہ وقت مدرسہ ، اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں گزارتے ہیں۔یہاں پر آنے کے بعد بچوں کے مستقبل کا دار ومدار2اہم رہنماؤں پر ہوتا ہے  یعنی استاد ومدرّس ۔ مدرس بچوں کی زندگی کے مقاصد کا رُخ متعین کرتا ہے۔ اگر مدرس ذمہ دار اور بچوں کی تربیت میں مخلص ہے تو بچوں کی تعلیمی زندگی پر اس کے بڑے نیک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اگر بدقسمتی سے استاد غیر ذمہ دار بلکہ بد اخلاق ہو ، تدریس کو بس کھانے کمانے کا ایک پیشہ سمجھتا ہو جیسا کہ آج کل کالج اور یونیورسٹیوں کا ماحول ہے کہ پروفیسر حضرات بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ مل بیٹھ کر شراب نوشی کرتے ہوئے پکڑے گئے ، تو ایسا مدرس بچوں کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کرے گا ۔
    ٭ تعلیم : تعلیم ہی بچوں کی معاشرتی زندگی کی رہنمائی کرتی ہے  اور تعلیم کیلئے ضروری ہے کہ وہ صحیح منہج اور فکرِ سلیم سے متصف ہو۔ اگر کوئی تعلیم ان اوصاف سے متصف نہیں تو پھر یہ بنی نوع انسان کیلئے زہرِ ہلاہل ہوگی ۔غیر اسلامی افکار ، ملحدانہ نظریات  اور مجنونانہ تھیوریوں سے جو تعلیم متعلق ہوگی وہ بچوں کیلئے بلائے جان ہوگی اور افسوس کہ آج اکثر حکومتوں کی تعلیم سرمایہ دارانہ نظریات  یا کمیونسٹ افکار  یا سوشلزم کی دعوت پر مشتمل ہے اور ان تمام افکار ونظریات کا اسلام سے دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔سرمایہ دارانہ نظریات بخل وحرص پر مشتمل ہیں جس میں ہر صحیح یا غلط طریقے سے دولت کا حصول ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے تو کمیونزم اور اشتراکیت حسد وبغض پر مشتمل ہے  جس سے مالداروں اور غریبوں کے درمیان کشمکش کو ہی ’’ جہاد ‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ جمہوریت کا حال بھی یہ ہے کہ اس میں قوم پرستی کو اوّلین مقام   حاصل ہے ۔اندھی قوم پرستی جس میں سوائے اپنے تمام اقوام کو کمتر سمجھا جائے ، فرد اور معاشرے میں تعصّب ،تنگ نظری ، ضد اور ہٹ دھرمی کو جنم دیتی ہے اوران تمام اصول ونظریات کو تاریخ اور انسانی معاشرے نے اپنے عمل سے رد کردیا ہے اسلئے مسلمان اپنے نصابِ تعلیم میں ان تمام گمراہ اور باطل نظریات کی حقیقت واضح کرکے اسلامی اصول ونظریات کے محاسن وخوبیوں کو بچوں کے دل ودماغ میں راسخ کریں  ۔
    ٭ معاشرہ : معاشرے کی اصلاح کیلئے اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم دیا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
    ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کیلئے برپا کی گئی ہے ، تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور ﷲ تعالیٰ پرایمان رکھتے ہو۔‘‘ (عمران110)۔
    جس معاشرے میں نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنا برابر جاری ہو ، اُس معاشرے میں بُرے افراد اور سماج دشمن عناصر نہیں پنپ سکیں گے ، نتیجے میں معاشرہ صالح ہوگا ۔بچوں کیلئے نیک ساتھی اوربھلائیوں پر تعاون کرنے والے دوست واحباب میسر آئینگے   جن کی صحبت سے امید کی جاسکتی ہے کہ بچے  نیک اور صالح ہونگے  لیکن افسوس آج امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ برائیوں سے بھرگیا ہے۔ بُرے اور سماج دشمن عناصر غالب اور نیک لوگ مغلوب ہوگئے ہیں ۔ ایسے میں والدین کا اوّلین فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو بُرے ماحول ومعاشرے کے اثرات سے ممکن حد تک بچانے کی کوشش کریں ۔ 
    والدین کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنے گھر   اور بچوں کے ا سکول وکالج اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں ۔ اگر یہ تینوں جگہیں ٹھیک ہیں توﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ، اگر ان جگہوں میں سے گھر کا ماحول خراب ہے تو اپنے بچوں پر رحم کرتے ہوئے اسے دینی بنائیں ، اسکول وکالج کے ماحول کو ممکن ہوسکے تو سدھاریںورنہ کسی دوسرے مدرسہ یا کالج میں بچے کا داخلہ کرائیں۔ اگرمعاشرے کی اصلاح ممکن نہیں تو پھر اس برے معاشرے سے کسی نیک ماحول کی طرف نقل مکانی کریں  تاکہ آپ کے بچے اس غلط معاشرے سے لاحق ہونے والے نقصانات سے بچ سکیں۔
    ﷲ تعالیٰ تمام لوگوں کی اولاد کو نیک اور صالح بنائے اور ان سے سب کے دل کو راحت وسکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائے ، تمام لوگوں کی بگڑی ہوئی اولاد کو راہِ ہدایت عطا فرمائے  اور انہیں اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار بنائے ، آمین ثمہ آمین ۔
         ٭ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان 74)۔
     ٭رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ ا لصَّلٰوۃَ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ (ابراھیم 40)۔
    ٭رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ ٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن(الاحقاف  15)۔
    ٭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (الاحقاف  15)۔
 

شیئر: