ایک عام امریکی شہری زیادہ سے زیادہ اپنے شہر ، بہت ہوا تو اپنی ریاست اور بہت ہی تیر مارا تو کینیڈا ، میکسیکو اور اسرائیل کے نام سے واقف ہوتا ہے۔باقی دنیا میں کون کیا کیوں ہے ؟ پاکستان کوئی ملک ہے کہ صوبہ ، پہاڑ یا دریا ؟ مڈویسٹ کے امریکی کسان کی بلا سے مگر ہمارے تو ہر ذرا سے بھی پڑھے لکھے کو تو امریکی محکمہ خارجہ کے نہ صرف موجودہ بلکہ سابق ترجمان کا نام ، اسلام آباد میں متعین امریکی سفیرکا برتھ ڈے اور وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ اور نارتھ بلاک کے کمروں کی تعداد تک یاد ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عمومی امریکی بیگانگی پر اتنا بل کھانے کی کیا بات ہے۔بھلا سپرپاور کے کسی شہری کو کیا ضرورت کہ وہ جاننے کی کوشش کرے کہ ہر چپٹا چینی نہیں ہوتا۔پانامہ کوئی نہر نہیں ملک ہے۔ہنڈوراس میں کیلوں کے علاوہ انسان بھی ہوتے ہیں۔بھارت اور انڈیا 2الگ الگ ملک ہیں۔
اس قسم کی معلومات صاحبوں کی نہیں محکوم طبیعت ضرورت مندوں کی ضرورت ہیں تاکہ وہ صاحبوں کی پسند ناپسند ، رنگوں ، مزاج ، مشاغل ، رشتے داریوں اور نجی و غیر نجی مصروفیات کا رضاکارانہ ریکارڈ سینہ پھلا کر ایک دوسرے کو دکھاتے پھریں۔ویسے بھی اشرافی شجرے یاد رکھنا ایک خاص طرح کی مہارت ہے۔بھلا کسی چوہدری سے کسی میراثی کا شجرہ سنا ؟
بعض حاسد پنجابی اشرافیہ کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کا اندازِ بیگانگی امریکیوں جیسا ہے اور یہ کہ اس اشرافیہ کے پہلے 5صوبے تھے ،اب4 ہیں۔
اور یہ کہ ہمیں تو یہ تک یاد رکھنا پڑتا ہے کہ میاں صاحب نے آج اس رنگ کی ٹائی کیوں پہنی۔منشا چنیوٹی کو ان دنوں کون سا مارملیڈ پسند ہے اور جنرل گوجرخان کتنی نسلوں سے سپاہ گر ہیں،مگر وسطی و شمالی پنجاب کو بالکل ضرورت نہیں کہ وہ بلوچ اور بلوچی ، تھر اور تھر پارکر ، مالاکنڈ اور سوات ، بابا فرید اور خواجہ فرید میں فرق کرتا پھرے۔کیا اتنا جاننا کافی نہیں کہ سوئی گیس بلوچستان کے کسی علاقے سے آتی ہے اور ختم ہوگئی تو ایران اور ترکمانستان سے اور آجائیگی۔ یہ نہ جاننے سے صحت پر کیا مضر اثرات پڑیں گے کہ میرپور خاص سندھ میں ہے اور کشمیر کے میرپور سے الگ بھی ہے اور میر پور ماتھیلو کا اپنا تشخص ہے۔کیا اتنی معلومات کافی نہیں کہ باڑہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کبھی سستا اسمگل شدہ سامان ملتا تھا، اب پورا پاکستان چینی سامان کا باڑہ ہے۔
مگر میں رحیم یار خان کا پیدائشی ہونے کے ناطے ایسی جلی کٹی ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا ہوں کیونکہ جانتا ہوں کہ جس طرح پسماندہ اقوام امریکہ کی فراست ، ترقی اور طاقت سے جلتی ہیں اسی طرح بچارے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کی پنجاب کے بارے میں سوچ بھی چھوٹی رہے گی۔
