نئی دہلی۔۔۔۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وزیر اعظم کے نام اپنے خط کا متن جاری کیا جس میں 3طلاق کو سنگین تعزیری جرم میں بدلنے سے حکومت کو گریز کا مشورہ دیتے ہوئے مجوزہ بل کو بالعموم مسلم خواتین کے مفاد کے خلاف ، مطلقہ خواتین اور ان کے خاندان کیلئے موجب نقصان اور اس اقدام کو شریعت کے اصولوں سے انحراف کے رخ پر مسلم پرسنل لا میں مداخلت قراردیا گیا۔بورڈ کے صدر سید محمد رابع حسنی ندوی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنے مکتوب میں مجوزہ بل میں درج ایسے احکامات کی طرف اُن کی توجہ مبذول کرائی جن سے مذہبی اکائیوں کو آئینِ ہند میں فراہم کردہ ضمانتوں میں بھی مداخلت کا ارتکاب ہوتا ہے ۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ:
’’ طلاق بدعت ‘‘کے غیر موثر عمل کو سنگین قسم کے تعزیری جرم میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کیلئے 3سال تک کی سخت سزائے قید دینا عور ت اور اسکے بچوں کو نفقہ سے مکمل طور پر محروم کرنے کا سبب بن سکتا ہے لہذا اس کو کسی بھی طرح عور ت اور اسکے بچوں کے مفاد میں نہیں کہا جاسکتا ۔ مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل 2017ء کے تعلق سے آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے فیصلے کی طرف وزیر اعظم کی توجہ مبذول کراتے ہوئے مولانا نے کہا کہ بل کی مجوزہ دفعات اس لحاظ سے بھی غیر ضروری ہیں کہ یہ دوسرے جاریہ قوانین کی دفعات کے بھی خلاف ہیں۔ مزید یہ کہ گھریلو تشدد سے متعلق قانون 2005ء اور گارجین شپ اینڈ وارڈز ایکٹ اور مجموعہ ضابطہ فوجداری پہلے سے موجودہیں ۔ بورڈ کے نقطہ نظر کی وضاحت کیلئے مولانا رابع ندوی نے بل کی چند قابل اعتراض دفعات کا یوں حوالہ بھی دیا کہ :دفعہ 2میں لفظ’’طلاق‘‘کی دی گئی تعریف ’’طلاق بدعت‘‘سے تجاوز کرتی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ نے صرف طلاق بدعت کو ہی مسترد کیا تھا ، مجوزہ تعریف طلاق بائن وغیرہ کو بھی شامل کرسکتی ہے جس کو عدالت عظمیٰ نے غیر قانونی قرارنہیں دیا مگر طلاق بائن کو بل کی دفعہ( ب2)میں استعمال کئے گئے الفاظ یا’’ طلاق کی مماثل کوئی اور شکل جس سے فوری اور غیر رجعی طور پر طلاق واقع ہوتی ہو‘‘کے معنیٰ میں شامل ماننے سے بل کی دفعہ (ب2) (مع دفعہ 3) کا اثر طلاق بائن وغیرہ کو بھی باطل اور غیر قانونی قراردینا ہوسکتا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح تمام مطلقہ عورتوں کو نابالغ بچوں کی کسٹڈی میں دیئے جانے کے قانون میں بچے کی فلاح و بہبود کے بنیادی اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیا ۔ اس سلسلے میں سائرہ بانو کے مقدمہ کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ ضابطہ فوجداری کو نافذکرتے وقت زیادتی سے متعلق موجودہ قانون کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اس طرح کا مقدمہ کسی تیسرے کے اقدام پر متاثرہ عورت کی مرضی کے خلاف بھی کیا جاسکتا ہے جس کا خود عورت پر منفی اثر پڑیگا‘‘۔بل کا مسودہ تیار کرتے وقت قانون سازی کے پارلیمانی طریقہ کو بھی نہیں اپنایا گیا ۔ متعلقین، متاثرہ فریقوں، خواتین کی تنظیموں سے غیر موثر طلاق کے سلسلے میں قانون سازوں کے سامنے حقیقی صورتحال اور مجوزہ قانون کے منفی اثرات ، عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کو پیش کرنے کیلئے مشورہ نہیں کیا گیا ۔ مولانا نے کہا کہ مذکورہ امور کے پیش نظر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کامرکزی حکومت سے اصرارہے کہ موجودہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے ۔اگر حکومت اس طرح کا قانون بنانا ضروری سمجھتی ہے تو حکومت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی حقیقی نمائندہ تنظیموں وغیرہ سے لازمی طور پر مشورے کرے اور صرف اسی صورت میں آئینی ضمانتوں اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے 22اگست 2017ء کی روشنی میں بل تیار کیا جائے۔ چونکہ مجوزہ قانون کا اثر مسلم خواتین اور بچوں پر منفی پڑیگا اور یہ آئین ہند کی دفعہ 25میں فراہم کردہ حقوق اور بنیادی حق مساوات میں مداخلت ہے اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کریگا اور عوام میں بیداری پیدا کریگا۔ آخر میں بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ اس بل کو آگے نہ بڑھائیں بلکہ اس بل کو واپس لے لیں اور اگر ان کی حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کو ضروری خیال کرتی ہے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ان مسلم خواتین تنظیموں سے جو مسلم عورتوں کی حقیقی نمائندہ ہیں لازمی طور پر مشورہ کیا جائے۔