عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
مخالف ماحول میں کسی بھی منصوبے کی اہمیت کو منوانا آسان کام نہیں ۔ اس سے زیادہ مشکل کام ان لوگوں کو منصوبے کی اہمیت پر قائل کرناہے جو ہمیں خوب اچھے طریقے سے جانتے ہوں اورشکوک و شبہات پھیلانے کو اپنا وتیرہ بنائے ہوئے ہوں ۔ علاوہ ازیں یہ پختہ سوچ بھی رکھتے ہوں کہ ہماری قوم کو تبدیل کرنا محال ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس سے سعودی عرب دوچار ہے۔ سعودی عرب تبدیلی چاہتا ہے ، سعودی عرب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا چاہتا ہے ۔ بیرونی دنیا کے اقتصادی، ابلاغی اور سیاسی اداروں کو یہ باور کرانے کیلئے کوشاں ہے کہ وہ تبدیل ہونا چاہتاہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کو مذکورہ صورتحال درپیش ہے۔
فطری امر ہے کہ شکوک و شبہات سے دوچار لوگ کامیابی کے لمحے کا انتظار نہیں کرینگے۔وہ اپنے شکوک کے اظہار اور اپنے فیصلے بیان کرنے کے سلسلے میں اس وقت کا انتظار نہیں کرینگے جو حقیقت حال پیش کرنے کیلئے مناسب ہو۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں اور وہاں کے بہت سارے تجربات اور ناکامی پر ناکامی کے مناظر وہ دیکھے ہوئے ہیں۔ انہیں پورا حق ہے کہ وہ جو چاہے کہیں، فیصلہ تو نتائج ہی کرینگے۔ یقین محکم اور واضح تصور کے بل پر کام خود اپنے آپ کو منوا لیتا ہے اسی لئے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ نوشتہ تقدیر یہی ہے کہ ہم شکوک و شبہات پھیلانے والوں سے نالاں نہ ہوں بلکہ ان کی مجبوری کو سمجھ کر ان کے خیالات سن لینے پر اکتفا کریں۔
ابلاغی اداروں اور فکر و نظر کے مراکز سے منسلک تجزیہ نگار اور قلم کار جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں اور سعودی عرب کے حوالے سے جس قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں وہ قابل فہم ہے۔ قابل فہم اسلئے ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بیشتر ترقیاتی و تعمیراتی منصوبوں کا دھوم دھڑکے کےساتھ اعلان کیا جاتاہے۔ قومی جشن منائے جاتے ہیں، انتخابی مہم چلائی جاتی ہے۔ آخر میں نتیجہ صفر نظر آتا ہے اور بڑے بڑے منصوبوں کے تذکرے افسانوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کامیاب مثالیں کم ہیں ۔ جنوبی کوریا ، سنگاپور کامیابی کی روشن مثالیں ہیں اسی لئے ہر کامیابی کے حوالے سے انکا نام لیاجاتا ہے ۔نام لینے کا مطلب یہ ہے کہ بس یہی نمونہ ہے باقی ممالک اپنے آپ کو منوانے کیلئے اپنے دور کے منتظر ہیں۔
سعودی منصوبہ بیشمار زبردست افکار اور غیر معمولی وعدہ پر مشتمل ہے۔ سعودی شہریوں کو ان افکار اور وعدہ پر یقین کرنا ہوگا۔باہر کے لوگ اگر انہیں صرف وعدے قراردے رہے ہیں اور ان کی بابت اس وقت تک شکوک و شبہات پھیلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں تاوقتیکہ وہ حقیقت کا روپ نہ دھار لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ خارجی ابلاغ کا کام ہی شکوک و شبہات پھیلانا ہے۔ انہیں یہ سمجھانا کہ سعودی عرب جیسا مشرق وسطیٰ کا ملک ماضی¿ قریب سے چھٹکارا حاصل کرلیگا اور وہ جدت طرازی کا مثالی نمونہ بن جائیگا،اشیاءخرچ کرنے والے ملک کے بجائے پیداواری ملک میں تبدیل ہوجائیگا۔یہ مشکل کام ہے کیونکہ سعودی عرب کے حوالے سے ابتک ان کی جو معلومات ہیں نیا دعویٰ اس سے یکسر مختلف ہے۔ ہمیں خارجی دنیا کے شکوک و شبہات زیادہ پُر عزم بنائیں ،تبدیلی اور ترقی کے سلسلے میں زیادہ حوصلہ دیں ، یہی کام کرنے کا یہ مشکل کام ہے تاہم ناممکن نہیں۔
