زندگی کتنی قیمتی ہے، کاش اس کا ادراک کر لیاجائے
تسنیم امجد۔ریاض
انگریز ی کامعروف مقولہ ہے ” ہیلتھ از ویلتھ ،، یہ سو فیصد درست ہے کیو نکہ انسان کی صحت اگر درست ہو گی تو وہ زیادہ محنت کرنے کے قابل ہو گااور اس طرح پیسہ بھی زیادہ کما سکے گا ۔یہ درست ہے کہ ترقی پذیر مما لک میں صحتِ عامہ کی صورتِ حال نا گفتہ بہ ہے ۔اسلامی ملک ہو نے کے نا تے پا کستان میں عوام کے مسائل کی جانب حکومت کو زیا دہ تو جہ دینی چا ہئے تھی ۔ہمارے ہا ں 70برس گزرنے کے بعد بھی انسانی بنیادی ضروریات پو ری نہیں ہو سکیں ۔سا لانہ منصوبہ بندی ہو تی ہے اور کرو ڑو ں کے اہداف بھی مقرر ہوتے ہیں ۔زور و شور سے کام شروع کئے جاتے ہیںلیکن اکثر منصوبے پا یہ تکمیل کو نہیں پہنچتے ۔” بی بی ایچ “یعنی بے نظیر بھٹو ہاسپٹل کا معا ملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا ۔گو کہ اس کی اہمیت دوگنی ہے کیو نکہ را ولپنڈی میڈیکل کا لج بھی اس سے منسلک ہے یعنی یہ ٹیچنگ اسپتال بھی ہے ۔اسے را ولپنڈی جنرل اسپتال بھی کہتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں دو قسم کے اسپتال ہیں،پرا ئیویٹ اور گو رنمنٹ۔پرائیویٹ تو امراءکے لئے ہیں۔ان تک کسی عام آدمی کی رسائی نہیں جبکہ گو ر نمنٹ یعنی سرکاری اسپتالو ں کی حالت نہا یت نا گفتہ بہ ہے ۔آ ﺅ ٹ ڈور میں مریض فرش پر پڑے بے بسی سے اپنی بار یو ں کے منتظر ہو تے ہیں۔ڈاکٹر بھی ان اسپتا لو ں میںباعث مجبو ری ہی کام کرتے ہیں۔انہیں جو نہی کہیں اور سے اچھی آفر ملتی ہے ،وہ فوری چلے جاتے ہیں ۔ان کی شکایات بھی بجا ہیں کیو نکہ تنخواہو ں کے اسکیل کم ہیں ۔کام زیادہ ہے ۔اکثر ڈاکٹر پرا ئیویٹ پریکٹس کرتے ہیں اور مریضوں کوگھیر کر اپنے کلینک لاتے ہیں۔بالکل ایسے جیسے ٹیو شن کے لئے اسکول کے اسا تذہ کلاس میں نہ پڑ ھا کر اپنا مطلب نکا لتے ہیں۔ شاعر نے ایسے ہی حالات کے لئے کہا ہے کہ:
کچھ سرِ عام کچھ پسِ پردہ
اس شہر میںضمیر بکتے ہیں
ہمارے ہا ں ایک اور المیہ جعلی دوا ﺅ ں کا ہے ۔حال ہی میں ایک خاتون نے بتایا کہ اسے خبر نہیں تھی کہ پا کستان میں دوا ﺅ ں کا کام بھی ”دو نمبر “ہو تا ہے۔وہ خود جدہ سے گئی تھیں۔ان کے مطابق ،وہ ڈاکٹر کا نسخہ لے کر فا رمیسی پہنچیں تو سیلز مین نے پوچھا کہ دواکو نسی چاہئے۔ ایک کا بل اتنا ہے اور دوسری کا اتنا ۔قیمتیں میرے سامنے رکھی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ صحت خریدوں یا خانہ پری کروں۔ میرے سامنے یہ معا ملہ پہلی مرتبہ آیا تھا ۔بے یقینی کی سی کیفیت تھی۔سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا بھی ہو تا ہے ۔خیر کچھ لیکچر اسے دیا اور اصل دوا ئیں لے کر لوٹ آئی لیکن میں اس واقعے کو بھول نہیں پائی۔سو چتی ہو ںکہ کیا انسانی زندگی کی اتنی ہی حقیقت ہے؟غریب بیچا روں کو نہ اچھی اور پیٹ بھر کر خوراک میسر ہے اور نہ ہی بیماری میں خالص دوا ۔ہمارے ہاںبیمار اورلا غر مریض انتہائی کسمپرسی کی حالت میںاسپتا لو ں کے باہر کھلے آسمان تلے بے سروسامان پڑے مزید بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ہمارے دیہی علاقوں میں تو لوگ اس قدر بے بس ہیں کہ پیروں فقیروں پر مجبوری میں اکتفا کرتے ہیں ۔وہا ں جعلی ڈاکٹروں کا بھی راج ہے ۔صوبہ سندھ کے سرکاری اسپتالو ں میںاکثر بجلی نہیں ہوتی ۔مچھر اور مکھیو ں کا راج رہتا ہے۔اکثر سڑ کو ں پر پھرنے والے آوارہ کتے بھی یہا ں گھو متے نظر آ تے ہیں ۔ کھلے بر آ مدوں میں زخمی مریض مر ہم پٹی کے منتظر اپنے زخمو ں پر سے مکھیا ں بھی نہیں اڑا سکتے ۔وھیل چیئرز کے پا ئدان بھی ٹوٹے ہوتے ہیںاور مریضو ں کے پا ﺅ ں فرش پررگڑ کھاتے جاتے ہیں ۔ایک ہی اسٹریچر پر دو دو مر یض پڑے اپنی بے بسی کا ماتم کر تے نظر آ تے ہیں ۔اسی طرح وارڈو ں میں بھی ایک بیڈ پر دو مریض عام بات ہے ۔ایک مریضہ کا کہنا ہے کہ میں گذ شتہ ایک ماہ سے اپنے ارد گرد کی دکھی انسا نیت کا جا ئزہ لے رہی ہوں،مجھے ٹا ئیفا ئیڈ ہوا تھا ۔ابھی تک لٹک رہی ہو ں شاید جعلی دوائیں کھانے سے آ رام نہیں آ رہا ۔پھر کہنے لگی:
دل چاہے کچھ ایسا لکھوں
لفظو ں سے آ ہیں نکلیں
قلم سے لہو ٹپکے
کا غذ پر درد بکھرے
میری خا مو شی ٹو ٹے اور
اذ یت سے جان چھو ٹے
افسوس تو یہ ہے کہ ہر آ نے والی حکومت پچھلے دور کو نا اہل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چو ٹی کا زور لگا دیتی ہے ۔نتیجے میں منصوبہ بندی کے تحت ہو نے والا کام رک جاتا ہے ۔ملک میں ادھڑی سڑ کیں ، کچرے کے ڈھیر جا بجا دکھائی دیتے ہیں ، بد نظمی کا عفریت معاشرے کو لپیٹ میں لئے نظر آتا ہے۔ اسی لئے سیاسی رسہ کشی بھی موجود ہے جس نے عوام کا جینا دوبھر اور ملکی ترقی کا زینہ بند کر رکھا ہے ۔قوانین مو جود ہیں ،نظامِ معاشرت جاری و ساری رکھنے کے لئے ہر قسم کے ادارے مو جو د ہیں لیکن ان سے کام لینے والا کو ئی نہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ محرو میا ں انسان کو انسان نہیں رہنے دیتیں۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر کو دیکھ کر بے اختیار یہ کہنے کو جی چا ہا کہ:
”زندگی جبر کے سا نچو ں میں ڈ ھلی جاتی ہے“
