ڈاکٹر جاسر الحربش۔ الجزیرہ
امریکی سیاستدانوں کو 24گھنٹے یہ راگ الاپنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ عرب حکومتیں جمہوریت کی علمبردار نہیں۔ امریکی سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ متعلقہ عرب حکومتیں خود کو جمہوریت پسند کہلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔
امریکہ کا یہ دعویٰ کہ اسرائیل جمہوریت پسند ریاست ہے حقوق کی پاسبان ہے، نگہداشت اور سرپرستی کی حقدار ہے کیونکہ یہ جنگل کے راج میں یقین رکھنے والے ممالک اور اقوام کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ سچ یہ ہے کہ امریکہ کا یہ دعویٰ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ تسلسل کے ساتھ بولا جارہا ہے۔ جان بوجھ کر بولا جارہا ہے۔ امریکی سیاستدان یہ دعوی کرکے امریکہ کے سادہ لوح عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ امریکہ عسکری ، اقتصادی اور ابلاغی وسائل اسرائیل کی خاطر وقف کئے ہوئے ہے۔ اسکا جواز بڑا معقول ہے۔ امریکی سیاستدان امریکی عوام کے ٹیکس سے ملنے والی رقم اسرائیل پر نچھاور کرنے کا جواز پیش کرنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کیلئے امریکہ کی جانبداری نے اسرائیل کو بے لگام وحشی میں تبدیل کردیا ہے۔ دنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسرائیلی سیاستدان امریکہ کے بل پر ریاست اسرائیل کی سرزمین اور یہودی مذہبی لوگوں کے یہاں ارض اسرائیل میں فرق کرنا بھول گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اتنا بڑا جھوٹ سب سے پہلے کب بولا گیا اورکس طرح لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور شرعی حقوق کے مطالبے سے چپ کرنے کے لئے یہ جھوٹ بولا جاتا رہا۔ انسانی حقوق کے ماہر غیر جانبدار امریکی مصنف جورویڈال کہتے ہیں کہ ایک دن جان ایف کینیڈی نے مجھے بتایا کہ امریکی صدر ہیری ٹرومین سیاسی نکو بنے ہوئے تھے۔ امریکی عوام انہیں نظر انداز کررہے تھے۔ وہ صدارتی امیدوار بن چکے تھے۔اسی دوران ایک امریکی صہیونی 20لاکھ ڈالر بریف کیس میں لیکر پہنچا ۔ ٹرومین اس وقت ٹرین کے ذریعے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ انہوں نے مذکورہ رقم سے پروپیگنڈے پر اچھی خاصی دولت خرچ کی اور صدر بن گئے۔ پھر امریکہ نے یہودی ریاست کے اعلان کے پہلے ہی دن اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ جورویڈال کہتے ہیں کہ جان ایف کینیڈی اور میں سامی دشمن نہیں تھے۔ ہم نے ٹرومین اور امریکی صہیونی کے قصے کو ایک معمول کی بات شمار کیا ۔ہمیں احساس تک نہ ہوا کہ امریکی سیاستدانوں کے یہاں بدعنوانی اس قدر رچ بس گئی ہے۔ جورویڈال آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ریاست اسرائیل نے دنیا بھر کے تمام حق پسندوں کو مایوس کیا۔ اسرائیل کو نسلی ، مذہبی آمرانہ ریاست میں تبدیل کردیا۔ امریکہ اور اس کے مالی تعاون کی مدد سے یہ سب کچھ ہوا۔ اگر امریکہ مدد نہ کرتا تو اسرائیل ، اسرائیل نہ ہوتا۔
آخری سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اور امریکہ کا تعلق جانبداری کے ساتھ آئندہ بھی برقرار رہیگا؟ میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں ایسا ممکن نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