مسلم الرمالی۔۔الوطن
اگر ہم قدرتی آفات اور جنگوں سے متاثرہ علاقوں میں اپنی انسانیت نواز خدمات کو صحیح شکل و صورت میں پیش کرنے سے قاصر ہیں تو ایسی حالت میں پوری دنیا کو اپنے مسائل کا معقولیت اور انکے مبنی بر انصاف ہونے کا قائل کیسے کراسکتے ہیں؟
اگر ہم یہ فرض کریں کہ آپ مصیبت زدہ اقوام کو انسانیت نواز تعاون دے رہے ہیں او ردینی ، انسانی اور اخوت کے جذبے سے آپ متاثرین کی خدمت کررہے ہیں پھر اچانک آپ کے علم میں یہ بات آئے کہ آپ کے امدادی عمل کی تفصیلات کا علم آپ کے حاشیہ نشینوں کے سوا کسی کو نہیں۔ دوسری جانب علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر آپ کے امدادی عمل کے خلاف پروپیگنڈہ مہم بھی شروع کردی گئی ہو جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہو کہ آپ کے کام سطحی نوعیت کے ہیں او ر امدادی سامان کی تقسیم کے پیچھے آپ کے اپنے عزائم ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں بھی آپ کی بابت منفی رپورٹیں جاری کردیں تو یہ سب دیکھ کر سن کر آپ کو یہ احساس ضرور ہوگا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔
اگر ہم سازش کے نظریہ کو ایک طرف کرکے سنجیدگی سے حقیقت حال جاننے کی کوشش کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔شروعات اس بات سے بہتر ہوگی کہ امدادی سامان کی تقسیم کے حوالے سے ہماری ابلاغی مہم یا کمزور ہے یا مناسب حال نہیں۔ یہ اعتراف بھی بیجا نہ ہوگا کہ بسا اوقات بہت بڑا فلاحی منصوبہ روبعمل لایا جاتا ہے اوراس کے تعارف کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اسکا مطلب واضح ہے کہ اصل مسئلہ ابلاغی کوتاہی کا ہے۔ معلوم نہیں کہ میرے قارئین میری اس بات سے اتفاق کریں گے یا نہیں۔
اب ہم مفروضے سے حقیقت حال کا رخ کرتے ہیں۔ فرد سے سعودی ریاست کی جانب منتقل ہوتے ہیں۔ سعودی عرب پوری دنیا میں انسانی و امدادی کاموں کے باب میں قافلہ سالار کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں فلاحی کام کرنے والے نمایاں ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اگر ہم 2016ء کے دوران یو این ڈی پی کی رپورٹ پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ سعودی عر ب نے 2016 ء کے دوران اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ تعاون کی شرح سے کہیں زیادہ امدادی کام کیا۔ 0.7فیصد سعودی عرب کے نصیب میں آیا۔ سرکاری ترقیاتی امداد کے باب میں سعودی عرب کا نمبر پوری دنیا میں پہلا رہا۔ مملکت نے اپنی قومی آمدنی کا 1.9فیصد حصہ امداد پر خرچ کیا۔ امدادی ممالک میں دنیا بھر میں سعودی عرب کا نمبر چوتھا رہا۔ گزشتہ 40برس کے دوران سعودی عرب نے تقریباً100ممالک میں 139 ارب ڈالر مالیت کا امدادی سامان تقسیم کیا۔
شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات نے مئی 2015ء میں اپنے قیام سے لیکر دسمبر 2017ء تک 900ملین ڈالر مالیت کا سامان تقسیم کرایا۔257سے زیادہ انسانی منصوبے نافذ کئے۔ ان میں صحت، کھانے پینے کی اشیاء ، انسانیت نواز آپریشن اور خیمے وغیرہ شامل ہیں۔ مملکت نے 37متاثرہ ممالک میں 100ملین سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔
شاہ عبداللہ فائونڈیشن نے 2015ء سے 2017ء تک 17ممالک میں 8بڑے عالمی امدادی پروگرام نافذ کئے۔ان سے 60لاکھ سے زیادہ افراد نے فائدہ اٹھایا۔ اس پروگرام کے تحت 6ملین سے زیادہ لوگوں کو تعلیمی وظائف، موبائل ہیلتھ کلینکس، مغربی افریقہ کے ممالک میں ایبولا وبا کے انسداد اور پناہ گزینوں کے قیام اور انہیں انسانیت نواز خدمات فراہم کی گئیں۔
سعودی عرب کے کثیر جہتی فلاحی ادارے مصیبت زدہ اقوام کو انسانیت نواز فلاحی خدمات اپنے اپنے دائرے میں پیش کررہے ہیں۔ سعودی حکومت بھی اس سلسلے میں متعدد سطحوں پر کام کررہی ہے۔ یہ سب کچھ بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ عالمی میڈیا ان کے تعارف سے آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ سعودی میڈیا مملکت کی بابت دنیا بھر میں مثبت تصویر سازی کے حوالے سے کوتاہی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ وقتاً فوقتاً اقوام متحدہ سے رپورٹیں جاری ہوتی ہیں۔ مملکت کے خلاف منفی بیانات آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دلائل کے ذریعے انکی تردید ہو۔ عالمی رائے عامہ کو چشم کشا حقائق پیش کئے جائیں مگر ایسا کچھ نہیں ہورہا ۔
میرا سوال ہے کہ اگر ہم اپنی انسانیت نواز خدمات کو قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں اور جنگ زدہ ممالک میں متعارف نہیں کراسکتے تو عالمی تنظیموں اور عالمی رائے عامہ کو اپنے مسائل کی معقولیت اور مبنی برانصاف ہونے پر کس طرح سے قائل کرسکیں گے۔اس حوالے سے 2017 ء کے اواخر میں سعودی وزارت ثقافت و اطلاعا ت کی جانب سے عالمی رابطہ مرکز کے قیام کا اعلان خوش آئند ہے ۔ کاش کہ وہ ابلاغی کوتاہی کا خلا پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