اپنے ہی دیس میں بے بسی کی یہ حا لت ،واقعی خون کے آنسو رُلا دیتی ہے۔ ہمارے ہاںانتظا میہ میں قابل افراد بھی مو جو د ہیں لیکن ان کے ہاتھ بند ھے ہوئے ہیں۔کبھی ادائیگیو ں میں تا خیر ان کا راستہ روکتی ہے اور کبھی اداروں اور ٹھیکیداروں میں تنا ﺅرکاوٹیں پیدا کرتے ہیں ۔ہم نے وطن حاصل کیا کہ خو شحال زندگی گزاریں گے ۔غیر کی سا ز شو ں سے رہا ئی ملے گی لیکن اپنو ں ہی کے ہا تھو ںذلت بہت کھلتی ہے ۔
ہمارے ہاں اکثراعلان ہو تا ہے کہ اتنے بیڈ کا اسپتال شروع ہونے لگا ہے ۔معصوم عوام کو کس کس انداز میں چکمہ دیا جاتا ہے؟ حالیہ رپو رٹ کے مطابق غربت کی شر ح میں اضافہ اور متوسط طبقے کی بد حالی کی وجہ حکو متی پا لیسیا ں ہی ہیں ۔ہر نظام کے کچھ ضا بطے ہو تے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہی کا میا بیا ں ملتی ہیں ۔ہمارے عوام کی اکثریت سیاسی طور پر اتنی با شعور نہیں کہ حکو متی نما ئندو ں کا چنا ﺅ ان کی قابلیت کو دیکھ کر کرسکے ۔لالچ اور اپنے مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔شا عرِ مشرق نے کئی برس قبل جمہو ریت کو ایک ایسے معا شرے کے لئے ناقص قرار دیاتھاجو آج مو جود ہے ۔ان کی ایک فا ر سی نظم کا تر جمہ کچھ یو ں ہے:
”جمہو ریت میں پہلے عوام کو گد ھا بنا یا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ووٹ دے کر اپنا سوار چن لو۔دو سو گدھے مل کر بھی سو چیں تو انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے ۔یو ں لگتا ہے جمہوریت کا بھو ت جمہوری قبا پہن کر محوِ رقص ہے۔“
کاش سیاسی جما عتیں شخصیت پسندی چھوڑ کر اپنے اپنے منشور کو مدِ نظر رکھیں ۔عوام کی بہتری کا ادراک کریں ۔حب ا لوطنی کسی بھی قوم کولائقِ تقلید بنا دیتی ہے۔کر پشن کے خلاف یکجہتی کے ساتھ کمر بستہ ہو نے سے ہی بات بن سکتی ہے ۔انسان کی زندگی کتنی قیمتی ہے، کاش اس کا ادراک اگر کر لیا جائے تو سب سے پہلے اسپتا لو ں پر تو جہ دی جائے ۔ ” تندرستی ہزار نعمت ہے“ ،یہ کتابوں میں لکھا ہے ۔اس پر عمل آ خر ہمیں ہی کرنا ہے ۔جو قو میں ہمارے بعد آزاد ہو ئیں وہ آج ہم سے آ گے نکل چکی ہیں ۔ہمارے غریب عوام اپنے گردے فرو خت کر نے پر مجبور کیوں ہیں؟ خود سو زی اور خود کشی کیو ں ہو رہی ہے ؟ ہر جانب عدمِ تحفظ ہے ۔ہمارے عوام کی ہمت و صبر کا نقشہ ایک شاعر نے کس مہارت سے کھینچا ہے،ملاحظہ فرمائیے:
ہر اک مشکل میں جینا جا نتے ہیں
پھٹے دامن کو سینا جا نتے ہیں
یہ پا کستان کے شہری عجب ہیں
سفالِ ز ہر پینا جا نتے ہیں
ہزا رو ں ظلم سہہ لیتے ہیں لیکن
محبت کا قرینہ جا نتے ہیں