اگر ہم جانور ہوتے تو کیا ہوتا
ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو بے وجہ قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایااور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔
رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نااہلی سے ہٹانے کیلئے انہیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید ، روشن خیال ، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہورہا ہے اسکے ہوتے ہوئے رومن دَور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔صرف امریکی لیباریٹریز میں سالانہ لگ بھگ 70ملین چوہے ، کتے ، بلیاں ، خرگوش ، بندر ، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی کے نام پر ازیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔
چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے 3 ملین جانور صرف اس لئے مار دئیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہوسکیں حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹیریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔
فر کو تو جانے دیں۔ جانوروں کی تو کھال بھی ان کیلئے مصیبت ہے۔صرف2002سے2005ء کے دوران جوتے ، پرس ، بیلٹس ، جیکٹس وغیرہ بنانے کیلئے یورپی یونین میں 34 لاکھ بڑی چھپکلیوں ، 30 لاکھ مگرمچھوں اور34 لاکھ سانپوں کی کھالیں امپورٹ کی گئیں۔اگر ہاتھی کے دانت اور گینڈے کے سینگ نہ ہوتے تو آج ان کی نسل اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔
گائے کا دودھ یقینااہم انسانی غذا ہے لیکن اب سے 30 برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر20 سے 25 برس ہوا کرتی تھی۔اب اسے 4سے5 برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کیلئے مسلسل ہارمونل انجکشن دئیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہوسکیں۔یوں وہ تھوڑے ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔
مرغی گوشت کی 60 فیصد عالمی مانگ پوری کرتی ہے لیکن 20 فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مرجاتی ہیں۔انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ جب وہ بانجھ ہوجاتی ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔
شمالی بحر اوقیانوس کے جزائر فیرو میں ہر موسمِ گرما میں ایک ہزار پائلٹ وھیل مچھلیوں کو گھیر گھار کر کنارے تک لایا اور تیز دھار آلات سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ مچھلیوں کے قتلِ عام سے تاحدِ نظر پانی سرخ کرنے کا یہ میلہ جانے کب سے جاری ہے۔
بل فائٹنگ میں ہر سال لگ بھگ 40 ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ایک بھینسا جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں گھنٹہ بھر لگاتا ہے۔
جب گرے ہاؤنڈز ( شکاری کتے ) دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے تو انہیں گولی ماردی جاتی ہے۔یوں ہر سال لگ بھگ 50 ہزار گرے ہاؤنڈز انسانی تفریح کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ یہی سلوک ناکارہ گھوڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔فلم ہیونزگیٹ کے ایک منظر میں حقیقت بھرنے کیلئے زندہ گھوڑا ڈائنامائٹ سے اڑا دیا گیا۔
کبھی جنگوں میں بس اونٹ ، گھوڑے ، گدھے اور خچر استعمال ہوا کرتے تھے۔آج شایدکچھ ہی جانور بچے ہوں۔ ڈولفنز سے سمندر میں بچھی بارودی سرنگیں تلاش کروائی جاتی ہیں۔سی لائنز دشمن کے زیرِ آب غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔کتے بم سونگھتے پھرتے ہیں۔بارودی سرنگوں سے اَٹے میدانوں پر سے بھیڑ بکریاں گزارے جاتے ہیں تاکہ وہ میدان انسانوں کیلئے محفوظ ہوجائیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور ان کے توڑ کے تجربات ، دھماکوں کے اثرات اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائر پاور جانوروں پر آزمائی جاتی ہے۔ جن علاقوں میں بچوں کو مسلح تنازعات میں جھونکا جاتا ہے، ان کی معصومیت اور قدرتی جھجک مٹانے کیلئے ان کے ہاتھوں جانوروں کی سفاکانہ طریقے سے ہلاکت سے عسکری تربیت شروع ہوتی ہے۔جیسے مرغی پکڑ کر اس کی گردن ہاتھوں سے الگ کردینا یا ٹانگیں پکڑ کر پھاڑ دینا وغیرہ۔
ہم کو بچپن سے بار بار بتایا جاتا ہے کہ جانور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اس اللہ تعالیٰ کی تمجید کرتے ہیں۔جس نے اصحابِ کف کے کتے کیلئے بھی اجر رکھا ہے۔
ہم اُس نبی کے پیروکار ہیں جن کی بلی مغیرہ چادر پر سو جاتی تو چادر وہیں چھوڑ دیتے تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔رسول اللہ نے جانور کو داغنا ، آپس میں لڑانا اور تفریحاً ان کی شکلیں مسخ کرنا قابلِ نفرین و ملامت قرار دیا۔ فرمایا کہ جس نے ایک چڑیا کو بلاوجہ مارا اسے یومِ قیامت جواب دینا ہے۔ایسے رقیق القلب کہ پیاسے پلے کو کنوئیں سے پانی پلانے والی عورت کو اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔
مگر یہ نورانی مثالیں عقلی نابیناؤں کے کس کام کی ؟
میں تو لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں ، موٹرسائیکل کے پیچھے دوہرے بندھے بکرے ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں کے اندر معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور ایک دوسرے سے جڑی کھڑی بھینسیں ، وزن کے زور پر ہوا میں معلق گدھے ، گلے کی رسی کے جھٹکے پر ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر ، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی ہونے والے شیر ، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہو لہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے ؟
اتنی قلیل بینائی اور کم عقلی کے باوجود اگر ہم خود کو بدستور جنت کا حقدار سمجھتے ہیں تو پھر تو واقعی شاباش ہے ہمیں۔