وہ دن بھی عجیب دِن تھے جب بے فکری ہی بے فکری تھی ہر چھوٹی بات بڑی لگتی اور اب ؟؟؟ہر بڑی بات چھوٹی لگتی ہے سب اپنے دوست تھے اور آج؟؟؟ اپنے بھی دوست نہیں
زاہد قمر- جدہ
(تیسری قسط)
بچپن کی اُوٹ سے جھانکتے ایک اور واقعہ نے ہماری توجہ کھینچ لی جیسے کوئی معصوم بچہ ماں کا آنچل کھنچ کر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ اس دور میں لڑکیاںگُڑیاں بڑے شوق سے کھیلتی ہیں اور اس کی شادی ان کے لئے بڑا مسرت آمیز اور ذمہ داری کا احساس دلانے والا کھیل ہوتا ہے ۔ ہمارے پاس بھی بڑی تعداد میں گڑیاں تھیں مگر ہم ان کی شادی کرکے خود سے دور کرنے کو تیار نہ تھے ایک عدد بھدا اور اکڑے ہوئے جسم کا گڈا بھی تھا جو ہماری توجہ سے محروم تھا۔ ہماری بہن شاہدہ نے جیسے پیار سے شایا کہتے تھے مشورہ دیا کہ ” اگر ہم اس گُڈے کی شادی کر دیں تو ہمیں مفت میں ایک گڑیا مِل جائے گی اور گڑیا والی سہیلی سے دوستی بھی مضبوط ہو جائے گی“۔ ہمیں یہ مشورہ پسند آیا اور ہم نے آس پاس گڑیا والی دوستوں میں اچھی گڑیا کی تلاش شروع کر دی۔ اگرچہ ہماراگُڈا بڑا بھدا اور عام سا تھا مگر ہم ” لڑکے والے “تھے اس لئے اس میلے موٹے اور اکڑے ہوئے گڈے کے لئے کسی حُور پری کی تلاش میں تھے۔
آخر بڑی تلاش کے بعد ہماری نظر فرزانہ پر ٹھہر گئی یہ ہماری بڑی اچھی دوست تھی اور اس کے پاس گڑیوں کا بڑا عمدہ کلیکشن تھا ہ۔م نے اس سے رشتے کی بات کی۔ پہلے تو وہ نہ مانی مگر ہم نے اسے اچھی بری کا پیکیج دیا نیز ایک پلاسٹک کے برتنوں اور ٹافیوں کے پیکٹ کی بات بھی کی جس پر اس نے گڈا دیکھنے کی فرمائش کی۔ ہم نے حامی بھری اور گھر جا کر گڈے کو خوب رگڑ رگڑ کر سرف سے دھویا اس کے بالوں کو اچھی طرح برش کیا ۔منہ سے بال پین کے نشان ہٹانے کےلئے سو جتن کئے سوراخ ہوئے ہونٹ پر لال پینٹ کیا ۔ غرض اس کو ڈھنگ کا بنا لیا اور لے کر فرزانہ کے حضورپہنچے۔ اس نے منہ بنا کر گڈے کا معائنہ کیا اور اپنی سب سے عام سی گڑیا کا رشتہ بغیرکسی جہیز کے دینے کو تیار ہو گئی ۔ اندھا کیا چاہے ’‘دو آنکھیں“ کے مصداق ہم فوراً راضی ہو گئے۔تیاریاں شروع ہوئیں اور ہم وقت مقررہ پر شاہدہ ، کامران، رضوان اور عذرا (چھوٹی بہن) کے ہمراہ بغل میں دو لہا داب کر فرزانہ کے گھر پہنچے ۔اس نے پہلے تو بری کا جائزہ لیا پھر ہمیں کمرے میں بٹھا کر ”کم بوٹیوں اور زیادہ شوربے والے“ آلو گوشت سے ہماری تواضع کی۔ میٹھا اس کے گھر میں کچھ نہیں تھا۔ اس موقع پر کامران (ہمارا بھائی) نے تجویز پیش کی کہ بری کی ٹافیاں منہ میٹھا کرنے کو نکال لو جس پر فرزانہ نے سختی سے مخالفت کی اور ہمیں شادی کی کارروائی فوری کرنے کا حکم دیا۔ ہم نے رضوان کو نکاح پڑھانے کا کہا جس پر اس نے ہل ہل کر نکاح پڑھایا۔ چھوہاروںکی جگہ فرزانہ نے ہمیں چینی کا ایک ایک چمچہ کھلایا اور پھر رُخصتی کا اعلان کر دیا۔ ہم پانچوں بہن بھائی گڑیا گڈا لے کر گھر روانہ ہوئے ۔گڑیا اور گڈے کو ہم نے گھر سے لائے کپڑے میں روٹی کی طرح لپیٹا ہوا تھا اور تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چل رہے تھے کہ آدھے راستے میں فرزانہ اور اس کی بڑی والی خرانٹ بہن نے آلیا۔ وہ گڑیا کی واپسی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی گڑیا کسی صورت ہمیں نہیں دیں گی۔ پہلے تو ہم سب نے بحث کی اور اس کے بعد گڑیا کی واپسی کے لئے پلاسٹک کے برتنوں اور ٹافیوں کے پیکٹ کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر فرزانہ کی بڑی بہن نے شور مچایا کہ” یہ لوگ ہماری گڑیا چُرا کر لے جا رہے ہیں۔ لوگوں سنو! آنٹی ، انکل سب سنیئے یہ بہن بھائی ہماری گڑیا چُرا کر لے جا رہے ہیں۔ یہ سُن کر ہم گھبرا گئے اور فوراً کپڑے سے گڑیا نکال کر فسادی رومانہ ( فرزانہ کی بڑی بہن)کے حوالے کرنا چاہی کہ ہمارے بھائی کامران نے گڑیا اُچک لی اور آن کی آن میں اس کی ٹانگ توڑ دی اور فوراًزمین پر پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ دیکھ کر ہم سب نے بھی اس کی تقلید کی ہم سب ہانپتے کانپتے بھاگ رہے تھے اور گھر جا کر ہی سُکھ کا سانس لیا۔ کئی دن تک ہم گھر سے ہی نہیں نکلے اور اسکول بھی راستہ بدل بدل کر جاتے رہے کہ ایک دن فرزانہ نے خود ہی آکر ہم سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ا پنی حرکت پر معافی مانگ لی ۔وہ اپنی گڑیا بھی دینے کو تیار تھی مگر اب ہم تیار نہ تھے۔ ہم نے اپنے گڈے کو ٹرنک کی سب سے نچلی تہہ میں رکھوا دیاتھا۔
گڑیا کی شادی ، ہنڈ کلیا میں کھانا، میٹھے پان، قلفی کا ذائقہ، گولہ گنڈے کی مٹھاس، چورن کی کٹھاس، عیدی کے جمع کئے ہوئے پیسے، اسکول کے باہر ٹھیلے کی چاٹ ، چاند رات کی مہندی اور چوڑیاں ، دوستوں کا روٹھنا اور خود مان جانا، چھوٹے چھوٹے جھگڑے اور بڑی محبتیں، نانی کی کہانیاں اور دادی کی نصیحتیں، بارش کے رنگ اور مٹی کی سوندھی مہک ۔ شاید ہی کسی کا بچپن ان رعنائیوں کے بنا گزرا ہو۔
وہ دن بھی عجیب دِن تھے جب بے فکری ہی بے فکری تھی ہر چھوٹی بات بڑی لگتی اور اب ؟؟؟ہر بڑی بات چھوٹی لگتی ہے سب اپنے دوست تھے اور آج؟؟؟ اپنے بھی دوست نہیں .... ماں باپ بھائی بہن رشتے دار، ہر رشتہ حسین تھا یا شاید وہ دور حسین تھا۔ ہم 9 بہن بھائی تھے یعنی 5 بھائی اور 4 بہنیں ”تھے“ کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ والد جیسے بڑے بھائی اب اس دنیا میں نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں کا بچپن کے بارے میں کیا تصور ہے؟؟ میرا خیال یہ ہے کہ آپ اس وقت تک بچے رہتے ہیں جب تک آپ کے والدین خصوصاً والد حیات ہوں ؟؟ اس کے بعد ہر رشتے دار کی تر جیحات بدل جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو آپ صرف اپنے بہن بھائی اور ماں کے علاوہ کسی کے رشتے دار نہیں رہتے۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ خُدا کرے قارئین ! آپ اس کرب سے نہ گُزریں مگر یہ سچ ہے بالکل ایسے جیسے سانسوں کا زیرو بم، جیسے دل کی دھڑکن، جیسے خون کا رنگ، جیسے ہنسی کا ترنم، جیسے آنسوﺅں کا نمک،خوف کا احساس، موت کا سکرات اور ذندگی کا احساس..... مجھے نہیں معلوم کہ میرے بچپن میں والد گئے یا والد کے ساتھ بچپن گیا، مگر باپ کی شفقت اور تحفظ اور ماں کی لازوال محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ۔یہ صرف الفاظ نہیں ہیں۔ یہ احساس ہے اور یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت..... مجھے ضرور بتایئے گا کہ آپ کو میرا بچپن کیسا لگا؟؟؟؟؟
(باقی آئندہ)