سبسڈی کے بغیر ملک میں اشیاءکے حقیقی نرخ رائج کرنا ایک چیلنج ہے، آسان نہیں ۔ بہت کم لوگ یہ مان رہے تھے کہ سعودی حکومت سبسڈی ہٹانے کا خطرہ مول لے سکے گی لیکن حکومت نے اس اقدام کی ٹھان لی۔ سبسڈی کی پالیسی عارضی طور پر قابل قبول ہوتی ہے مستقل بنیادوں پر سبسڈی کا سلسلہ معیشت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ماضی میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے آسان سیاسی حل جاری کردیئے جاتے تھے۔ وہی معمول بن جاتے تھے اور حکومت انہیں تبدیل کرنے کی جرا¿ت نہیں کرپاتی تھی۔ حقیقی اقتصادی نظام وہ ہوتاہے جو حکومت کی بیساکھیوں پر قائم نہ ہو، زیادہ سے زیادہ اسامیاں پیدا کرسکتا ہو، آمدنی کے ذرائع پیدا کرسکتا ہو۔ یہ منزل حاصل کرنے کیلئے پُر خطرراہوں سے گزرنا پڑیگا۔ اسی وجہ سے اکثر تجزیہ نگار اور صحافی اقتصادی اصلاحات کے موثر ہونے کی بابت شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا واقعی سعودی حکمراں اپنے مشن کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں گے۔ آیا وہ سماجی ، اقتصادی اور سیاسی خطرات جھیل سکیں گے ۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ سیاستداں سبسڈی اور تعطیلات دیکر عوام کو راضی کرنے کی پالیسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فی الوقت عوام خوش ہوجائیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ عارضی فیصلے عوام کے مفاد میں نہیں ہوتے اور پھر وہ سیاہ دن آجاتاہے جب فیصلہ ساز طاقتیں نہ ملازمتیں مہیا کرپاتی ہیں اور نہ تنخواہوں کا بندوبست کرسکتی ہیں اور نہ ہی خدمات مہیا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں۔سبسڈی اٹھانے کا فیصلہ آج اکثر لوگوں کو اچھا نہیں لگے گا لیکن اسی میں ان کا اور ان کی اولاد کا بہتر مستقبل مضمر ہے۔
آسمان تلے ہماری ایک جگہ ہونی ضروری ہے۔ ہماری دنیا صرف ترقی یافتہ ممالک کا احترام کرتی ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے، اس کی لن ترانیاں اسوقت تک بند نہیں ہونگی تاوقتیکہ وہ اپنی آنکھوں سے منصوبوں کو کارناموںمیں تبدیل ہوتے ہوئے نہ دیکھ لے۔
شکوک و شبہات کے مرض میں مبتلا اقتصادی کالم نگار سمجھ رہے ہیں کہ سعودی وژن ہمارے معاشرے کیلئے مناسب نہیں ۔ تیل آمدنی پر انحصار کرنے والے معاشرے میں اس قسم کے افکار چلنے والے نہیں۔ ان کے یہ شکوک و شبہات قابل فہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ تبدیلی مشکل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب تک فرد اور معاشرہ تبدیل نہیں ہوگا ،اس وقت تک بات نہیں بنے گی۔ جدید شہروں کی تعمیر ، ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی درآمد سے بات نہیں بنے گی ،یہ سب ناکافی ہوگا۔ ہمیں تعلیم و تربیت کا نظام تبدیل کرنا ہوگا، ہمیں نئے تصورات اور نئے خیالات نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ کرنا ہونگے ۔ یہ کام تخئیل سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یہ عبوری دور ہے، اس کے اعلان کا دورانیہ 12برس ہے۔ ہم اسے ہنگامی صورتحال سمجھ کر ضبط و تحمل سے کام لیں، اسی سے بات بنے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