کوئی نہیں جاننا چاہتا کہ پنجاب کا دل اسکے رقبے اور آبادی سے بھی بڑا ہے۔اس نے قومی یکجہتی کی خاطر اپنی ماں بولی ایک طرف رکھ کے بہت عرصے پہلے ہی اردو کو پاجامہ اپنا لیا تاکہ چھوٹے بھائیوں کو عرض گزاری میں آسانی رہے کہ ماں کی طرح ماں بولی بھی گھر کے اندر رہنی چاہئے۔ پنجاب نے نہ کسی آنے والے کو کبھی روکا نہ جانے والے کو۔پھر بھی آپ کو لاہور ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور پنڈی وغیرہ میں دیگر صوبوں کے لوگ اسلئے خال خال بسے نظرآئیں گے کیونکہ انہیں پنجاب کیخلاف مسلسل بہکایا جاتا ہے جبکہ پنجاب کو ایسا کوئی احساسِ کمتری نہیں اسی لئے جیونی سے ا سکردو تک سارا جہاں ہمارا۔
ایک عام پنجابی کو کیا پڑی کہ وہ دوسروں کے معاملات میں دخل در معقولات کرتا پھرے۔وہ تو خیر ہو جذبہ ِ انسانیت سے سرشار پنجابی اشرافیہ کی جو اپنے نادان بھائیوں کی ترقی کے لئے نہ صرف افسر شاہی ، ٹیکنو کریسی اور علماء کی شکل میں علم و ہنر بانٹتی ہے بلکہ برادرانِ یوسف کو عملاً ڈیمو دکھاتی ہے کہ ڈیموکریسی میں کچھ نہیں رکھا۔ ڈیم اور موٹر وے ایسے بنتے ہیں ، کانکنی یوں ہوتی ہے ، بندرگاہیں اس طریقے سے چلتی ہیں۔لا اینڈ آرڈر ایسے برقرار رکھا جاتا ہے۔صحرائی ، بنجر اور پہاڑی زمینیں ایسے ایسے الاٹ ہو کے شاد آباد ہوتی ہیں ، جہاد کیسی کیسی شکلوں میں اور کہاں کہاں کن کن کیخلاف ممکن ہے۔پاکستانیت کے اظہار کے موثر طریقے کیا کیا ہیں۔اچھے اور برے ملک دشمنوں میں کیسے تمیز کی جائے اور پھر ان سے کیسے کیسے نمٹا جائے یا نہ نمٹا جائے( پرانے زمانے میں اس کیفیت کو وائٹ مینز برڈن کہتے تھے )۔
مگر افسوس اشرافِ پنجاب کے اخلاصِ بے غرض کی قدر کرنے والا کوئی نہیںچنانچہ باپ کی عدم موجودگی میں پھر یہ بڑے بھائی کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ایسے کور چشم چھوٹوں کو مجبوراً عقل کا جلاب ویسے ہی دیں جیسے مائیں ناسمجھ بچوں کو پیٹ اور طبیعت کی صفائی کیلئے کاسٹر آئل پلاتی ہیں۔
ان تنگ نظروں کو تو طوطے کی طرح بس ایک ہی رٹ لگی ہے کہ پنجاب کو ہمارے لئے بس وہی بہتر لگتا ہے جو وہ اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے۔اوپر سے یہ جلن کہ دیگر صوبوں میں اس قدر بدامنی ہے تو پنجاب کیسے محفوظ ہے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ جب افریقہ ، مشرق ِ وسطیٰ اور افغانستان جل رہا ہے تو امریکہ دوسرے نائن الیون سے کیسے بچا ہوا ہے مگر ان بیوقوفوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس طرح امریکہ نے دنیا میں جگہ جگہ اپنے جوان فائر بریگیڈ کے طور پر بھیج رکھے ہیں، اسی طرح پنجابی اشرافیہ بھی اپنے فرائض سے ایک لمحے کیلئے غافل نہیں۔
اس قدر نری خالص بکواس سننے کے بعد بھی یہ شیردل پنجاب کا بڑا پن ہی تو ہے کہ ہر بار ایسے زبان درازوں پر ترس کھا کے ہنس پڑتا ہے کیونکہ جو وہ جانتا ہے وہ یہ پگلے نہیں جانتے۔
اشرافِ پنجاب اگر ہر انگلے کنگلے کی بات سنجیدگی سے لینے لگیں تو پھر تو ہوگیا کلیان۔یہاں تو اقبال تک ’’ ایک پنجابی مسلمان سے خطاب ‘‘کے باوجود ناکام ہوگیا۔
بازوئے شمشیر زن کو سادہ بات سمجھانے کیلئے بھی آدمی کا کم ازکم سکندر ، چندر گپت ، اشوک ، غوری ، غزنوی ، اکبر ، ابدالی ، رنجیت سنگھ ، وکٹوریہ ، طالبان یا مولوی خادم حسین رضوی ہونا ضروری ہے۔